"MABC" (space) message & send to 7575

ووٹ کی عزت اور کرپشن کا نعرہ

سینیٹ الیکشن کے بعد اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو ساتھ بٹھا کر ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے جب خطاب شروع کیا تو ان کی زبان سے پہلے ہی لمحے میں ایک ایسی بات نکل گئی جس پر سب چونک گئے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت کے اتحادی بھی اسے ووٹ نہ دے سکے۔ اتحادیوں کی جانب سے ہاتھ دکھانے کی خبریں اگرچہ کافی عرصے سے گردش میں تھیں؛ تاہم مجھے یکم مارچ کو اس کی کنفرمیشن مل گئی تھی اور میں نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کو یہ میسج بھی بھیج دیا تھا۔ یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ حکومت کے اتحادیوں سمیت اس کے بہت سے ایم این ایز بھی اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور یہ سب تین مارچ کو سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں پر 'بیعت‘ کر لیں گے۔
ایک اطلاع کے مطابق‘ سابق صدر آصف علی زرداری اور جنوبی پنجاب کے ایک رکن قومی اسمبلی کے مابین پہلے ہی پیمان ہو چکا تھا کہ پنجاب سے حکومت کی ایک اتحادی جماعت اور ایم کیو ایم کے اراکین 'بڑا ووٹ‘ پیپلز پارٹی اور 'چھوٹا ووٹ‘ تحریک انصاف کو دیں گے کیونکہ پی ڈی ایم یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ اصل جھگڑا بڑے ووٹ کی کامیابی پر ہی برپا کرے گی اور ا س سلسلے میں میڈیا کا ''تقریر گروپ‘‘ اس کا بھرپور ساتھ دے گا۔
جب پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف کے اتحادیوں سے ڈیل ہو رہی تھی تو مسلم لیگ نواز کو یقین دلایا گیا تھا کہ حکومت کے منحرف اراکین سے مسلم لیگ (ن) کی خاتون امیدوار کے لیے بھی ووٹ کی تاکید کر رہے ہیں‘ اس لئے بے فکر رہیں، خاتون امیدوار بھی کامیاب ہوں گی جبکہ وعدے صرف 'بڑے ووٹ‘ یعنی یوسف رضا گیلانی کے ووٹ کے کیے جا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کو وفاق اور پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبوں سے ایک بھی نشست نہیں مل سکی، لیکن یوسف رضا گیلانی کی جیت پر وہ اس طرح خوشیاں منا رہے ہیں جیسے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔
سینیٹ کے معرکے کے بعد ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ آخر حکومت کے اتحادی اسے کیسے چھوڑ کر چلے گئے؟ کیونکہ ان کے متعلق تو یہی کہا جا رہا تھا کہ انہیں کچھ نا دیدہ قوتوں نے حکومت کے ساتھ منسلک کیا ہے، تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان نامعلوم دوستوں نے حکومت کے سر پر سے اپنا دستِ شفقت ہٹا لیا ہے؟ اور حکومت اب چند دن یا چند ماہ کی مہمان ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ حکومت بالخصوص وزیراعظم کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کر دیا جائے؟ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ انٹرنیشنل معاملات میں تیزی سے ابھرتے اور اپوزیشن کو این آر او دے کر اپنے ساتھ ملانے سے بار بار انکار کرتے ہوئے وزیراعظم اب اُن دوستوں کیلئے بھی کسی طور قابل قبول نہیں رہے۔ حالات کے تغیرات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر منظر صاف نظر آ رہا ہے۔ میری اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت کے دوست چاہتے تھے کہ پی ڈی ایم کے ایک بڑے دھڑے کو ساتھ ملا کر حکومت پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکال دے، اسی غرض سے نون اور شین کا فرق سامنے رکھنے کا سبق بھی پڑھایا جاتا رہا لیکن وزیراعظم یہ کہتے ہوئے بار بار انکار کرتے رہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے لیکن کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے، حالانکہ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پر وہ پہلے ہی سمجھوتا کر چکے ہیں۔ یہ وہ داغ ہے جونامعلوم دوست اور حکومت کے اپنے لوگ حکومت کے دامن پر لگا چکے ہیں۔ حکومت کو کہا گیا کہ وہ سمجھوتے کی تجویز مان لے کیونکہ اس طرح دو تہائی اکثریت سے اٹھارہویں ترمیم میں حسب منشا ایسی ترامیم کی جا سکیں گی جس سے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچنے کے تمام خدشات دور ہو جائیں گے، لہٰذا 'شین لیگ‘ کے ساتھ اپنے تعلقات میں نرمی لے آئے لیکن وزیراعظم نے اس پر معذرت کر لی۔ اسی لیے اب حکومت کو یوسف رضا گیلانی کی حیران کن جیت کی صورت میں ایک بڑا جھٹکا دیا گیا ہے۔
جی ایم سید کی برسی کے موقع پر سندھ میں نکالی گئی ایک ریلی‘ جس میں چند شرپسندوں نے نریندر مودی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں‘ کے حوالے سے تحقیقات کے بعد وزیراعظم کو ایک سول ایجنسی سے ملنے والی رپورٹس میں سندھ کی ایک سیاسی جماعت کی معاونت کے ثبوت مل چکے تھے اور وہ ان کی روشنی میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کا سوچ رہے تھے لیکن انہیں روک دیا گیا۔ پھر جب حکومت پر شین کا ملبہ اٹھانے کا دبائو بڑھنے لگا تو صبر جواب دے گیا۔ اور اس بے صبری کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سینیٹ الیکشن میں کیا ہوا‘ کس نے پیسے پکڑے، کس نے کسے کتنے میں خریدا‘ کس نے کس کو ووٹ دیا، یہ سب کچھ وقت بتائے گا لیکن ایک حقیقت یاد رکھیے گا، عدالت کے حوالے سے یہ خبریں میڈیا نے بڑی تواتر سے رپورٹ کی گئی ہیں کہ متناسب نمائندگی کے ذریعے سینیٹ کیلئے نئے ممبران کی رکنیت کا فیصلہ بہتر رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو پنجاب کی اتحادی جماعت کے لیے گنجائش کہیں بھی نہیں تھی۔ اس نشست کو حاصل کرنے کیلئے کوئی فیصلہ آنے سے پہلے ہی جہاندیدہ اور جوڑ توڑ کے ماہرین نے ایسا کام کر دکھایا کہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کو منایا گیا کہ لندن بات کریں اور پنجاب میں پانچ پانچ نشستوں کے ساتھ ایک نشست اتحادی جماعت کو دینے پر راضی ہو جائیں اور اپنے دیگر امیدواروں کی درخواستیں واپس لے لیں۔ بڑی مشکل سے لندن والوں کو راضی کیا گیا اور اس کیلئے دیگر جماعتوں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، یہی طے پایا کہ بدلے میں اتحادی ''بڑا ووٹ‘‘ پیپلز پارٹی کو دیں گے۔ یوں پنجاب میں بلامقابلہ ہی تمام نشستوں پر انتخاب ہو گیا۔ اب اسے بدقسمتی کہہ لیجئے کہ بلاول بھٹو زرداری نے جونہی پریس کانفرنس شروع کی تو جوشِ مسرت میں ان کے منہ سے نکل گیا کہ حکومت کے اتحادی بھی اب اس کے ساتھ نہیں رہے۔
سندھ سے ایم کیو ایم کی تیسری نشست اور مسلم لیگ فنکشنل کے صدر الدین راشدی کی ہار سندھ میں رچائے گئے کھیل کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے یکم مارچ کو ہی علم ہو چکا تھا کہ کون کس کے ساتھ جائے گا، اگر ایسا نہ ہوتا تو لندن سے مجھے یہ خبر کیسے ملتی کہ ایم کیو ایم کی ایک نشست بڑھ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے دوست اچھی طرح جانتے ہیں کہ لندن میں میری یاد اللہ کن شخصیات کے ساتھ ہے۔ یہ باتیں فیصل سبزواری، امین الحق بھائی اور فاروق ستار سے بہتر کون جانتا ہے؟ یہ خبر ملنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ ایسا لگتا ہے کہ سینیٹ کی یہ نشست مقتدرہ بمقابلہ مقتدرہ ہو گی۔
سنتے آئے ہیں کہ دیر سے کیا گیا انصاف کبھی کبھی انصاف کے قتل کا باعث بنتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا‘صدرِ مملکت کے ریفرنس میں یہی خدشات سامنے رکھے گئے تھے کہ ملک میں جمہوریت کا قتل عام کرنے کیلئے بدعنوانی اور ہارس ٹریڈنگ کا سر قلم کرنے کیلئے ایسا سسٹم لانا چاہئے جس سے ووٹوں کی خریداری ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے کیونکہ وہ لوگ جو اپنا ووٹ بیچ سکتے ہیں‘ ان سے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ذرا سے مفاد کیلئے ملک و قوم کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، جو ایک بار ضمیر کا سودا کر سکتا ہے، وہ بار بار بک جاتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ ''منسٹرز انکلیو میں ٹھہرائے گئے مہمان‘‘ کی باتیں حکومت تسلیم کرتی ہے یا نہیں کہ اب کرپشن کا بیانیہ پرانا ہو چلا ہے‘ اس لئے اس نعرے کو چھوڑ کر دوستی کی جانب ہاتھ بڑھائیں تاکہ ملکی نظام پہلے سے بھی بہتر انداز میں چلنا شروع ہو جائے۔ مبینہ وڈیوز‘ جن میں ووٹوں کو نوٹوں میں تولتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ووٹ کی عزت کیا ہوتی ہے‘ کے معاملے کو فوری طور پر عدالت میں لے جانا چاہئے اور تمام وڈیوز کی فرانزک رپورٹ کروا کے جرم اور مجرموں سے بمطابق قانون نمٹنا چاہیے۔ اگر اب بھی حکومت نے عدلیہ سے رجوع نہ کیا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت نے سمجھانے والوں کا موقف تسلیم کر لیا ہے کہ کرپشن کا نعرہ اب پرانا ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں