فارن پالیسی میگزین نے 7 اگست2017ء کے شمارے میں سوال اٹھایا تھا ''2020ء میں بھارت اور چین کے درمیان نیول وار کون جیتے گا؟‘‘ فارن پالیسی کی تین برس قبل کی ہیڈ لائن یہ تھی''A Sino-Indian Naval War seems improbable‘‘ امریکا کے مشہور تھنک ٹینک رابرٹ ڈی کپلان جیسے سمندری امور کے ماہر دس برس پیشتر کہہ چکے ہیں کہ اگلی جنگ خشکی پر کم اور سمندروں میں زیادہ لڑی جائے گی۔ رابرٹ ڈی کپلان کے مطا بق مشرقی ایشیا Seascape ہے‘ اس لئے سمجھ لیجئے کہ جنگ کا میدان یورپ نہیں ایشیا ہو گا۔ امریکا اور اس کا کوئی اتحادی اگر چین کی زمینی سرحدیں پار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا جو نقصان اسے پہنچے گا‘ وہ اس کی کمر توڑ کر رکھ دے گا اس لئے امریکی تھنک ٹینک اور جنگی ماہرین فیصلہ کر چکے ہیں کہ کسی بھی علاقائی یا عالمی جنگ کا میدان چین اور اس کے جنوبی سمندروں کی جانب کر دیا جائے اور قرائن سے یہی لگ رہا ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا جب بھی کوئی میدان سجا تو وہ خشکی پر کم اور سمندروں میں زیا دہ ہو گا۔ اب تک جو شواہد سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق امریکا، آسٹریلیا، ویتنام، بھارت اور جاپان‘ چین کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھانے میں پہل کر سکتے ہیں حالانکہ دوسری جنگ عظیم میں ناگا ساکی اور ہیرو شیما جیسے تلخ تجربے کے بعد جاپان کے آئین کے آرٹیکل میں واضح طور پر لکھ دیا گیا تھا ''Country never walks the path of war again‘‘۔
امر یکا چالبازی سے پیچھے بیٹھ کر آسٹریلیا، ویتنام، تائیوان، بھارت اور جاپان کو چین کے خلاف بطور مہرہ استعمال کر رہا ہے تاکہ جب اس کے ان اتحادیوں کی طاقت ختم ہو جائے تو پھر دوسری جنگ عظیم کی طرح‘ یورپ کو ساتھ ملاتے ہوئے‘ آگے بڑھ کر سب کچھ سمیٹ لے۔ رابرٹ ڈی کپلان نے دس برس پہلے اپنی رپورٹ میں مغرب اور امریکا کو خبردار کیا تھا '' تم لوگ ایک ایسے سمندر کو نظر انداز کر رہے ہو جو بہت جلد توانائی، دفاعی اور تجارتی مقاصد کے لئے انتہائی اہمیت اختیار کرنے جا رہا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم نے بحر ہند جیسے اس اہم جیوگرافک اوشن کے گرد سینٹرل ایشیا اور افریقہ میں وجود میں آنے والے نئے ممالک اور وہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو نظر انداز کر رکھا ہے‘‘۔
دنیا بھر کے دفاعی اور سمندری ماہرین نے تیسرے بڑے سمندر‘ جو بحر ہند کو ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا سے ملاتا ہے‘ ''The Bed of Future Conflicts‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ رابرٹ کپلان کی رپورٹ کے مطا بق بحر ہند سے تیل کی تجارت کا موجودہ حجم 80 فیصد ہے۔ امریکا بھارت، انڈونیشیا، فلپائن، جاپان ، ویتنام اور آسٹریلیا کو چین کا متحارب بنا کر اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے کیونکہ ان ممالک کی مستقبل کی توانائی کی تمام ضروریات کا یہی روٹ ہے جو دنیا کے تمام سمندروں کا تقریبٍاً پانچواں حصہ ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق 2018ء تک چین کی 84 فیصد تجارت آبنائے ملاکا (Strait of Malacca) کے ذریعے کی گئی ہے اور اب امریکا کی نظریں اسی ''سٹریٹ آف ملاکا‘‘ پر جمی ہوئی ہیں۔ (سٹریٹ آف ملاکا انڈونیشیا اور ملائیشیا کے مابین تزویراتی بحری گزرگاہ ہے)۔ چین کی زیا دہ تر امپورٹس سٹریٹ آف ملاکا سے ہی گزرتی ہیں۔ بحر ہند کی طرف دیکھیں تو یہ 45 ملین مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور رابرٹ ڈی کپلان امریکا اور اس کی حلیف طاقتوں کی ''بحر ہند میں مسابقانہ کشمکش‘‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کر چکا ہے کہ کل کا جنگی میدان جرمنی یا آسٹریا نہیں اور نہ ہی یہ روس اور امریکا کی فضائوں اور سمندروں میں ہو گا بلکہ بحیرہ ہند کا یہی حصہ ''Center Stage for The 21st Centuary‘‘ بنے گا۔
امریکا گوادر پورٹ، سی پیک اور سٹریٹ آف ملاکا کو اپنے نشانے پر رکھنے کے لئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بحر ہند میں شاید انہی مقاصد کے لئے فوجی اڈے اور باہمی مشقیں کراتے ہوئے کمال چالاکی سے آسٹریلیا اور بھارت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سینٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا، پیسیفک ایشیا اور بحر ہند کی حکمرانی دینے کے خواب دکھا رہا ہے۔ نریندر مودی تو ہلکے سے اشارے پر امریکی نکیل سے ناچنا اپنا فرض سمجھ چکے ہیں لیکن کیا آسٹریلیا اور جاپان کے عوام خودکو امریکی کنڈی کا چارہ بننا پسند کریں گے؟
سائوتھ چائنہ سمندر میں چین کے دائیں جانب ویتنام اور بائیں جانب تائیوان ہے تو چین کے Nine Dash Line کے گردا گرد فلپائن، برونائی اور امریکا کی لمبیا ایئر بیس، میکٹان ایئر بیس، انٹونیو ایئر بیس، باسا ایئر بیس اور فورٹ مگساکا جال ہے۔ امریکا کی کسی بھی ممکنہ شرارت کو سر اٹھانے سے پہلے ہی روکنے کے لئے چین نے بھی چند روز ہوئے‘ اپنا ایک ا ور جنگی بحری بیڑہ سائوتھ چائنہ سمندر میں اتار دیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے ہانگ کانگ گیریژن کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں اینٹی سب میرین ایکسر سائزز بھی شروع کر دی ہیں۔ امریکا نے بڑی ہی خاموشی سے تائیوان کے ساتھ 620 ملین ڈالر اسلحہ کے فروخت کی ڈیل کی ہے جس میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے پیٹریاٹ میزائل بھی شامل ہیں تاکہ چین کے مقابلے میں اسے ہر طرح سے تیار کیا جا سکے۔ چین نے اسلحہ کی اس ڈیل کے جواب میں امریکا کے دفاعی کنٹریکٹر لاک ہیڈ مارٹن پر پابندی عائد کرتے ہوئے امریکا کو وارننگ دی ہے کہ ''تم دیکھو گے کہ بہت جلد تائیوان چین کا حصہ ہو گا کیونکہ وہاں کی اکثریت چین کے ساتھ شامل ہونے کے لئے بے تاب ہے‘‘۔ جس طرح گلوان میں بھارت چینی فوج کے قبضے پر بھارت اچھل کود رہا ہے‘ سائوتھ چائنہ سمندر کےParacel جزیرے میں چینی فوج کی بڑھتی ہوئی تعداد اور وہاں F-6J بمبار کی ڈپلائمنٹ پر ویتنام پھنکار رہا ہے۔ چین کی اس پیش قدمی کا مقصد امریکا کو سخت جواب دینا ہے۔ دوسری جانب آسام کے تیزپور ایئر بیس پر بھارتی طیاروں کی آمد و رفت مانیٹر کرتے ہی چین میانمار ایئر سپیس استعمال کرنے کی مشقیں شروع کر چکا ہے تاکہ بھارت کو وہ سرپرائز دیا جائے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے۔
چین اور امریکا کی فوجی قوت کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت امریکا کے12لاکھ 82ہزار 900 فوجیوں کے مقابلے میں چین کے26لاکھ 93ہزار فوجی ہیں۔ امریکا کے پاس جنگی ٹینک6287 ہیں جبکہ چین کے پاس 13050۔ امریکا کے نیول جہاز 415 اور چین کے 714 ہیں۔ امریکا کے جنگی طیارے 13398 اور چین کے پاس3187 طیارے ہیں۔ امریکی ریزرو تیل36ارب52کروڑ بیرل اور چین کے پاس 25ارب 62کروڑ بیرل تیل موجود ہے۔ اب بھارت، تائیوان، ویتنام، آسٹریلیا، برونائی، انڈونیشیا، فلپائن کے بعد اگر ملائیشیا بھی امریکا کا ساتھ دینے کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چین کے بیلیسٹک اور نیو کلیئر اثاثے کس کس ملک کو نشانہ بنائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 22 اگست کو نئی دہلی میں ویتنام کے سفیر پھام سان چائو بھاگ کر بھارت کے فارن سیکرٹری کے پاس پہنچے اور واویلا شروع کر دیا کہ چین سائوتھ چائنہ سمندر میں فائٹر ایئر کرافٹ اور بمبار طیارے لے آیا ہے۔
گلوان وادی میں پی ایل اے کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد بھارتی فوج نے نریندر مودی کو بریف کیا تھا کہ ہمالیہ میں ہم چین کے مقابلے میں اترے تو پاکستان مداخلت کرے گا اس لیے یہاں ہم کمزور پڑ سکتے ہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ امریکا کے تعاون سے چین کو یہ پیغام دیں ''Don't poke us here, we won't poke you there‘‘۔
یہ پیغام ملنے کے بعد بھی چین گلوان اور لداخ سے ایک کلومیٹر بھی پیچھے نہیں ہٹا، شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ جمعے کو امریکی Reagan SS سٹرائیکنگ ایئر کرافٹ کیریئر جہاز سائوتھ چائنہ سمندر میں بھیج دیا گیاہے۔