المرتضیٰ لاڑکانہ میں ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پی آئی اے کے کچھ معاملات پر بریفنگ دینے کے بعد جانے کے لیے اٹھے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں ان سے جیسے ہی کچھ کہا نور خان ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل کر کراچی پہنچتے ہی بحیثیت چیئر مین پی آئی اے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہائوس بھجوا دیا۔ اس استعفیٰ کی وجہ محفوظ مصطفی بھٹو تھا جو پرائم منسٹر کی ہمشیرہ کا بیٹا تھا‘ جس کی تعلیمی قابلیت اس پوسٹ کے دور دور تک بھی معیار کے مطا بق نہ تھی لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کرا دیا گیا جس کے لیے لوگ نہ جانے کتنی سفارشیں‘ رشوت اور دھکے کھاتے ہیں۔
محفوظ مصطفی بھٹو کا دفتر اُس وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا‘ انہیں پی آئی اے کی طرف سے ایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ مہیا کیا جاتا ۔پی آئی اے کے کاغذات اور اس کے سینے پر سجی نیم پلیٹ دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ اس کا نام محفوظ مصطفی بھٹو ہے لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا اور اس کے اصل نام سے بہت کم لوگوں واقف تھے۔
ممتاز علی بھٹو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس لئے محفوظ مصطفی عرف ٹِکو کی تمام سر گرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہائوس سے مختلف وزراء ‘ سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود رہتا اور پی آئی اے کے معاملات سے ان کی بے خبری اور لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیتے ہوئے اسے وارننگ لیٹر جاری کرنے شروع کر د یئے‘ لیکن اس کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے سے ڈرجاتے۔ بات چلتے چلتے چیئر مین پی آئی اے ائیر مارشل ریٹائرڈ نور خان کی میز تک جا پہنچی ‘جس کا انہوں نے سخت نوٹس لیتے ہوئے محفوظ مصطفی کی اچھی طرح کھچائی کرتے ہوئے اسے آخری وارننگ لیٹر جاری کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے تو آپ کو کام کرنا ہو گا اور آپ کے کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔ اگر آپ ایسا نہیں کر تے تو پھر آپ کو بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا‘ ذہن نشین کر لیجئے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کے سواآپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔
محفوظ مصطفی عرف ٹکوکو چیئر مین/ منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے وارننگ لیٹر جاری ہونے کے چند روز بعد وزیر اعظم ہائوس سے ائیرمارشل نور خان کو پیغام موصول ہوا کہ پرائم منسٹر لاڑکانہ جا رہے ہیں انہوں نے آپ کو پی آئی اے کے فلاں فلاں معاملات پر بریفنگ کے لیے بلایا ہے۔پیغام ملتے ہی ائیر مارشل نور خان نے متعلقہ معاملات کی فائلیں اور بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں المرتضیٰ میں وزیر اعظم بھٹو ان کے منتظر تھے۔ اس میٹنگ میں ائیر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بحث کی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میٹنگ کے بعد جب ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا: ائیر مارشل مت بھولئے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے:Air Marshal, A Bhutto is a Bhutto۔
ائیر مارشل ملک نور خان اعوان سمجھ گئے کہ یہ اشارہ انہیں محفوظ مصطفی بھٹوعرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے دیا جا رہا ہے‘ جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کہاجانے والا معنی خیز فقرہ سن کر نور خان نے کسی قسم کے رد عمل یااس کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے لاڑکانہ سے سیدھے کراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہائوس فیکس کر دیا۔ میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی چلی گئی اور پھر ایسی گری کہ ابھی تک سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جنرل ضیا الحق نے اپنے ایک انتہائی جونیئر قریبی عزیز ائیر کموڈور کو ائیر فورس سے پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کیلئے بھیج دیا‘ جس نے ائیر مارشل وقار عظیم سے مل کر پی آئی اے میں تاریخ کی بد ترین لوٹ ما رکی جس کے نتیجے میں وقار عظیم کو کچھ عرصہ جیل میں بھی گزارنا پڑا۔ پھر جو بھی آیا اس نے یونینز کے ذریعے آئے روز کی ہڑتالوں اور سازشوں کے ذریعے پی آئی اے کو تباہی کے دھانے تک پہنچا کر دم لیا۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیر لائنز کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی‘ تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟ ائیر مارشل نور خان اس قوم کا وہ ستارہ تھا جو ائیر فورس‘ پی آئی اے‘ سکوائش‘ ہاکی اور کرکٹ کے ہر عہدے پر جہاں جہاں بھی براجمان ہوا پاکستان کے نام اور مقام کو بلندیوں تک لے گیا ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح اور ٹریولر اپنے اپنے ملکوں کی ائیر لائنز پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔ نور خان مرحوم کی وطن سے محبت اور مر مٹنے کا جذبہ اس ایک واقعہ سے ہی سمجھ لیں کہ 20 جنوری1978ء کو پی آئی اے کا طیارہ جس میں22 مسافر سوار تھے کراچی میں ہائی جیک کر لیا گیا اور ہائی جیکر نے پائلٹ کو حکم دیا کہ جہاز کو بھارت لے جایا جائے ۔ائیر مارشل نورخان ہائی جیکر سے بات کرنے کیلئے جہاز کے اندر اکیلے ہی خالی ہاتھ جا پہنچے اور اسے باتوں میں مصروف رکھتے ہوئے اچانک اس کے ہاتھ سے پستول چھیننے کیلئے اس پر جھپٹے‘اس دوران ہائی جیکر کی چلائی گئی گولی سے ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی لیکن اس کے با وجود ہائی جیکر پر قابو پاتے ہوئے جہاز کے بائیس مسافروں کی زندگیاں محفوظ بنا نے میں کامیاب رہے۔آج بلاول بھٹو فرماتے ہیں کہ پی آئی اے کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا ‘ان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ پی آئی اے کی تباہی کا منظر آپ کو بتا ہی دیا ہے‘ اور تباہی و بربادی کی ایک نہیں کئی ہزار داستانیں ہیں۔ یہی گھن اس مستحکم اور اچھی شہرت کی حامل ائیر لائنز کو کھا گیا اور آج یہ حالت ہے کہ پی آئی اے پر پابندیاں لگ رہیں ہیں جبکہ وہ ائیر لائنز جنہیں پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے آج وہ پی آئی اے کی جگہ اس ریجن کا بزنس سنبھال رہی ہیں۔پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا اس پر کاش کوئی ایسا کمیشن بنے جو اوپن کورٹ میں ہر ذمہ دار کو قوم کے سامنے لاکر بتائے کہ پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا اور بے دردی سے تباہ کیا ۔
1972ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے معروف صنعت کار رفیق سہگل کو پی آئی اے کا چیئر مین مقرر کیا تھا جن کا جلد ہی ایک حسین و جمیل ائیر ہوسٹس سے ایسا معاشقہ شروع ہو ا کہ رفیق سہگل کی توجہ پی آئی اے سے ہٹ کر ائیر ہوسٹس پر مرکوز ہو کر ہو گئی اور اس ائیر ہوسٹس کی مہربانی سے انتظامیہ کمزور اور پی آئی اے کی یونینز طاقتور بھوت کی شکل میں تمام معاملات پر حاوی ہو گئیں۔جب معاملات بے قابو ہو گئے تورفیق سہگل کو فارغ کر دیا گیا ۔فہرست لمبی ہے آصف زرداری کا اعجاز ہارون کو ایم ڈی مقرر کرنا‘ ایان علی کو شاہی پروٹوکول دیا جانا‘ فہرست بہت لمبی ہے‘ کاش کوئی اﷲ کا بندہ اٹھے اور ان سب کی شفاف انکوائریاں کرا کر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے؟
موجودہ حکومت کی جانب سے بارہا اداروں کی اصلاحات کے دعوے کئے گئے ہیں‘ ابھی چند روز قبل قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ وہ اداروں کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں‘ اور قومی اداروں میں اصلاحات کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ذہن پی آئی اے اور سٹیل ملز کی طرف جاتا ہے۔ یہ اہم قومی ملکیتی ادارے عرصہ ہوا ‘ سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ انہیں منصوبے سے تباہ کیا گیا ہے ‘ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ سٹیل کے اس کارخانے اور ایشیا کی چوٹی کی ائیر لائنز کا یہ حال ہوتا۔