اس وقت ایک اندازے کے مطابق لندن میں پاکستان کو مطلوب ایک‘ دو نہیں‘ درجن کے قریب افراد کے فراری کیمپ دیکھنے میں آ رہے ہیں، جہاں حکومت پاکستان کو مطلوب ملزمان اور مجرمان نے اپنے لائو لشکر کے ساتھ ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کل تک میڈیا میں جب کسی فراری کیمپ کا نام سننے میں آتا تھا تو بہت سے لوگ سوال کرتے کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ فراری کیمپ کہاں ہیں؟ کچھ لوگ سمجھتے رہے کہ شاید یہ موٹر ریس کے مقابلے کی جگہ کو کہا جاتا ہے لیکن جب خبر میں ساتھ یہ بتایا جانے لگا کہ بلوچستان میں وکلا پر خود کش حملہ کرنے والا حملہ آور یا گھات لگا کر شہریوں، پولیس، ایف سی اور فوج کے اہلکاروں کو شہید کرنے والے دہشت گرد فلاں فلاں فراری کیمپ سے آئے تھے یا کسی انٹیلی جنس کی فراہم کردہ اطلاع پر سکیورٹی فورسز کے لوگوں نے کمانڈو آپریشن کرتے ہوئے کچھ دہشت گردوں کو ہلاک اور کچھ کو زندہ گرفتار کر لیا تو پھر اندازہ ہونے لگا کہ خطرناک قسم کے جرائم میں ملوث افراد کے ٹھکانوں کو فراری کیمپ کہا جاتا ہے‘ جہاں ملک کے اندر نصب بجلی‘ گیس کی لائنوں کو تباہ کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں رچائی جاتی ہیں۔ پاکستان کا لہراتا ہوا قومی پرچم ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے اور اس پاک دھرتی کے بے گناہ شہریوں‘ جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین سمیت سبھی شامل ہیں‘ کو بم دھماکوں اور سنیپ فائرنگ سے شہید کرنے کی سازشیں رچائی جاتی ہیں۔ آج کل لندن کے کئی علاقے میڈیا اور سوسائٹی میں فراری کیمپوں کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں جہاں اپنی پسند کے میڈیا کو بلا کر پاکستان کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں۔ راقم چونکہ ان اصحاب کے بہت قریب رہا ہے اس لئے اچھی طرح جانتا ہے کہ بڑے صاحب میڈیا سے وابستہ اراکین کو کس طرح اپنے دامِ فریب میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ عناصر کی زبانیں اور جیبیں اس طرح گرم کر دی جاتی ہیں کہ ان کی گرمی سے سچائی اور حقیقت باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
آج سے کوئی 22 برس قبل ایک ہفت روزہ جریدے میں ان لوگوں کی ایک فہرست شائع کی گئی تھی جن کے نا موں کے ساتھ وہ خطیر رقوم بھی درج تھیں جو انہیں باقاعدگی سے دی جاتی تھیں۔ (وہ فہرست راقم کے پاس آج بھی موجود اور محفوظ ہے)۔
عمران خان صاحب کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی مسند کی راہیں ہموار کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ایک رہنما‘ جن کا نام چینی سکینڈل میں بھی سامنے آیا تھا‘ بھی لندن کے نواح میں ایک فارم ہائوس کو کیمپ کا درجہ دے کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان میں اور دوسرے کیمپوں میں ایک فرق ہے‘ وہ یہ کہ مذکورہ رہنما اپنی جگہ پر خاموش ہیں، ان کی زبان سے سوائے پاکستان کی خیر اور حفاطت کے کوئی دوسرا لفظ نہیں نکل رہا بلکہ وہ تو دوسرے کیمپوں میں ہونے والی سرگرمیوں کو ایک محب وطن کی حیثیت سے مانیٹر کر رہے ہیں۔
جس طرح بلوچستان کی دشورا گزار پہاڑیوں کے وسیع در وسیع سلسلوں میں چھپ کر پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے مرتکب افراد موقع ملتے ہی فراری کیمپوں سے حملے کرتے ہیں‘ اسی طرح کچھ دوسرے افراد انسانی حقوق، آئینی حدود اور مسنگ پرسنز کا شوشہ چھوڑ کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں اور سننے میں آ رہا ہے کہ باہر کے فراری کیمپوں سے ان کی اچھی خاصی خدمت بھی کی جا رہی ہے۔
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اُس ٹریول ایجنسی‘ جس سے ایک مشہور خاندان کے دنیا بھر میں سفر کے لئے فضائی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں‘ سے پاکستان، امریکا، قطر، دبئی اور دوسرے ممالک کے لئے ان دانشوروں اور پردہ نشینوں کے ٹکٹ بھی جا ری ہو رہے ہیں اور ان ٹکٹوں کی ادائیگیاں ایک فراری کیمپ کے انچارج کے اکائونٹ سے ہو رہی ہیں، واللہ اعلم! اب یہ معاملہ کھل کر سامنے آئے گا تو اس پر سوال بھی اٹھیں گے۔ کون ہے جو پاکستان کے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کی ترغیب دے رہا ہے یا ان میں مدد فراہم کر رہا ہے؟
لندن کے فراری کیمپوں سے پاکستان کی سکیورٹی انسٹالیشن کی مخبریاں بھی کی جا رہی ہیں‘ اگر کوئی اس بات کو جھٹلائے‘ تو اس سے یہ پوچھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کے ایس ای سی پی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ذریعے کچھ خفیہ کاغذات‘ را کے لیے کام کرنے والے بھارت کے ایک ریٹائرڈ میجر کو فراہم کئے؟ یہ لوگ اب قانون کی گرفت میں ہیں اور سارا معاملہ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ ان کے نام میڈیا کے ذریعے سب کے علم میں آ چکے ہیں۔ اس حوالے سے قریب ایک ماہ قبل اہم ریاستی اداروں اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افسران کے موبائلز اور دوسرے کمیونیکیشن ذرائع پر ''سائبر اٹیک‘‘ اور اس میں بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ حیران کن طور پر انہی دنوں نریندر مودی اور اس کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی دھمکیاں جاری تھیں۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں تھا کہ وہ منہ سے جھاگ اڑا اڑا کر سب کو سبق سکھانے کی گیدڑ بھبکیاں دیے جا رہے تھے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار رئوف کلاسرا کا 11اکتوبر بروز اتوار کو شائع ہونے والا کالم بعنوان ''میاں صاحب اتنے بھی بھولے نہیں‘‘ پڑھ لیں، کیسے مان لیا جائے کہ تین مرتبہ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز شخص اس قدر بھولا ہو کہ ادھر ممبئی میں چھبیس نومبر کے حملے شروع ہوں اور کوئی دس بارہ گھنٹے بعد بھارتی ادارے اجمل قصاب نام کا ایک مرغا نکال لاتے ہیں اور پھر ایک گھنٹے بعد ایک فراری کیمپ کا نگہبان رائٹرز کے نمائندے کو خصوصی طور پر اپنے گھر بلا کر ''انکشاف‘‘ کرتا ہے کہ اجمل قصاب دیپالپور‘ پنجاب‘ پاکستان کا رہنے والا ہے۔ اس صوبہ پنجاب میں چونکہ اس کی اپنی حکومت تھی‘ اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ میں یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اجمل قصاب پاکستانی ہے لیکن پنجاب میں ہماری حکومت ہونے کے باوجود کسی کو اجمل قصاب کے گائوں جانے یا اس کے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ فراری کیمپ امریکا، کینیڈا، جنیوا، دبئی، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں بھی قائم کرائے گئے ہیں، ان کے بھاری اخراجات‘ سیون سٹار ہوٹلز میں قیام اور دیگر خرچے کیسے پورے ہو رہے ہیں‘ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بعض ہوٹلوں کا تو ایک دن کا کرایہ بھی دس لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ کوئی تو ہے جو ان فراری کیمپوں کے رہائشیوں کی آسائشوں اور فرمائشوں کو آنکھیں بند کر کے پوراکر رہا ہے۔
کہیں معاشی دہشت گردی، کہیں ہائبرڈ وار تو کہیں فراری کیمپس‘ پاکستان کیلئے یہ سب ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ ان سب کا آپس میں اشتراک واضح کر رہا ہے کہ معاملات کہیں اور سے چلائے جا رہے ہیں۔ اسرائیل ہو یا بھارت، امریکا ہو یا برطانیہ، سب کی گزشتہ چالیس برسوں سے ایک ہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو صلب کر لیا جائے، اس کے لئے ان طاقتوں نے جس طرح عراق کے ایٹمی مراکز پر اچانک حملے کرکے تباہ کیا‘ اسی طرح کی کوششیں پاکستان کے خلاف بھی کی گئیں مگر اس سلطنت کی زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں پر تعینات توحید کے فرزندوں نے اپنی بے مثال شجاعت اور ذہانت سے ان تمام کوششوں کو دھول چٹا کر کہیں زمین بوس کر دیا تو کہیں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔