"MABC" (space) message & send to 7575

یہ سلسلہ چلتا رہا تو…

نارویجن آرمی کے جوانوں اور افسروں کی پریڈ اور ان کے جسموں پر سجی شاندار وردیاں دیکھتے ہوئے وہاں موجود کچھ اوور سیز پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہوتے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے اس پریڈ میں ان کا کوئی عزیز یا گھر کا فرد شامل ہے مگر حقیقت یہ نہیں تھی۔ ان وردیوں‘ جو ناروے کی آرمی نے پہنی ہوئی تھیں‘ کی اٹھان کچھ اور ہی تھی۔ چند دنوں بعد یہ عقدہ کھلا کہ ناروے کی فوج کیلئے وردیاں اب پاکستان سے تیار ہو کر جاتی ہیں اور یہی وہاں رہنے والے پاکستانیوں کیلئے با عث فخر بات تھی۔ ناروے کی وزارتِ دفاع نے اس سلسلے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے کئی کروڑ ڈالر کا معاہدہ کر رکھا ہے اور اب آرمی کے بعد ناروے کی کچھ سکیورٹی ایجنسیاں بھی پاکستان سے اپنی یونیفارمز تیار کروانے کے حوالے سے رابطے کر چکی ہیں۔
دو ہفتے ہوئے‘ ایک ٹویٹ نظر سے گزرا‘ جسے پڑھنے کے بعد اس پر اس لیے زیادہ توجہ نہیں دی کہ ہو سکتا ہے کہ کسی حکومتی وزیر‘ مشیر یا حکومتی پارٹی کے کسی سوشل میڈیا سیل نے یہ ٹویٹ کیا ہو لیکن امریکا سے ایک اوور سیز پاکستانی نے اس کی تصدیق کر دی۔ اوور سیز پاکستانی‘ جن کا دل پاکستان کیلئے اس انداز میں دھڑکتا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا پاکستان ہی اس میں سمایا ہوا ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے یٰسین بھائی کی باتیں سننے کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید بانیٔ پاکستان‘ پاکستان کیلئے اپنا خلوص اور اپنی عقیدتیں ان کے دلوں میں بھر گئے ہوں۔ یٰسین بھائی پر ہی موقوف نہیں‘ پاکستان سے باہر آباد‘ چند سو کے علاوہ‘ ہر شخص پاکستان کی ترقی اور اس میں انصاف و قانون کا بول بالا ہونے کیلئے ہمہ وقت دعاگو اور فکر مند رہتا ہے۔
گزشتہ چار برس‘ جن میں سے دو برس مسلم لیگ نواز کی حکومت کے حصے میں آئے اور دو سال عمران خان کی حکومت کے حصے میں‘ کی حکومتی کارکردگی کا ایک تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے۔ اس جائزے کا تعلق‘ کسی بھی ملک کیلئے سب سے اہم اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شعبے‘ برآمدات سے ہے۔ 2017ء میں جولائی سے دسمبر تک کے چھ ماہ میں‘ جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیراعظم تھے‘ پاکستان کی بر آمدات کا حجم 10.9 بلین ڈالر تھا۔ 2018ء کے اسی عرصہ میں بر آمدات کا یہ حجم 11.2 بلین ڈالر تک رہا لیکن 2019 میں جولائی سے دسمبر تک برآمدات 11.5 بلین ڈالر اور پھر 2020ء میں مزید بڑھ کر12.1 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ مدت ہے جب پاکستان کے طول و عرض میں کورونا جیسی مہلک وبا اپنی تباہیوں کے ساتھ ہر شعبے پر محیط تھی۔ یہ وبا دنیا بھر میں معاشرت اور معیشت کا گلا گھونٹ رہی ہے لیکن اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کی سب سے بڑی کرم فرمائی یہ رہی کہ اس عرصے میں پاکستانی معیشت کا پہیہ رواں رہا اور دسمبر 2020ء میں ملکی برآمدات میں 2.35 بلین ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا‘ جو ایک ریکارڈ ہے۔
ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اس پر یقین نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی کپڑا اس وقت بھارت کی مارکیٹوں میں بھی فروخت ہو رہا ہے اور جس طرح پاکستانی نمک اور چاول کو بھارتیوں نے کئی برس سے اپنے مختلف برانڈز کی شکل میں دنیا بھر میں فروخت کر کے اربوں ڈالر کمائے‘ اسی طرح اس وقت بھارت میں پاکستانی کپڑے کو بھارت کے کچھ مشہور برانڈز کے نام سے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ہر پاکستانی کیلئے یہ امر باعث فخر ہونا چاہئے کہ دنیا بھر میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی یہ اٹھان اور حکومت کا دھیان اسی رفتار سے جاری رہے تو بہت جلد پاکستان بھارت کی کپڑے کی سپلائی کی منڈی پر قبضہ کر سکتا ہے؛ تاہم اس کیلئے سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ ایکسپورٹ کوالٹی کے معیار پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔ اس سے قبل‘ متحدہ عرب امارات جو پاکستانی مصنوعات اور زرعی پیداوار کی سب سے اہم منڈی تھی‘ کچھ عاقبت نا اندیش افراد اور تاجروں کے بھیس میں ملک دشمنوں کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ نام نہاد تاجروں نے پاکستان کی منڈی خراب کرنے کے لیے جان بوجھ کر گھٹیا چاول اور دوسری مصنوعات وہاں بھیجنا شروع کر دیں کہ پاکستان سے پیار کرنے والے عرب تاجر سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بھارت‘ جو اس گھٹیا منصوبے کے پیچھے تھا‘ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو مارکیٹ سے آئوٹ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا۔
اب وزارتِ تجارت اور دوسرے متعلقہ اداروں کو اس طرف پوری ذمہ داری سے توجہ دینا ہو گی بلکہ اسے جنگ کا محاذ سمجھ کر اس فیلڈ میں د ھوکا دہی کا خاتمہ کرنا ہو گا کیونکہ آج کل جنگیں سرحدوں پر نہیں‘ معیشت کے میدانوں میں لڑی جاتی ہیں اور اس وقت ہماری دشمن سے معیشت کی جنگ جاری ہے۔ ممکن ہے کہ بھارت پھر پچھلی چال چلنے کی کوشش کرے لہٰذا سب کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ دس سے بیس لاکھ مزدور‘ جو پاور لومز بند ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہو چکے تھے‘ تمام پاور لومز فعال ہونے کی وجہ سے نہ صرف دوبارہ برسرِ روزگار ہو چکے ہیں بلکہ سینکڑوں نئی پاور لومز لگنے اور ان کے چوبیس گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے کئی لاکھ نئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومتی ریلیف ملنے کے بعد جس قدر تیزی سی پاکستانی ٹیکسٹائل اور سیمنٹ انڈسٹری کی پیداوار بڑھ رہی ہے‘ اس کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگاتار تین ماہ تک خسارے کا شکار رہنے کے بعد جولائی میں مجموعی طور پر پاکستان کی بر آمدات 5.8 فیصد بڑھی ہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش کی بر آمدات میں کمی دیکھنے کو ملی۔پاکستان کی برآمدات کا اس وقت 55 فیصد ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے اور فیصل آباد‘ جہاں پاور لومز اور ٹیکسٹائل ملیں کئی میل تک پھیلی ہوئی ہیں‘ کے مضافاتی علاقوں کے عوام کا روزگار بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ اسی سیکٹر سے وابستہ ہے۔ گلی‘ محلوں اور آبادیوں میں ہزاروں خاندانوں کا روزگار اس صنعت سے بالکل اسی طرح وابستہ ہے جس طرح سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے لوگوں کا سپورٹس، کٹلری، سرجری اور سینیٹری سے متعلق سامان اور برتن تیار کرنے والی فیکٹریوں اور کارخانوں سے منسلک ہے۔ اس امر کی گواہی فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ ہر شخص دے گا کہ 2006ء تک ٹیکسٹائل سیکٹر بالکل ٹھیک چل رہا تھا۔ پرویز مشرف دورِ حکومت میں صرف ایک یونٹ نے دس ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کیا تھا لیکن 2007ء کے بعد سے ہر شے تلپٹ ہو کر رہ گئی۔
2 جون 2017ء کی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے بجلی و گیس کے نرخ 70 فیصد تک بڑھا دیے ہیں جبکہ بھارت میں توانائی کافی سستی ہے، اس وجہ سے ہماری مصنوعات کی لاگت مزید بڑھ گئی اسی وجہ سے عالمی تاجروں کا رخ پاکستان سے بھارت کی طرف ہو گیا اور جو چند لومز چل رہی تھیں‘ وہ بھی بند ہو گئیں۔ صنعتکاروں کی دہائی پر اس وقت کے وزیر ٹیکسٹائل خرم دستگیر نے اس امر پر غور کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ یہ حکومت کی نااہلی ہی سمجھی جائے گی کہ اس وقت یورپی مارکیٹ میں رسائی کیلئے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ مل چکا تھا‘ اس کے با وجود اس وقت کی حکومت کی نااہلی نے یہ موقع ضائع کر دیا۔ اس وقت اگر میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر ہزاروں ارب خرچ کرنے کے بجائے توانائی کے شعبے کی جانب توجہ دی جاتی تو ملکی برآمدات اور سستی پیداوار کی بدولت عالمی مارکیٹ میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطا بق گزشتہ برس پاکستانی صنعتوں کو کورونا کی وجہ سے اس طرح بھی نقصان ہوا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ ''ڈائیز، کیمیکلز، زپ، دھاگا اور بٹن وغیرہ چین سے در آمد کئے جاتے تھے جن کی سپلائی رکنے کی وجہ سے پروڈکشن میں خلل پڑا، اب جبکہ سپلائی چین بحال ہو چکی ہے‘ امید ہے کہ یہ برس اب پاکستان کیلئے کئی طرح کی امیدیں اور خوشیاں لے کر آئے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں