گوجرانوالہ میں جیسے ہی یہ اعلانات ہوئے کہ شہر میں چند منٹوں میں پچاس ہزار درخت لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا جائے گا تو مسلم لیگ نواز کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے فوراً میڈیا کو اکٹھا کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ان کے شہر کو ایک ''سازش‘‘ کے تحت جنگل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ نے چونکہ تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیے‘ اس لیے یہاں کے عوام سے ''انتقام‘‘ لینے کیلئے گوجرانوالہ کو ''جنگل‘‘ اور ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ افراد کے مستقل ٹھکانے میں بدلا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف والے یہ درخت لگا کر پہلوانوں کے شہر کا امن برباد کرنے جا رہے ہیں۔ ان کی یہ منطق بہت سوں کی تفریح کا سبب بنی رہی کہ اگر شہر میں پچاس ہزار پودے لگائے گئے تو شہر جنگل بن جائے گا اور ڈاکوئوں کا مسکن بھی‘ پھر اس جنگل میں شیر اور چیتے بھی آ جائیں گے جو ہر راہ چلتے افراد کو چیر پھاڑ دیں گے۔
ابھی گوجرانوالہ کے موصوف رکن پنجاب اسمبلی بٹ صاحب کی بلین ٹری سونامی یا شجر کاری کے خلاف یہ وڈیو دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا کہ ایک نئی وڈیو سامنے آ گئی جس میں کالاباغ اور دیگر ڈیموں کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا جا رہا تھا کہ اگر یہ ڈیم بن گئے تو یاد رکھو تم سب ساری عمر روتے رہو گے کیونکہ یہ ڈیم ہماری زراعت کو تباہ کرنے کی فلاں کی سازش ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب اس وڈیو میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب دریائوں کے پانی پر بنائے گئے ڈیموں سے پانی سے بجلی نکل گئی تو اس ''پھوکے‘‘ پانی سے ہماری زمین کی فصلیں اگانے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کررہ جائے گی، اس طرح ہم سب کسان بھوکے مر جائیں گے۔ یہ دونوں وڈیوز سامنے رکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس سوچ کا مقابلہ کیسے کر رہے ہوں گے۔
وہ نجانے کون بد بخت ہے جس نے ہماری اور اپنی آنے والی نسلوں کو صاف پانی‘ خوشگوار ہوا اور کراچی اور سندھ سمیت پورے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گرمی اور حبس کو کم کرنے اور ملک کو قحط سالی سے بچانے کیلئے جنگی بنیادوں پر لگائے جانے والے ان پودوں کو‘ جنہوں نے اگلے سالوں میں درختوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے ویران اور اجڑی ہوئی جگہوں کو سرسبز میدانوں اور حبس سے بچانے کے سائبان میں بدل دینا تھا‘ عمران خان اوران کی سیاست سے دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس عوام اور ماحول دشمن سوچ نے ان تمام پودوں کو‘ جو آدمی کے قد کے برا بر ہو چکے تھے‘ کلہاڑیوں کے جنونی وار کرتے ہوئے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ دس بارہ نہیں بلکہ500سے زیا دہ درخت تھے جنہیں درختوں کو جنگل اور جرائم کا اڈہ بنانے اور پانی سے بجلی نکل جانے کے بعد پھوکے پانی سے فصلوں کے اجڑنے کی باتیں کرنے والے معاشرے اور اس قسم کی سوچ کی حامل جاہلیت اور نفرت نے قتل کر دیا۔ یہ سانس لینے والی جاندار مخلوق تھی جو انسانی زندگیوں اور بہترین ماحول کے علا وہ ان کیلئے مناسب خوراک اور صحت کیلئے دوا کا کام سرانجام دیتی ہے۔ جیتی جاگتی ان جانوں‘جو ابھی اپنے لڑکپن کی بہاریں دیکھ رہی تھیں‘ کلہاڑیوں کے پے درپے وار کر کے ان کی گردنیں تن سے جد ا کر دی گئیں۔
ممکن ہے کہ کسی بد بخت سیا سی دشمن نے اس ''قاتل‘‘ کو تحریک دیتے اور اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے اکسایا ہوکہ یہ تحریک انصاف کے درخت ہیں، ان سے عمران خان کی تعریف ہو گی، ان کو لہلہاتا دیکھ کر اور ان کی شادابی اور ہریالی سے پی ٹی آئی کے ووٹ بڑھ سکتے ہیں، ان درختوں کو دیکھ کر جب علاقے کے لوگ ٹی وی چینلز پر اپوزیشن رہنمائوں کو بلین ٹری سونامی کے طعنے دیتے ہوئے سنیں گے‘ اس منصوبے کو تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی دلیلیں سنیں گے تو اپنے گھروں کے سامنے لہلہاتے ہوئے سبز پتوں والے درخت ان سب کے جھوٹوں کا ماتم کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی اس کوشش کی گواہی دیں گے جس سے ہمیں سیاسی طور پر کافی خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ''فساد کی جڑ‘‘ ان درختوں کو اکھاڑ پھینکا جائے۔
جنگلات‘ جنہیں ہمارے یہاں سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا اور عوام دشمن ثابت کیا جا رہا ہے‘ دنیا کے تین چوتھائی حیوانات اور نباتات کو محفوظ بناتے ہیں۔ یہ فضا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے اور انسان کو خوراک ، ایندھن اور ادویات فراہم کرتے ہیں۔ وہ نعمت جو ہماری زند گیاں بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں‘ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے اور کٹتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی نہ جانے کیوں خاموش رہتے ہیں ۔ دنیا کے چوٹی کے ماحولیاتی سائنسدانوں نے شجر کاری کے دس سنہری اصول وضح کر رکھے ہیں اور ان پر عمل کرنے سے ہی اگلی دہائی کی دنیا سکون سے زندگی گزارنے کے لائق ہو سکے گی‘ ورنہ گلوبل وارمنگ نے جس طرح یورپ اور برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ جس طرح آئے دن جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ اگلی نصف صدی تک انسان ایسی بے شمار تکالیف کا شکار ہو جائے گا جس کا اس کے پاس شجر کاری کے طوفان کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں جنگلات کا تحفظ اپنی پہلی ذمہ داری کے طور پر اپنانا ہو گا اور اس کیلئے صرف حکومتی ذرائع ہی نہیں بلکہ معاشرے کو بھی پورا پورا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ انسانی ضروریات، درکار سہولتوں اور آرام کیلئے شجر کاری اور درختوں کی دیکھ بھال‘ ان درختوں کے اردگرد رہنے والوں اور وہاں چند گھڑی کیلئے قیام کرنے والوں کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا انسان کے بچوں کے لیے اپنی ماں کی گود اور خوراک۔ دس بلین درخت‘ جن کا وزیراعظم عمران خان نے بیڑہ اٹھایا ہے‘ ایک اکیلئے شخص یا کسی سرکاری ادارے کے بس کی بات نہیں۔ اس کیلئے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بدقسمتی کہہ لیجئے کہ ماضی میں شجر کاری مہم صرف اخبارات اور ٹی وی پر چند دنوں کیلئے چلائے جانے والے اشتہارات تک ہی محدود رہتی تھی۔ وہ لوگ جو آج پچاس ساٹھ کی عمر کے پیٹے میں ہیں‘ ان کو اپنے زمانۂ طالب علمی کے دوران ہر سال زور و شور سے چلائی جانے والی شجر کاری مہم یاد آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر کے ہر سکول میں ان چالیس پچاس برسوں میں جو درخت لگائے گئے‘ وہ کہاں گئے؟ اگر شجر کاری مہم کیلئے لگائے جانے والے ان درختوں کے صرف گزشتہ چالیس برس کے اعداد و شمار ہی نکال لیے جائیں تو پاکستان کی ہر سڑک سمیت سکولوں اور کالجوں کی عمارات کے اندر چاروں جانب ہرے بھرے درخت نظر آنے چاہئیں جن کی گھنی اور ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر طلبہ پڑھائی کر رہے ہوتے۔ اس سے شہر اور گائوں و قصبے کا ماحول نہ صرف صحت مند ہوجاتا بلکہ وہاں بیماریوں کا تنا سب بہت ہی کم ہوتا۔ اس کے علاوہ وہاں فضائی آلودگی کا زہر محسوس ہوتا اور نہ ہی علاقے کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ۔ مگر یہ ساری مہم صرف کاغذوں میں ہی جاری رہی۔ شجر کاری صرف نام کی ہی ہوتی رہی عملاً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ گزشتہ تین برس کی طرف ہی دیکھ لیجئے، اشتہارات میں‘ سرکاری محکموں کی جانب سے صرف لاہور میں لاکھوں درخت لگائے گئے لیکن ایک سال بعد جب دوسری شجر کاری مہم شروع ہو ئی تو وہ پودے جو گزشتہ برس لگائے گئے تھے‘ کہاں گئے؟لگتا ہے وہ بھی بٹ صاحب کی طرح جنگل اور جرائم کی دہائیاں دینے والوں کی سیاسی دشمنی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ٹی وی پر آ کر ہماری اپوزیشن جماعتیں ورلڈ بینک کی وہ رپورٹ کیوں نہیں سناتیں جس میں وارننگ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اگر اپنے چھ اضلاع میں شجر کاری نہ کی تو2050ء تک یہ اضلاع ریگستان کی صورت اختیار کر لیں گے۔کیوں نہیں عوام کو ترغیب دی جاتی کہ وہ حکومت کے اس اچھے منصوبے میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ لگائے جانے والے درختوں کی حفاظت بھی یقینی بنائیں کیونکہ یہ کسی ایک سیاسی جماعت کے نہیں‘ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔