"MABC" (space) message & send to 7575

سانحہ بابری مسجد کے 28 برس اور انصاف کا قتل

ہندوستانی شہر فیض آباد سے کوئی پانچ کلومیٹر فاصلے پر بابری مسجد کی 1528ء میں تکمیل کے قریب پچاس برس بعد تلسی داس نے 1575ء میں رامائن کا ولولہ انگیز انداز میں ہندی میں پوری تشریح کے ساتھ ترجمہ کیا تھا۔آج بھی اس ترجمے کو پڑھیں تو اس میں کہیں تلسی داس نے ہلکا سا اشارہ یا معمولی سا ذکر بھی نہیں کیا کہ اس جگہ پر اس کے مالک رام چندر جی کا کوئی مندر تھا جسے مغل بادشاہ ظہیر الدین با بر نے مسمار کرنے کے بعد اپنے نام سے یہاں ایک مسجد تعمیر کر لی ہے۔
ہندومت کی تاریخی روایات کے مطابق جب رام چندر جی لنکا فتح کرنے کے بعد اپنے بن باس کا زمانہ پورا کر کے ہندوستان واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی جنم بھومی لاہور اور پاکپتن کا اقتدار خود سنبھالا اور اپنی پہلی ریاست لکھنؤ اپنے ہمسفر بھائی لکشمن کے حوالے کر دی۔ ان کے قیام سے دریائے گومتی کے کنارے پر واقع ایک ٹیلے پر بستی آباد ہوئی جو لچھمن پور کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ یدھشٹر کے پوتے راجہ جنم جی نے یہ علاقہ برناض بزرگوں، رشیوں اور منیوں کو جاگیر میں دے دیا تھا، ایک مدت بعد ان چاروں کو کمزور پا کر دو نئی قومیں''بھر‘‘ اور ''ہانسی‘‘ ہمالیہ کی ترائی سے آ کر قابض ہو گئیں۔ انہی کے ساتھ سب سے پہلے 1030ء میں ابتدائی مجاہدین اسلام کا مقابلہ ہوا اور غالباً انہی پر بختیار خلجی نے 1202ء میں چڑھائی کی اور اس وقت کچھ مسلم خاندان یہاں آ کر سب سے پہلے آباد ہوئے۔
15ویں صدی عیسوی میں مشرق اور مغرب‘ دونوں براعظموں میں سیاسی انتشار، مرکز گریزی اور عدم استحکام بڑھنا شروع ہوئے تو ہندوستان میں بھی دہلی سلطنت کی مرکزیت ختم ہو کر رہ گئی اور یہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹنے لگی۔ جب بابر نے برعظیم ہندوستان پر حملے شروع کئے تو یہ طوائف الملوکی کا دور تھا اور پھر بابر نے اس برعظیم میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ظہیر الدین بابر ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور (ترک) کی اولاد میں سے تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان (تاتاریوں) سے جا ملتا تھا۔ بابر نے 1519ء میں دریائے سندھ عبور کیا اور پھر 1524ء میں لاہور پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد وہ دہلی کو فتح کرنے کیلئے انبالہ شاہ پور کے راستے جمنا کے کنارے کنارے آگے بڑھتا رہا۔ سلطان ابراہیم کے لشکر سے پانی پت کے میدان میں اس کی تاریخی لڑائی ہوئی جس میں بابر فتح سے ہمکنار ہوا اور دہلی اور آگرہ پر قابض ہو گیا۔ ظہیر الدین بابر تاریخ عالم کی نہایت جاذب اور دلچسپ شخصیت کا حامل تھا۔ اس نے ہمیشہ مذہبی رواداری کی حکمت عملی پر عمل کیا اور کسی شخص کے مذہبی عقیدے پر کوئی پابندی عائد نہ کی۔ بابر نے فوجی قوت کے ذریعے ایک وسیع حکومت قائم کی جس کی حدود بدخشاں سے سرحدِ بنگال تک اور دریائے کنہار دیجون اور دامن کوہ ہمالیہ سے چندیری تک پھیلی ہوئی تھیں۔
اب ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی بات کریں تو موسومہ بابری مسجد بابر کے کسی جذبۂ ایمانی کے تحت نہیں بنی تھی‘ اس لئے وہاں کسی مندر کو توڑ کر اسے مسجد بنانا بعید از قیاس ہے۔ اس حتمی رائے کی تائید کئی درجن تحقیقی کتب، مورخین اور محققین کی تحریروں سے بہ آسانی کی جا سکتی ہے جس میں پروفیسر آر ناتھ، پروفیسر سوشیل سریو استوا، پروفیسر ہربنس مکھیا، پروفیسر محب الحسن جیسے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ بابری یا ''ببری مسجد‘‘ کے اندر نصب کتبے کے مطابق مسجد کی تعمیر 935ھ میں ہوئی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ رام مندر کو گرانے کے بعد با بر نے یہاں مسجد تعمیر کی تھی تو پھر دیکھنا ہو گا کہ اسی سال یکم جمادی الاول 935 ہجری کو شہنشاہ بابر نے اپنی ایک تاریخی وصیت پر بھی دستخط کیے تھے جس میں شہنشاہ بابر نے اپنے چہیتے بیٹے اور جانشین‘ ولی عہد ہمایوں کومخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا ''تم پر لازم ہے کہ تم اپنی لوح دلّی سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو اور ہر مذہب کے طریقے کے مطابق انصاف کرو۔ تم خاص طور پر گائے کی قربانی چھوڑ دو‘ اس سے تم ہندوستان کے لوگوںکے دلوں کو تسخیرکر سکو گے اور اس طرح ہندوستان کی رعایا شاہی احسانات تلے دبی رہے گی۔ جو قوم حکومت کے قوانین کا احترام کرتی ہو‘ اس کے مندروںاور عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرنا۔ عدل و انصاف اس طرح کرو کہ بادشاہ رعایا سے اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے‘‘۔ بابر کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی اس وصیت کو پڑھیں‘ جس میں خاص طور پر گائے کی قربانی سے احتراز کرنے کوکہا گیا تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس نوعیت کی وصیت کرنے والا بادشاہ رام مندر گرا کر مسجد تعمیر کرنے جیسا اقدام کر سکتا تھا یا نہیں۔ اپنی اس وصیت کے کچھ عرصہ بعد ہندوستان کے پہلے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کھانے میں دیے جانے والے زہر کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 26 دسمبر 1530ء کو انتقال کر گیا۔
وسطی ایشیا کے شہروں میں عہد قدیم میں جو مسجدیں تعمیر کی گئیں‘ خصوصاً ثمرقند اور بخارا جیسے تاریخی شہروں میں‘ ان کے بیرونی دروازوں پر دونوں جانب دو ببر شیروں کے آثار یا عکس بنائے گئے۔ بابر کے ممدوح خواجہ احرار ولی کے مزار کے احاطے میں جو شاندار مسجد اور مدرسہ تعمیر ہے‘ اس کے عالی شان دروازے پر دوڑتے ہوئے شیروں اور بھاگتے ہوئے ہرنوں کی تصویریں آج بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ ایرانی ثقافت میں شیر کو قوت و جبروت کی علامت مانا گیاہے۔ وسطی ایشیا میں مسجدوں کو کسی شخص کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتا‘ اور بابر کا لفظی معنی بھی چونکہ شیر ہے‘ اس لیے شیر کی مناسبت سے ایودھیا مسجد کا نام ببری یا بابری زبان زدِ عام ہو گیا لیکن کیا پورے بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور دوسری انتہا پسند ہندو تنظیمیں اور ادارے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ بابر نے اپنے عہد میں کسی مندر یا آشرم کو گرا کر وہاں کوئی مسجد یا مدرسہ تعمیر کرایا ہو؟ تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ مغل بادشاہوں سے زیادہ لبرل حکمران آج تک دنیا میں اور کوئی نہیں رہا کیونکہ ان کے سپہ سالار اور وزیر خزانہ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے۔ راجہ بہر مل کے بیٹے بھگوان داس اور بھتیجے مان سنگھ اور ٹوڈر مل کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ تاریخی شواہد کی روشنی اور حقیقت یہی بتاتی ہے کہ ایودھیا میں اس جگہ پر کبھی بھی کسی قسم کے مندر کا وجود ہی نہیں تھا جسے مغل شہنشاہ بابر کے حکم سے گرا کر یہاں مسجد تعمیر کی گئی ہو اور تاریخ کی سچائی ثابت کرتی ہے کہ بابر کے ہندوستان میں روا رکھے گئے سیکولر طرزِ حکومت پر یہاں تعمیر ہونے والی کسی مسجد کا ہندوئوں کے کسی مندر یا رام جی کی جنم بھومی سے کوئی تعلق نہیں تھا ورنہ دیگر اہم ترین اور خوبصورت مساجد اور عمارتوں کے ذکر کے ساتھ اس مسجد کی جگہ کسی بھی مندر اور اس کی تاریخی حیثیت کا ذکر شہنشاہ بابر کی ''تزکِ بابری‘‘ میں ضرور ملتا۔
بھارت میں جب بابری مسجد اور رام مندر کے نام پر ہندو مسلم فسادات اور انتشار حد سے بڑھ گیا تو جنوری 1991ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم چندر شیکھر نے اس تنازع کے حل کیلئے ایک بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی جس نے بھارت اور دنیا بھر سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کیے۔ تمام شواہد اکٹھے کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کمیٹی نے 13 مئی 1991ء کو اپنی پیش کی جانے والی رپورٹ میں لکھا ''مکمل تحقیق اور ایودھیا کی کھدائی کے دوران وہاں سے حاصل کئے گئے آثارِ قدیمہ‘ جو بنارس یونیورسٹی میں محفوظ کر لئے گئے ہیں‘ سے اس کمیٹی کو اب تک کسی مندر کے دور دور تک آثار دستیاب نہیں ہو سکے اور تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ با بر نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد جب یہ مسجد اپنے وزیر میر باقی کی زیر نگرانی تعمیر کرائی تو اس وقت تک یہاں کسی مندر کا وجود نہیں تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں