آزاد کشمیر کے حالیہ عام انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی‘ تینوں اطراف سے جو زبان بولی گئی‘ جس قسم کے فقرے استعمال کیے گئے اور جو دھمکیاں ببانگ دہل دی گئیں‘ ان کو سننے اور دیکھنے کے بعد ہمارے استادِ محترم گوگا د انشور بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ عام انتخابات کم اورگالم گلوچ کا مقابلہ زیادہ لگ رہے ہیں۔ ''بچہ پارٹی‘‘ جس میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز سمیت کچھ وفاقی وزرا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘ نے جو منظر باندھے رکھا اس میں آئندہ کی ملکی سیاست اور 2023ء کے عام انتخابات کی جھلکیاں ابھی سے دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ایسا گھمسان کا رن پڑے گا کہ ووٹ ڈالنے اور جلسوں جلوسوں میں جانے والوں کو زرہ بکتر قسم کا کوئی خاص لباس پہننا پڑے گا کیونکہ جو سیا ست سوشل میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے سٹیج سے دکھائی دے رہی ہے‘ اس کی اگلی منزل لڑائی جھگڑا ہی ہو سکتی ہے۔ باقی سب تو چھوڑیے‘ ایک نجی ٹی وی چینل پر خاتون اینکر نے اپنے پروگرام میں آزاد کشمیر کے انتخابات پر بات کرنے اور اس شکست پر تبصرہ کے لیے جب مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے آزاد کشمیر کے تاحال وزیراعظم کو مدعو کیا تو خاتون اینکر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے راجہ فاروق حیدر نے اینکرکی تعلیمی قابلیت کے بارے میں جو ریمارکس دیے‘ جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں‘ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کی ذہنی کیفیت اور ہذیان کا عالم کس نہج تک پہنچ چکا ہے۔
اقتدار کسی کی میراث نہیں‘ سیاست اور جمہوریت میں یہ عوام کی ملکیت ہوتا ہے‘ وہ جسے چاہیں‘ سونپ دیں۔ اگر پانچ سالہ اقتدار کے بعد آپ کو آپ کے حلقۂ انتخابات کے ووٹرز نے اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ آپ کو اپنی نمائندگی کا اختیار دوبارہ سونپ دیں اور آپ کو ایک نہیں‘ دو حلقوں سے شکستِ فاش کا منہ دیکھنا پڑا ہے تو بجائے اس کے کہ آپ خوش دلی سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کریں‘ آپ نے اپنے ووٹرز کو جاہل، صدیوں کے غلام اور نجانے کن کن القابات سے نوازنا شروع کر دیا ہے۔ انتخابات کا غصہ خاتون اینکر پر بھی نکالا گیا جس نے احتجاجاً یہ کہتے ہوئے کال ختم کر دی کہ اگر آپ اپنے الفاظ واپس نہیں لیں گے تو میں آپ سے مزید بات نہیں کروں گی۔ یہ رویہ اور لہجہ کسی بھی شائستہ انسان کو زیب نہیں دیتا‘ اور سیاست تو نام ہی اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا ہے۔ حالیہ آزاد کشمیر انتخابات میں سیاسی مہمات کے منا ظر دیکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ملکی سیاست اس قدر پست ہوتی جا رہی ہے کہ شرفا کے لیے کل کو سیاست ایک گالی بن کر رہ جائے گی۔
آج کی تین جماعتی سیاست سے پہلے‘ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی دو جماعتی سیاست میں ایک دوسرے کی پگڑیاں سربازار اچھالی جاتی رہی ہیں۔ اس کارِ بد کا سب سے زیادہ نشانہ خاتون ہونے کے ناتے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بنایا جاتا رہا۔ اگر کسی کو 1986ء سے 1998ء کے دوران دونوں پارٹیوں کا کوئی جلسہ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا یا انتخابی مہم میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتیں سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے تو وہ اس عشرۂ جمہوریت اور اس کے ثمرات کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے مرکزی سٹیج سے ''کانٹوں اور گملوں سمیت جو پھول‘‘ ایک دوسرے پر پھینکے گئے‘ انہیں سننے کے بعد سبھی دانشور کہہ رہے ہیں کہ یہ عام انتخابات نہیں بلکہ ''گالم انتخابات‘‘ لگ رہے تھے لیکن 1988ء کے عام انتخابات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے کانوں سے سننے والوں کے نزدیک‘ جنہوں نے پنجاب کے کھیتوں اور کھلیانوں میں ماں اور بیٹی کی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں سے پھینکی جانے والی تصاویر دیکھ رکھی ہیں‘ آزاد کشمیر کی یہ کمپین کچھ بھی نہیں تھی۔ چند روز تک سابق ہو جانے والے وزیراعظم آزاد کشمیر کی اب تک جو چار پانچ وڈیوز اور آڈیوزوائرل ہوئی ہیں‘ان میں کسی میں وہ اپنے ووٹرز کو وہ بے نقط سناتے سنائی دیتے ہیں کہ الامان الحفیظ! اور کسی میں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپوٹرز کو دھمکاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک آڈیو کال‘ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘ سے محسوس ہوتا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں سیاسی پارٹیوں کے ڈیرے کم اسلحہ ڈپو زیادہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نچلے طبقے تک آتے آتے بات کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور نتیجہ الیکشن والے دن قتل و غارت تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈسکہ اور وزیر آباد میں مسلم لیگ نواز اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں پی پی پی نے جب کامیابیاں سمیٹیں تو پی ٹی آئی حکومت کو نااہل اور نجانے کیا کچھ کہا گیا جبکہ پیپلز پارٹی کی ہم نشین مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس سے بھی بڑھ چڑھ کر للکارے مارے گئے کہ ہم وہ شیرہیں جو دوسروں کے جبڑے سے بھی اپنا حق چھیننا جانتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کراچی، نوشہرہ، وزیر آباد اور ڈسکہ سے پی ڈی ایم جماعتوں کی بھرپور مدد سے کامیابیاں سمیٹنے کے بعد تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم کو نشانہ بناتے ہوئے طعنوں کی شکل میں اس طرح کے چرچے کیے جاتے رہے کہ لگتا تھا کہ انہوں نے یہ چند نشستیں نہیں بلکہ کے ٹو کی چوٹی سر کر لی ہے۔ حالانکہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے مقابلے میں کامیابی اپوزیشن جماعتوں کے لیے ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہوتی ہے لیکن اس سے حتمی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کیونکہ اکثر ضمنی انتخاب میں ہوتا یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی اپنا سارا زور حکمران جماعت کے خلاف حصہ لینے والی بڑی جماعت کے پلڑے میں ڈال دیتی ہیں جس سے وقتی طور پر کامیابی تو مل جاتی ہے لیکن اسے مستقل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ عام انتخابات میں ہر ایک جماعت نے اپنا وجود دکھانے کیلئے حصہ لینا ہوتا ہے۔ ایک مذہبی جماعت نے جب ہر نشست پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تو ایک حلقے سے متعلق اس کے مرکزی لیڈران سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس حلقے سے ہمارے امیدوار کی وجہ سے فلاں جماعت کی کامیابی کے امکانات بڑ ھ سکتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں لیکن ان پانچ برسوں میں ہماری قیادت نے اپنے ضلعی اور تحصیل سطح کے ناظمین پر جو جمع خرچ کیا ہے‘ اس کا رزلٹ بھی تو لینا ہے، ہم ہر الیکشن میں یہ دیکھتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات کی نسبت ان کی کارکردگی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے، اس کے بعد ہی قیادت ان کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ چونکہ ہمارا اپنا سسٹم ہوتا ہے‘ اس لئے ہر حلقے کی کارکردگی اور ووٹوں کے تناسب کے اعتبار سے بڑی جماعتوں سے لین دین بھی کیا جاتا ہے۔
19 فروری 2021ء کو دو قومی اور دو صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی تین نشستوں پر جب تحریک انصاف کو شکست ہوئی تو بلاول بھٹو زرداری، مریم صفدر اور مولانا فضل الرحمن کے حکومت پر تابڑ توڑ حملے شروع ہو گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم کو اس ناکامی پر استعفیٰ دے دینا چاہئے کیونکہ وہ عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اب جب سیالکوٹ کی آبائی ضمنی نشست اور آزاد کشمیر انتخابات میں نون لیگ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو حسبِ روایت پی ٹی آئی کے وزرا کی جانب سے مریم اور بلاول سے استعفے کا مطالبہ سامنے آیا ہے مگر یہ انہیں مضحکہ خیز لگ رہا ہے۔ سب سے زیادہ طعنے نوشہرہ کی صوبائی نشست جیتنے پر مارے گئے تھے اور یہ نشست جیتنے کے بعد وہ ڈھول بجائے گئے جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا گیا ہو۔ 19 فروری کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ صرف مسلم لیگ نواز سے نہیں تھا بلکہ پی ڈی ایم کی 9 جماعتیں اس کے مدمقابل تھیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں کے پی کی اس نشست سے مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی، پی پی پی اور ایم ایم اے نے مجموعی طور پر34 ہزار 269 ووٹ حاصل کیے تھے اور پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید الدین نے24 ہزار 832 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم کی 9 جماعتوں نے 21 ہزار جبکہ پی ٹی آئی نے 17 ہزار ووٹ حاصل کیے۔