"MABC" (space) message & send to 7575

معاشی استحکام کی جانب

جون 2013ء میں بننے والی نواز لیگ کی حکومت سے آج تک کسی بھی حکومتی شخصیت نے کسی بھی فورم پر یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ آپ نے پاکستان کے نام پر لئے گئے قرضوں پر شرح سود اچانک جنوبی ایشیا کے ممالک سے زیا دہ کیوں اور کس کہنے پر کی؟ ایک معاشی طور پر کمزور ملک کیا اس شرح کا متحمل تھا؟ وہ شرح سود‘ جو پاکستان پہلے سے ادا کرتا چلا آ رہا تھا‘ اسے کیوں بڑھا دیا گیا؟ شاید اس لئے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا یہ اضافی بوجھ مخصوص افراد کی نذر کیا جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی کے وزرا نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ وزیراعظم یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے اکٹھے کئے گئے ٹیکسز کا بہت بڑا حصہ ہمیں سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت معاشی بدحالی کی رٹ لگانے والوں سے قوم کبھی یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ 2009ء سے اب تک لئے گئے ملکی قرضوں پر13 بلین 452 ملین ڈالر محض سود کی مد میں کیوں ادا کئے گئے؟ پی ٹی آئی حکومت کا پہلا بجٹ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ وہ عدلیہ سے اپیل کریں گے کہ وہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دے جو قوم کو سچ بتا سکے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں کتنا ملکی اور غیر ملکی قرضہ حاصل کیا اور یہ قرضہ کہاں کہاں خرچ ہوا تاکہ قوم جان لے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے اپنے ادوار میں 24 ہزار ارب روپے قرضہ کیوں لیا۔
جب قرضوں کی بات ہوتی ہے تو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ نجی شعبے کا بیرونی قرضہ کتنا ہے‘ حکومتی واجبات کتنے ہیں اور پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کے قرضے کتنے ہیں۔ ان میں کچھ قرضے ایسے ہوتے ہیں جن کی ادائیگیاں حکومت نے نہیں بلکہ نجی شعبے نے کرنا ہوتی ہیں لیکن یہ ادائیگیاں ملک کے وسائل سے ہی کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کی ہر مخالف سیاسی جماعت اپنے ذرائع کے ہمراہ پاکستانی عوام کو اس امر کا یقین دلانے میں لگی ہوئی ہے کہ ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے‘ معاشی طور پر پاکستان کمزور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، حکومت نے اپنے دو سالہ دورِ حکومت میں ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے اور اگر اسے جلد از جلد اقتدار سے الگ کر کے گھر نہ بھیجا گیا تو ملک ایسی تباہی کا شکار ہو جائے گا کہ پھر کسی سے بھی سنبھالنا مشکل ہو گا جبکہ دوسری طرف وزیر‘ مشیر اور تمام چھوٹے بڑے حکومتی ترجمان قوم کو اچھے دنوں کے جلد پلٹ آنے کی نوید سناتے نہیں تھکتے۔ ایسے میں ایک عام پاکستانی ان سب سے الگ کھڑا سوچ رہا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے سچ کون بول رہا ہے؟ اگر تو عام حالات کی طرف دیکھیں‘ جس کا ہر پاکستانی کو کسی بھی بازار، مارکیٹ، سبزی اور فروٹ کی دکان پر سامنا کرنا پڑتا ہے یا جب وہ چھوٹے‘ بڑے کسی گروسری سٹور یا کسی جنرل سٹور سے باہر نکلتا ہے‘ تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ملک میں پہلے سے زیادہ مہنگائی ہو چکی ہے جس کے اضافی اخراجات برداشت کرتے ہوئے عام پاکستانی کو شدت سے دکھ اور تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومتوں کو معیشت کی خرابی کا سبب بتاتی چلی آئی ہے اور کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ اپنی پالیسیوں، حکومتی طریقہ کار اور اداروں کی بہتری کیلئے ان کے کردار کو بدلا جائے، معاشی اصلاحات لائی جائیں، وہ تمام خرابیاں دور کی جائیں جن کی وجہ سے ہر دور میں معیشت کو خرابی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ انگریز کے بعد برائون صاحب بھی اُسی کے طور طریقوں پر چل رہے ہیں، کسی نے بہتری کی جانب توجہ نہیں دی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہم بحیثیت قوم‘ آج خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس ملک کو سیاستدانوں کے بعد انتظامیہ‘ خواہ وہ مرکز یا صوبائی کیڈر کی بیورو کریسی ہو یا تھانیدار سے پٹواری اور لائن مین سے بجلی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو تک‘ نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سب اپنی اپنی جگہ پر کرپشن کی انتہا کر چکے ہیں‘ الا ماشاء اللہ، ان میں یقینا اچھے لوگ بھی ہوں گے مگر جب اداروں کی مجموعی کارکردگی دیکھیں تو اس وقت ملک کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے۔
اگر موجودہ اقتصادی حالات کو ماہرین کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں تو تھوڑی بہت اقتصادی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے سب سے ضروری چیز سیاسی استحکام اور حکومت کا عرصہ اقتدار ہوتی ہے۔ پھر سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ورثے میں ایک ''فریجائل اکانومی‘‘ ملی تھی جسے درست کرنے میں ابھی حکومت کو بہت سے کا م کرنا پڑیں گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-18ء تک پاکستان کے کل قرضے میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95.2 ارب ڈالر ہو گیا، یعنی اپنے قیام کے بعد ساٹھ سالوں تک پاکستان نے 42 ارب ڈالر قرضہ لیا جبکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دس سالہ دور میں 49 ارب ڈالر۔ اس میں سے پی پی پی کے دورِ حکومت میں 14.7 ارب ڈالر جبکہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں 34.3 ارب ڈالر بیرونی قرضہ لیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو دیکھیں تو اس نے 10.6 ارب ڈالر قرضہ لیا ہے جس سے ملکی قرضہ95.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 105.8 ڈالر ہو گیا ہے۔ اب اپوزیشن کے الزامات کو حقائق کی روشنی میں دیکھیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے جو چار‘ پانچ ارب ڈالر دیے‘ وہ قرضے کی مد میں نہیں لیکن اسے بھی تحریک انصاف کے کھاتے میں بطورِ قرضہ ہی شمار کیا جا رہا ہے۔ ہم نے چونکہ سچ قوم کے سامنے رکھنا ہے‘ اس لئے آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لئے جانے والے قرضوں کی تفصیلات سامنے رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے باہر سے مسلط کئے گئے مشیرانِ اطلاعات اپوزیشن پر آوازے کسنے اور انہیں مختلف ناموں سے پکارنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ حالانکہ انہیں یہ حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ سچ جاننا ہے تو وزراء مشیران یا پارٹی لیڈران کے بیانات اور دعووں سے موازنہ کرنے کے بجائے ایسے غیر جانبدار اداروں سے رجوع کرنا ہو گا جن کا فریقین میں سے کسی سے بھی تعلق نہ ہو ۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے؟ کیا پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے؟ کیا پاکستان واقعی دنیا میں‘ اپوزیشن کے شور شرابے اور پروپیگنڈے کے مطابق‘ تنہا ہو چکا ہے؟ اس کا آسان سا جواب تو حال ہی میں او آئی سی کے اجلاس میں کشمیر پر ایک متفقہ موقف اور قرارداد کی منظوری سے دیا جا سکتا ہے کہ اس قراردار کی سچائی بتا رہی ہے کہ موجود ہ حکومت نے مختصر عرصے میں پاکستان کا برسوں سے کھویا ہوا مقام بحال کرنے میں کتنی کوشش کی ہے۔ اس سے یہ جھوٹ تو اپنی موت آپ مر جاتا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو چکا ہے بلکہ اب تو روس جیسے ممالک بھی پاکستان کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم بالخصوص نواز لیگ کی کوئی بھی کارنر میٹنگ یا جلسہ دیکھیں تو وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ عمران خان کی ناقص پالیسیوں سے ملک اقتصادی طور پر تباہ ہو گیا ہے‘ صنعتی و تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں‘ لوگ روزگار کیلئے ترس رہے ہیں‘ صنعتیں اور کارخانے بند پڑے ہیں۔ ان سب کے دعوے اپنی جگہ لیکن اگر عالمی اداروں کے معاشی اشاریوں پر نظر ڈالیں تو وہ خوش کن خبر سناتے ہیں کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے۔ عمران خان صاحب بڑی مشکل سے معاشی ٹرین کو پٹری تک لائے ہیں جسے اب رفتار پکڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری جانب اگر جی ٹی روڈ کے چاروں جانب اور پھر کشمیر سے کراچی تک ہر گلی میں جھانک کر دیکھیں‘ چوبیس گھنٹے آپ کو چمنیوں سے دھواں نکلتا نظر آئے گا، کہیں برسوں سے بند پاور لومز بھرپور کام کر رہی ہیں، کہیں بند فیکٹریاں دوبارہ چالو ہو رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں حیران کن حد تک کمی صنعتی پہیے کو تیز تر کرنے جا رہی ہے۔ کیا اس قسم کی صنعتی رعایت اور سہولت پہلے کسی حکومت نے مہیا کرنے کا سوچا تھا؟ ملک کے نوجوانوں میں بددلی پھیلانے والوں کے مقدر میں ناکامی لکھی جا چکی ہے اور ملک کا نوجوان اپنی دیکھی گئی منزل کی جانب تیزی سے بڑھے گا‘ ان شاء اﷲ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں