"MABC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم عمران خان اور ریکو ڈک

''کوئی ایک ایسا کام بتا دیا جائے جو عمران خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد اب تک کیا ہے؟‘‘ یہ سوال ہم ٹی وی چینلز پر ہونے والے سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور موج مستیاں کرنے والے حکومتی مشیران کے اپوزیشن جماعتوں سے ہونے والے مباحثوں اور اپوزیشن کے حکومت پر کئے گئے لفظی حملوں میں اکثر سنتے ہیں لیکن کسی بھی حکومتی ترجمان یا پیراشوٹ کے ذریعے اتر کر مفت کی وزارتیں لے اڑنے والوں نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کے نزدیک حکومت کی کارکردگی وہ پانچ‘ دس ٹویٹس ہی ہوتے ہیں جو مخالف جماعتوں پر فقرے کسنے کے علا وہ اور کوئی مقصد نہیں رکھتے۔ وزیراعظم عمران خان مملکتِ خداداد‘ پاکستان کے نگہبان کی حیثیت سے اس کے ایک ایک روپے کی حفاظت کا ذمہ لئے ہوئے ہیں اور میں یہاں اس کی چند ایک مثالیں دینے پر ہی اکتفا کروں گا کیونکہ یہ کام حکومتی وزراء اور موج مستی کرنے والے مشیران کا ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کو اپنے وزیراعظم اور حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے ڈھیروں مراعات کے عوض خود کو سونپے گئے فرائض سے انصاف کریں۔ مجھ سمیت جو میڈیا ورکر عمران خان کی نظریاتی سیاست یا ان کی بائیس سالہ جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ان کا ابھی تک بے لوث ساتھ دیے جا رہے ہیں‘ ان پر نون لیگ کا سوشل میڈیا سیل 'بنی گالا کا تنخواہ دار‘ اور اس قسم کے نجانے کتنے بے بنیاد الزام اور تہمتیں دھرتا رہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دس ماہ پیشتر قصور کے ایک گائوں میں ہمارے گھر رات کو ڈکیتی ہوئی‘ جس میں پانچ ڈاکو گھر سے سب کچھ لوٹ کر لے گئے اور ہم اس کی دہائی دیتے رہ گئے لیکن مقامی تھانے سمیت کسی ڈی پی او اور آر پی او نے ہماری ایک نہ سنی۔ قریب چھ ماہ بعد پتوکی پولیس نے ڈاکوئوں کا ایک گینگ پکڑا جس نے تفتیشی مراحل کے دوران ہمارے گھر میں کی جانے والی ڈکیتی کا بھی اقرار کیا لیکن آج ایک سال گزرنے کے باوجود ہماری لوٹی گئی رقم سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں ہوا۔ خیر! کون لفافہ ہے اور کون تنخواہ دار‘ اس کا فیصلہ تو ایک دن رب کریم کرے گا، میرے آج کے کالم کا مقصد اس کے سوا ور کچھ نہیں کہ عمران خان کے صرف تین کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کو بتائوں کہ اب تک جی آئی ڈی سی میں عمران خان نے اس ملک و قوم کا 400 ارب روپیہ اور ترکش پاور رینٹل کمپنی (کارکے) سے 1.2 ارب ڈالر‘ جس میں ملک کی مسلح افواج کے افسران کی شبانہ روز محنت بھی شامل ہے‘ بچائے ہیں جبکہ آئی پی پیز سے طویل اور اَن تھک مذاکرات کے بعد 604 ارب روپے اور ایک سابق چیف جسٹس کی مہربانی سے حکومت پاکستان کے سر پر سوار ریکوڈک معاہدے کی خلاف ورزی پر 1100 ارب روپے جرمانے کی تلوار سے بھی عمران خان صاحب قوم کو محفوظ کرا چکے ہیں۔ ان تمام رقوم کو جمع کر کے دیکھ لیجئے اور اگر آج اس ملک پر عمران خان کے بجائے کوئی پہلے جیسا حکمران مسلط ہوتا‘ تو وہ رقوم جو ہم کئی برسوں سے دیے چلے آ رہے‘ ان میں سے اپنا حصہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے محفوظ اکائونٹ میں منتقل کرا چکا ہوتا۔
وزیراعظم عمران خان کی ہر دوسری‘ تیسری تقریر میں ریکوڈک کا ذکر ضرور ہوتا ہے جس میں وہ اس ملک کے نوجوان طبقے کو پیغام دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ گھبرائو مت! پاکستان میں بہت زیا دہ قیمتی ذخائر ہیں، یہ مٹی بہت ہی زرخیز ہے اور اس کے پہاڑ دنیا کی بہترین اور انتہائی قیمتی دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں، صرف ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس پر بغیر کسی لالچ اور حرص کے کام کرنا ہو گا، یہ تمام قیمتی دھاتیں پاکستانی عوام سمیت بلوچستان کے ہر گھر تک اپنی نعمتیں نچھاور کرنے کو بیتاب ہیں۔ اسے بد قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے سابق کرتا دھرتائوں نے اپنی ذات اور چند غیر ملکی طاقتوں‘ جنہیں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی‘ کو خوش رکھنے کی کوشش کی اور ایسے معاہدے کیے جن سے ملک و قوم کا نقصان ہوا۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ یہ چند ہزار افراد کا نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے اور انہیں علاج‘ تعلیم‘ روزگار اور عالمی دنیا میں عزت چاہئے۔
ریکو ڈک کیا ہے‘ اس میں سونا یا دوسری قیمتی دھاتیں ہیں بھی یا یہ صرف کہانیاں ہیں؟ یہ منصوبہ کب شروع ہوا؟ اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور کہانیاں کیا ہیں؟ یہ منصوبہ اب تک کن کن مراحل سے گزرا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔ دراصل ریکو ڈک کا آغاز پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی نے نہیں بلکہ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور جناب میاں نواز شریف کے استعفے کے بعد نگران وزیراعظم جناب معین قریشی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بلوچستان کی نگران صوبائی حکومت نے کیا تھا۔ ریکوڈک میں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے 29 جولائی 1993ء کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی بی ایچ پی کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ریکوڈک پروجیکٹ کی آمدنی کا 25فیصد حکومت بلوچستان اور 75فیصد بی ایچ پی کو جائے گا۔ کچھ لوگ آج اعتراض کر رہے ہیں کہ اس وقت منافع کی شرح جان بوجھ کر کم رکھی گئی ہے، اس پر کوئی رائے دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس وقت کے دنیا بھر میں مائننگ کے عالمی ریٹس پر نظر ڈال لی جائے۔ ترقی یافتہ ملک33 فیصد، مشرقی ایشیا 32فیصد، لاطینی امریکا 27 فیصد، مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ 26 فیصد، مشرقی یورپ اور سینٹرل ایشیا 10 فیصد اور چند دیگر ملکوں میں یہ شرح 28 فیصد تھی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے پاکستان میں یہ شرح اُس وقت کے اعتبار سے نہایت مناسب تھی، جس کا موازنہ ''Profit Sharing between Government and Multinationals in Natural Resources Extraction‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔
نگران صوبائی حکومت کے بعد اکتوبر 1993ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی اقتدار میں آئی تو اس نے ریکو ڈک کے اس منصوبے میں عدم دلچسپی شروع کر دی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ حکومت کے پاس تو اس منصوبے کیلئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس پراجیکٹ پر کام بند ہو جائے گا لیکن آسٹریلین کمپنی کے ساتھ نگران حکومت کے کئے گئے معاہدے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اگر فنڈز نہیں ہوں گے تو آسٹریلین کمپنی یہ اخراجات خود برداشت کرے گی لیکن اس کے عوض آسٹریلین کمپنی کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ حکومت بلوچستان سے یہ رقم مع سود وصول کرے گی۔ 1993ء میں بلوچستان مائننگ قوانین کے تحت کئے گئے اس معاہدے میں سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے چاغی کا تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا علا قہ شامل کیا گیا۔ فروری 2005ء میں اس معاہدے کی تجدید کی گئی اور تین سال بعد فروری 2008ء میں پھر اس کی تجدید کی گئی‘ جس کی میعاد 19 فروری 2011ء کو ختم ہو رہی تھی لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس پر کام کی رفتار ابھی تک وہیں تھی اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک بار پھر اس کی تجدید کر دی جائے گی۔ بی ایچ پی نے 1994ء میں جب یہاں کام کا آغاز کیا تو اسے ایک ہزار کلومیٹر کا علاقہ دیا گیا لیکن ٹی سی سی کی انتظامیہ صرف435 مربع کلومیٹر میں کام کرنے کے بعد وہاں کے ہوش ربا ذخائر دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھی۔ اس کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں سے22 بلین پائونڈ کاپر اور 13ملین اونس خالص سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں