بیرون ملک سے ایک پاکستانی پنشنر کا متعلقہ اتھارٹی کے نام لکھا گیا خط ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان ایئر فورس کا ایک ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر اور دوسرے لاکھوں لوگوں کی طرح کا حکومت پاکستان کا ایک پنشنر ہونے کی حیثیت سے سٹیٹ بینک کے 6 جنوری2021 ء کو جاری کر دہ سرکاری خط کے پیرا3(a) کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا جس کے مطا بق ہر پنشنر کو سال میں دو مرتبہ اپنے متعلقہ بینک کی برانچ میں جا کر اس بات کا سرٹیفکیٹ داخل کرنا ہو گا کہ وہ ابھی تک زندہ ہے ‘تاکہ ایسا نہ ہو کہ انتقال کرجانے کی صورت میں کوئی گھوسٹ پنشنر بن کر اس کی پنشن یا دوسری مراعات وصول کرتا رہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی یہ شرائط کسی طور بھی غلط نہیں کہی جا سکتیں اور ان سے مکمل اتفاق ہے ‘لیکن اس سلسلے میں پنشنرز کے کسی نمائندے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک متاثرہ فریق کے طور پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں‘ جن پر اگر ہمدردی سے غور کیا جائے تو پنشنرز کی جائز تکالیف اورمذکورہ سرکاری خط کے باعث پیدا ہونے والی تشویش کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
ریٹائرڈ سکواڈر ن لیڈر لکھتے ہیں کہ آج کل وہ کینیڈا میں مقیم ہیں اس لئے محسوس کرتے ہیں کہ یہ صرف ان اکیلے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر پاکستانی بھی ان شرائط سے متاثر ہوں گے جو اس وقت ان کی طرح مستقل طور پر پاکستان میں نہیں رہ رہے یا ان کی عمریں اس قدر زیا دہ ہو چکی ہیں کہ ان کیلئے اپنی بینک برانچ تک جانا بھی انتہائی مشکل ہے۔کچھ ایسے پنشنرز بھی ہیں جن کے بچے پاکستان سے جا چکے ہیں اور وہ کبھی کبھار ہی پاکستان آتے ہیں؛ چنانچہ یہ لوگ اکیلے یہاں مقیم ہیں۔ ہزاروںریٹائرڈ ملازمین‘ جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں ‘اوورسیز پاکستانی کی حیثیت سے انتہائی قیمتی زرمبادلہ بھی اپنے وطن عزیز میں بھیج رہے ہیں جس پر انہیں یہ سوچ کر فخر بھی محسوس ہوتا ہے کہ اپنی حیثیت میں وہ اپنے ملک کی کچھ خدمت کر رہے ہیں‘ اب سوچئے کہ اگر سال میں دو مرتبہ دور دراز سے سفر کرتے ہوئے ہزاروں پنشنرز کو پاکستان پہنچ کر یہاں کے چند مخصوص بینکوں میں اپنے زندہ ہونے کے ثبوت مہیا کرنے کیلئے دھکے کھانے پڑیں تو اس تکلیف اور ان شرائط کو پورا کرنے کیلئے اٹھنے والے سفری اخراجات کا بوجھ کون برداشت کرے گا؟ فرض کر لیجئے کہ ایک بینک کی برانچ میں پنشنرز کی تعداد دو سے پانچ ہزار کے قریب ہے ‘اب ممکن ہے کہ اس برانچ کا عملہ کم ہو یا اس کی صلاحیت اس حد تک نہ ہو کہ وہ سال میں دو مرتبہ اتنے پنشنرز کو ڈیل کر سکے کہ ظاہر ہے اس کیلئے بائیو میٹرک تصدیق لازمی کی جائے گی۔ اگر ایک پنشنر کیلئے بینک کا عملہ پندرہ منٹ صرف کرے گا تو اندازہ کیجئے کہ اس میں ضعیف ‘ بیمار اور کمزور نظروں والے پنشنرز کو کس قدر تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گھوسٹ پنشنرز کی نشاندہی کرنے کیلئے سوچے گئے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے حکومت اور سٹیٹ بینک کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں توکوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ گھوسٹ سکولوں کی طرح گھوسٹ اساتذہ اور دوسرے بہت سے گھوسٹ سرکاری ملازمین کی طرح گھوسٹ پنشنرز کی ایک بڑی تعداد کئی دہائیوں سے ملکی خزانوں پر پنجہ آزمائی کرتی چلی آ رہی ہے اور یہ مافیا اس قدر مضبوط اور پھیلا ہوا ہے کہ ریلوے سے لے کر مرکز اور صوبوں کے ہر محکمے تک میں اس ناسور کی بھر مار ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے تو ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے بینک اکائونٹ کا سسٹم موجود ہی نہیں تھا اب کچھ محکموں میں بینک اکائونٹ کی شرائط رکھ دی گئی ہیں لیکن بہت سی جگہوں پر ابھی تک پرانا سلسلہ چلا آ رہا ہے جسے روکنے کیلئے مختلف حکومتوں اور ان کے افسران نے بہت سے اقدامات تجویز کئے ہیں‘ کچھ پر عمل بھی ہوا‘ لیکن یہ نقب زنی اسی طرح جاری و ساری رہی۔
بلاشبہ گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ پنشنر باقاعدہ ایک دھندہ بن چکا ہے اور یہ کرپشن کرنے والے اس میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ملک میں تو کرپشن کو اب با قاعدہ ایک سائنس کے طور پر لیا جا رہا ہے اور اسے کوئی بھی برائی یا گناہ نہیں سمجھتا بلکہ کرپٹ ملازمین کی دولت ان کی مہارت اور جرأت کا ثمر تصور کی جاتی ہے اور کرپٹ آدمی کی دولت اور حیثیت دیکھنے کے بعد معاشرے میں ا س کی جس طرح عزت کی جاتی ہے اس کا اندازہ ہر شہر‘ تحصیل گائوں میں کسی بھی خوشی ‘غمی کے موقع پر آنے والوں کی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے ہو جاتا ہے ۔ کرپشن کی دولت اور اس سے ملنے والے جاہ و جلال نے ہر ایک کے دل و دماغ میں بڑی گاڑی‘ اچھا گھر ‘قیمتی لباس اور ڈیرے داروں جیسا بننے کے خواب پیدا کررکھے ہیں جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
سوچئے کہ جس معاشرے میں یتیموں‘ بیوائوں‘ مساکین اور غریب عوام کی دیکھ بھال کیلئے مختص بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سولہ سو یا دو ہزار تک ملنے والی ماہانہ رقم یا وسیلہ روزگار کے چار سے دس لاکھ روپے بھی انصاف سے تقسیم نہ ہوتے ہوں وہاں پنشن کے ہزاروں روپوں میں کیسے ڈنڈی نہ ماری جاتی ہو گی۔ جہاںسیاست دان‘ اراکین اسمبلی کے رشتہ دار‘ ان کے حواری اورBISP میں وقتاً فوقتاً اچھے اور اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے اپنے حواریوں اور گھر یلو ملازمین کو غریبوں ‘ مسکینوں کا حق مار کر نوازتے ہوں اور گریڈ گیارہ سے بیس تک کے افسران اور ان کے اہل خانہ وسیلہ روزگار سکیم کوہڑپ کئے جا رہے ہوں وہاں گھوسٹ پنشن کے کھاتوں پر ہاتھ صاف کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ آج بھی کئی صوبائی محکموں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ورک چارج ملازمین ہیں جن کے شناختی کارڈز تو ہیں لیکن ان کا وجود سوائے ہر ڈویژن اور سب ڈویژن کے چند ایک افسران اور اہلکاروں کے نہ کسی نے دیکھا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انہیں جانتا ہے لیکن ہر ماہ ان کی تنخواہوں کا پندرہ سے بیس ہزار ایسے اہلکاروں اور افسران کے گھروں تک با قاعدگی سے پہنچایا جاتاہے جنہوں نے انہیں اپنے اندر سمو رکھا ہوتا ہے ۔
حکومت پاکستان اور سٹیٹ بینک سمیت تمام صوبائی حکومتوں کے سامنے یقینا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ گھوسٹ پنشنرز کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ ان کی کس طرح نشاندہی کی جائے؟ یہ ایک جائز مسئلہ اور درست سوال ہے۔ نادرا کی صورت میں پاکستان کے پاس ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہر پیدائش اور موت کا با قاعدہ ریکارڈ موجود ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو اس کے لواحقین کیلئے یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ متوفی کی جائیداد کی وراثت میں حصہ لینے کیلئے متعلقہ عدالت میں اس کی وفات کا سرٹیفکیٹ پیش کریں۔ اگر کسی کے پاس نادرا کا یہ سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو وہ اپنے کسی بھی عزیز یا والدین کی جائیداد یا بینک اکائونٹس میں جمع رقم کا حق دار نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس سلسلے میں اسے اس جائیداد کے استعمال کی کوئی قانونی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی پنشنر کی موت کی صورت میں اس کی بیوہ کیلئے اس کی موت کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ نادرا کے ان سرٹیفکیٹس کی موجود گی میں یہ کسی طور بھی مناسب نہیں لگتا کہ ایسے پنشنرز کو اپنے زندہ ہونے کی شہا دت دینے کیلئے بیرونی ممالک سے پاکستان آنا پڑے یا وہ پنشنرز جن کی عمریں اور صحت اس قابل نہیں کہ وہ بینکوں کے باہر دھوپ اور سردی کی شدت برداشت کرتے ہوئے کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہونے کی صعوبتیں برداشت کریں ‘ انہیں اس تصدیق پر مجبور کیا جائے۔ پانی ‘بجلی اور گیس کے بل جمع کرانے والوں کی جس طرح طویل قطاریں آئے روز بینکوں کے باہر دیکھنے کو ملتی ہیں اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بوڑھے مردو خواتین پنشنرز کی قطاریں کیا رنگ لا سکتی ہیں؟