مقبوضہ کشمیر‘ سیاچن اورسرکریک کے منصفانہ حل اور بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر اگر بھارت سے دوستی کے ترانے گائے جائیں گے توخاطر جمع رکھیں اس chorus میں عوام ایک بہت ہی معمولی تعداد میں آپ کی ہمنوائی کرے گی۔ کچھ اطلاعات تو ہیں کہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیرکی پانچ اگست سے پہلے والی صورتحال بحال کرنے پر رضا مندہے لیکن جب تک اس کی عملی طور پر تکمیل نہیں کی جاتی ہمیں بھی اتاولا پن سے پرہیز کرنا ہو گی ۔ اس پس منظر میں وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں بھارت سے تجارت کو پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی سے مشروط کر کے قوم کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔واضح رہے یکم اپریل کو وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز کو مؤخر کر دیا تھا۔ اس حوالے سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس میں نے ای سی سی میں بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز زیر بحث آئی تھی مگرکابینہ نے بحث کے بعد اس تجویز کو مؤخر کر دیا۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ چکے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے، کابینہ میں اس حوالے سے تبادلہ ٔخیال ہوا‘اس تاثر پر وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کی واضح اور متفقہ رائے یہ تھی کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا‘ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہ ہو گا۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان تنازع کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے ؛چنانچہ وزیراعظم نے اجلاس میں کہا کہ جب تک بھارت 5 اگست کے فیصلے کو واپس نہیں لیتا تجارت نہیں ہو سکتی۔
نریندر مودی کا 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر تہنیتی پیغام اور پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائے والے تعلقات کی بات اور نئی دہلی میں سندھ طاس معاہدے پر دونوں ملکوں کی دوستانہ ماحول میں ہونے والی گفتگو اور پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کی افواج کی مشترکہ مشقوں میں بھارتی دستے کی متوقع شرکت کے علا وہ بھارت کی ہٹ دھرمی سے2016ء سے معطل سارک کانفرنس جو اسلام آباد میں منعقد ہونے جا رہی ہے اس میں نریندر مودی کی شرکت کی اطلاعات بھی ان دنوں اہم خبریں بن چکی ہیں۔ سب سے اہم وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا
اسلام آباد میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کا وہ حصہ ہے جس میں بھارت کو واضح طور پر امن کا پیغام دیا گیا ۔ بھارت اس وقت کسان تحریک‘ ہندوتوا کے بوتل سے باہر نکلے ہوئے جن کی وحشت‘ کشمیریوں اور اقلیتوں پر مظالم کی المناک صورتحال اور اس حولے سے دنیا بھر میں وائرل ہونے والی تشویشناک ویڈیوز اوردن بدن ڈولتی ہوئی معیشت کی وجہ سے لڑکھڑا چکا ہے۔ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارت اُس ملک کے لیے بہت بڑی رعایت کے مترادف ہے۔بھلا ڈولتی ہوئی معیشت کیلئے تجارتی موقع سے بہتر کیا ہو گا؟ مگر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بھارت کو یہ رعایت دینے کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ تجارت جب دنیا کے کسی بھی ملک سے کی جا سکتی ہے اور چینی‘ کپاس‘ دھاگہ کہیں سے بھی منگوایا جا سکتا ہے تو پھر بھارت ہی اس تجارت میں ترجیح کیوں؟ اس میں ہمارا کیا مفاد ہے؟ یہ واضح ہونا چاہیے‘ اور اگر اس تجارت کے عوض بھارت ہمیں کچھ دینے پر رضامند نہ ہو اور بدستور اپنی ضد پر اڑا رہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے اربوں روپے اس ملک پر نچھاور کرنے کی؟ شکر ہے کہ حکومت کی سمجھ میں یہ معاملہ جلد ہی آ گیا ہے۔کیا فیصلہ ساز اب تک پانچ سے زائد مرتبہ بیک ڈور چینل کے نتائج بھول گئے ؟کیا اسی بھارت سے ہم نے4 فروری2004ء کو امن معاہدہ نہیں کیا تھا؟
چین اور ایران کی انتہائی قربت اور دونوں ملکوں میں25 سال کی مدت کیلئے سٹرٹیجک معاہدے نے امریکہ ‘ بھارت ‘ اسرائیل اور یورپی ممالک کو پریشان کر دیا ہے( اس پر علیحدہ مضمون میں بات ہو گی) ابھی توپاکستان کا نیو کلیئر پروگرام ہی ان ممالک سے ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ سی پیک نے بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کو مزیدپریشان کر دیا۔ گزشتہ چھ ماہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان کو جس قسم کے دبائو کا سامنا رہا وہ حکومتی اکابرین اور با خبر حلقوں سے بہتر کون جان سکتا ہے ‘لیکن جس طرح وزیر ا عظم عمران خان نے اس بے پناہ دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے سب پر واضح کر دیا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کی خواہشات کے مطا بق حل نہیں ہو گا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے متعلق فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے سوچے گا بھی نہیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اس پر سب سے دلچسپ تماشا اپوزیشن جماعتوں نے لگائے رکھا کہ عمران خان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں‘اگر ایسا کیا گیا تو ہم یہ کر دیں گے‘ وہ کر دیں گے اور مذہب کے نام پر سیا ست کرنے والی چند جماعتوں نے تکرار بھی شروع کر دی کہ یہ سب ''یہودی ایجنڈا‘‘ ہے جس پر عمل کیا جا ئے گا۔حالانکہ جن مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنا تھا وہ کب کے کر چکے مگر پاکستان اپنے اسی مؤقف پر قائم ہے کہ اسرائیل کا سفارتی سٹیٹس آزاد فلسطین ریاست کے ساتھ مشروط ہے ۔
چند دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی چھڑ ی ہوئی ہے کہ اگر بھارت سے تجارت اور تعلقات کے سلسلوں کو بحال کرنے کا سوچا جا رہا ہے تو اس کیلئے مو دی سرکار کے سامنے وہی مطالبات کیوں نہیں رکھے جاتے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا ایسا منصفانہ حل جس میں پاکستان سمیت دونوں اطراف کے کشمیریوں کی مرضی اور رائے شامل ہو‘ عملی صورت اختیار نہیں کرتا تجارتی کواڑ بند رہیں گے۔ پاکستان کو آداب کے طریقوں کو بھی باقی دنیا کی طرح بدلنا ہو گا‘ جس طرح کرۂ ارض پر کہیں بھی مسیحی ‘ بدھ اور ہندوکسی تکلیف یا زیا دتی کا شکار ہوتے ہیں تو امریکہ برطانیہ‘ یورپ اور جاپان سمیت کئی ممالک کی جانب سے احتجاج کیا جاتاہے‘ اسی طرح پاکستان کو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوئوں کے مظالم اور قتل و غارت پر کھل کر میدان میں آنا ہو گا۔ شرم یا سفارتی تعلقات کی رسمیت کو چھوڑیے کیونکہ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ہندو برادری کے خلاف کسی فرد کی جانب سے جب کوئی غیر قانونی فعل سرزد ہوتا ہے توبھارت نچلا نہیں بیٹھتا اور سفارتی سطح پر شدیدشور مچاتا ہے ۔2002 ء میں گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام پر مودی بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات دنیا بھر میں ایک دہشت گرد اور نا پسندیدہ حیثیت اختیار کر گیا تھا بلکہ یہاں تک ہوا کہ امریکی اور یورپی حکومتوں نے اپنی حدود میں اس کیلئے ویزے کے اجرا پر پابندیاں عائد کر دیں اور یہ پابندیاں اس وقت اٹھائی گئیں جب جون 2014 ء میں انتہا پسندی کے نعروں کی گونج میں اس نے بھارتی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ستمبر2014ء سے جنوری2021 ء تک کا ہر لمحہ پاکستان کے خلاف ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری اور آئے روز سرجیکل سٹرائیک اور جنگ کی دھمکیوں میں گزرا۔ مودی
ٹولے نے مئی 2019ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے آرٹیکل 370اور35A تحلیل کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ناجائز طور پر تبدیل کی ‘ اس سے قبل 14 فروری 2019ء کوپلوامہ میں CPRF کے کانوائے پر خود کش حملہ کروا کر 44 جوانوں کی بلی چڑھائی اور پھربالا کوٹ میں نا م نہاد سرجیکل سٹرائیک اور پاکستان سے جنگ کے نعروں کی گونج میں ہندو ووٹرز کو جذباتی طور پر مشتعل کر کے بھر پور استعمال کیا‘ یوں دو تہائی اکثریت اس کی جھولی میں آ گری۔ دوسری جانب پاکستان اپنے دفاع کی حد تک مضبوطی سے مودی کے مقابل ڈٹا رہا اور 27 فروری کو انڈین ائر فورس کے ساتھ جو سلوک ہوااس نے مودی کو بھونچکا کر دیا‘ لیکن وہ اپنے ''گودی اینکرز‘‘ کے ذریعے ہندوتوا کی آنکھوں میں اپنی فتح کے جھوٹ کی دھول جھونک کر سب کو بیوقوف بناتا رہا ۔ نریندر مودی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت سے اب تک پورے بھارت میں RSS کی شکل میں ہندوتوا کی وہ آگ بھڑکا دی ہے جس نے بھارت کی ہر گلی بازار‘ دفتراور رہائشی آبادیوں میں ایک ہی سوچ بھر دی ہے ‘ انتہا پسند ہندو قوم پرستی کی سوچ۔ امریکہ یورپ اور دنیا بھر میں نریندر مودی اورRSS کو پھر سے اس کی انتہا پسند سوچ کے نام سے ایک انتہا پسند کے طور پر پکارا جا رہا ہے جو دہشت گردی اور دہشت گردوں کو جنم دیتا ہے ۔بھارت کے نزدیک کوئی بھی امن معاہدہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وقت آنے پر وہ اپنے ہی شہریوں اور فوج کے خون سے داغدار کر سکتاہے کہ اس کا کوئی لفظ بھی پڑھنے کے قابل نہیں رہتا۔
سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں کو جس رات جلایا گیا اس کی اگلی صبح وزیر خارجہ خورشید قصوری مذاکرات کیلئے وفد کے ہمراہ نئی دہلی جا رہے تھے‘26/11کو جب ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا گیا تو اس شام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے وفد کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کیلئے نئی دہلی پہنچے تھے۔ مارچ 2000ء میں بل کلنٹن جب مقبوضہ کشمیر کے حل کا ڈرافٹ کیا گیا معاہدہ فائنل کرنے کیلئے نئی دہلی پہنچے تو مقبوضہ کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ کے36 سکھوں کو گوردوارے کے باہر قطار میں کھڑا کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اوڑی کے فوجی کیمپ میں اس وقت آگ بھڑکا کر جوانوں کا جلایا گیا جب سارک کانفرنس طے ہو چکی تھی ۔ ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا اُنہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ۔