پاکستان نے بھارت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی181ویں برسی پر 29 جون کو کرتار پور راہداری کھولنے کی پیشکش کی ‘ لیکن بھارت نے حسب ِ روایت تعصب اور غیردوستانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت‘ تکنیکی مسائل اوربرسات میں یاتریوں کے لیے ناکافی سہولیات کا بہانہ تراش کریہ پیشکش رد کردی ہے‘ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کو سکھوں اور ان کے مذہب اور گروئوں کا کتنا احترام ہے؟یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں خالصتان موومنٹ نے '' ریفرنڈم 2020 ء ‘ کیلئے باقاعدہ رجسٹریشن کا آغاز کردیا اور اس سلسلے میں ہونے والی ایک تقریب سے خالصتان موومنٹ کے لیڈر گوپال سنگھ چاولہ نے بتایا کہ با باجی گرونانک کے خالصوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ‘ وشوا ہندو پریشد اور جنتا پارٹی کی بادشاہت کیلئے آگ اور بارود کا ایندھن نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی فوج سے استعفے دینا شروع کر دیئے ہیں اور اب تک 10 ہزار سے زائد سکھ فوجی استعفیٰ دے کر پر امن خالصتان موومنٹ کا حصہ بن چکے ہیں‘ ان میں سے اکثر نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے متعلقہ اداروں سے ملنے اپنے واجبات کی بھی قربانی دی ہے۔
اس حوالے سے استعفے دینے والے سکھ فوجیوںکا کہنا ہے کہ وہ ننکانہ صاحب‘پنجہ صاحب حسن ابدال‘ کرتار پور جیسی جنم بھومی پر گولہ باری تو ان پر ایک گولی تک فائر کرنے کا نہیں سوچ سکتے۔''خالصتان‘‘ اپنی منزل کی جانب بڑھ گا اور یہ منزل وہ وعدہ ہے‘ جو مہاتما گاندھی نے 1947ء میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پیشکش قبول نہ کرنے کی صورت میں سکھوں کو خالصتان کی صورت میں علیحدہ ریا ست دینے کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا۔پنجاب کے سکھوں سے آر ایس ایس کو کتنی محبت ہے؟ اس کا اندازہ کرنے کیلئے جنرل ہر بخش سنگھ کی کتاب کو سامنے رکھنا ہو گا؟۔ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ ‘ جنگ ِستمبر1965ء میں لاہور اور قصور سیکٹر زکے کمانڈر تھے۔ وہ اپنی کتاب''War Despatches: Indo-Pak Conflict 1965‘‘میں لکھتے ہیں کہ ''دوران ِجنگ ایک شام انہیں انڈین آرمی چیف جنرل چوہدری کا انتہائی خفیہ پیغام ملا کہ تم فوری طور پر اپنی فوجوں کو واپس دریائے بیاس سے پیچھے لے آئو‘‘ ۔ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ لکھتے ہیں کہ ''یہ پیغام سن کر چند لمحے تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں؟ مجھے ایسا لگا کہ یہ بھارت کے آرمی چیف کا حکم نہیں‘ بلکہ دوران ِجنگ دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کی کوئی چال ہے ‘ اگر بحیثیت ویسٹرن کمانڈراس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی فوجیں لاہور اور کھیم کرن سے ہٹا کر بیاس سے پیچھے لے آتاتو پھر ہمارے قدم پیچھے ہی ہٹتے جائیں گے‘ جس کا صاف مطلب ہو گا کہ سکھوں کا پنجاب اپنے مقدس ترین گولڈن ٹمپل سمیت پاکستانی فوج کے رحم و کرم پر ہو گا‘‘۔ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ مزید لکھتے ہیں کہ '' ہر سکھ یہ سوچنے لگا کہ اگر 65 کی جنگ میں نئی دہلی کا حکم مان کر دریائے بیاس سے پیچھے آ جاتے تو ہم سکھوں پر کیا کیا آفتیں نہ ٹوٹتیں؟‘‘۔
اب‘ جیسے جیسے سکھ نوجوان نسل ‘ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ کی کتاب ''War Despatches: Indo-Pak Conflict 1965ء‘‘کے اس باب پر نظر پڑرہی ہے‘ تو بطورِ سکھ قوم یہ سوچ دکھ ا ور غصے میں تبدیل ہورہی ہے کہ کیا ہندو براہمن نے ہمیں صرف اپنے لال قلعہ کی حفاظت کی خاطر بلیدان دینے کیلئے رکھا ہوا ہے؟ واضح رہے کہ جس تیزی سے لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ کی مذکورہ کتاب آج کل دلچسپی سے آن لائن پڑھی جا رہی ہے‘ بھارتی پنجاب اور انڈین فوج کی مختلف بٹالینز میں فرائض انجام دینے والے سکھ فوجی افسران سوچنے لگے ہیں کہ کیا انہیں مستقبل میں ہونے والی کسی بھی پاک بھارت جنگ کا ایندھن بننا چاہیے؟ اگر راشٹریہ کے غنڈوں پر مشتمل نریندر مودی متعصب سرکار نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑی تو پہلے کی طرح فوجی جنتا کو گولڈن ٹیمپل یا دربار گرو گوبند سنگھ کے ارد گرد ریڈار یاکسی جنگی انسٹالیشن کو بھارتی فوج کے نقطۂ نظر سے نصب کرنے کی ہر گز اجا زت نہیں دی جائے گی ‘ جبکہ پاکستانی پائلٹس آج بھی سکھوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنانے سے پرہیز کرتے ہیں۔
چند برس ہوئے خالصتانی لیڈر پروفیسر گرجیت سنگھ نے LISA کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب میں سکھ حاضرین سے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا '' کیا اسرائیل بیت المقدس کے اندر جنگی ریڈار نصب کر تا ہے؟ کیا عیسائی اپنے ویٹی کن سٹی میں اپنے پوپ کی رہائش گاہ اور دفتر سے ملحقہ کسی بھی جگہ پرکوئی حساس نوعیت کا جنگی اڈہ بنائیں گے؟کیا ہندوستان بھر میں کسی بھی جگہ پر موجود ہندو مذہب کے رام اور سیتا اور وشنو سمیت مندروں کے اندر یا ملحقہ جگہوں پر ریڈار سٹیشن قائم کرتے ہیں؟دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ حاضرین کا ایک ہی جواب تھا کہ ایسا کہیں بھی نہیں۔جس پر پروفیسر گورجیت سنگھ نے سکھوں سے کہا کہ '' اگر لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ‘ لاہور قصور سیکٹرز سے انڈین فوج کو بیاس کے ہماری طر ف کے علا قے میں لے آتے تو ہم سب کی تباہی اور بربادی لازمی تھی۔ انڈیا کی وہ فوج‘ جس نے ایک بھنڈرانوالہ کو مارنے کیلئے ہمارے گولڈن ٹمپل کو اپنے ناپاک جوتوں سمیت تاراج کیا‘ 65 کی طرح کسی بھی جنگ میں انہیں اپنی جانیں بچا کر بھاگتے ہوئے اس سے کیا غرض کہ سکھوں کے جان و مال اور مقدس مقامات کے ساتھ کیا ہو گا‘‘۔
پروفیسر گرجیت سنگھ کا مزید کہنا ہے کہ ''نئی دہلی کے وشوا ہندو پریشد نے ستمبر1965ء کی جنگ میں امرتسر کی مقدس ترین عبادت گاہ سے ملحقہ جگہ پر اہم ترین فضائی ریڈار سٹیشن اس لئے بنایا کہ گولڈن ٹمپل پاکستانی فضائیہ کا نشانہ بنے اور ہم سکھوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف آگ لگا سکیں‘‘۔ پروفیسر گورجیت سنگھ کہتے ہیں کہ '' انڈین ائر فورس اور بھارتی زمینی توپوں سے بچائو کیلئے پاکستان کیا ننکانہ صاحب ‘ حسن ابدال‘ رنجیت سنگھ کی مڑھی یا کرتار پور کے ساتھ اپنے ریڈار سٹیشن نصب کرسکتا تھا‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے ہم سکھوں کے امرتسر میں مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل سے ملحقہ آبادی میں فضائی ریڈار سٹیشن نصب کردیا‘ تاکہ یہاں سے پاکستانی ائیر فورس کی موومنٹ پر نظر رکھی جائے اور یہ سچ ہے کہ 65کی جنگ میں امرتسر کے اس ریڈار سٹیشن کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا‘‘۔
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے گورو نانک جی خالصوں کیلئے شائد یہ خبر نئی ہو‘ لیکن سچ یہ ہے کہ جنگ ِستمبر کے چھٹے روز گیارہ ستمبر کی سہ پہر تنگ آکر پاکستانی فضائیہ نے امرتسر کے اس ریڈار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ کیونکہ اس کی وجہ سے اسے بے پناہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور اس کی تباہی کے سوا پاکستان کے پاس کوئی اور چارہ نہ رہا ۔ سرگودھا کے فضائی ہیڈ کوارٹر سے اس مشن پر جانے والے طیارے سیبر 86 کے ہوا بازوں ونگ کمانڈر انور شمیم‘ سکواڈرن لیڈر منیر احمد‘ فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی اور اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو خصوصی حکم جاری ہواکہ اگر اس حملے کے دوران تمہیں ذرا سا بھی اندازہ ہو کہ اس سے گولڈن ٹمپل کی کسی ایک دیوارپر بھی خراش آ سکتی ہے تو اپنا مشن چھوڑ کر واپس آ جانا ۔
بھارت کے ریٹائر ڈسکھ فوجیوں نے امرتسر کے آج کے بزرگوں سے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی نوجوان سکھ نسل اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ امرتسر کا فضائی ریڈار سٹیشن جب تباہ ہوا تو امرتسرکا کوئی ایک شہری بھی اس سے ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا؟اور گولڈن ٹمپل سے ملحقہ گنجان آبادی میں قائم کئے گئے اس بھارتی ریڈار سٹیشن پر حملے کے دوران اس آپریشن کے سکواڈرن لیڈر منیر احمد جو اس ریڈار کو تباہ کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے نشانے پر لپکے اس لئے شہید ہو ئے کہ انہیں شک ہو اکہ ان کی گولہ باری سے سکھوں کے مقدس گولڈن ٹمپل کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ لمحوں کے اسی شش و پنج کی بے خبری انہیں دشمن کی طیارہ شکن گنوں کا نشانہ بنا گئی تھی ۔