فائٹر یا بمبار طیارے کا پائلٹ کسی بھی طور کسی کمانڈو سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسے زمینی افواج کے ان کمانڈوز کی طرح‘ جو دشمن کے علاقے میں اپنے مشن کیلئے اتارے یا بھیجے جاتے ہیں‘ کسی بھی مشن پر روانگی کے وقت یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے زندہ واپس آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آج جب دنیا کے ہر میدان اور ہر شعبے کی طرح عسکری ٹیکنالوجی کی نت نئی دریافتیں اپنے عروج کو پہنچ رہی ہیں‘بتدریج ہر شعبہ نئی سائنسی دریافتوں سے مستفید اور ان کے تجربے کرنے میں مصروف ہے مگر ان فائٹرز پائلٹس کیلئے مشکلات اُتنی ہی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ویسے تو فوجی وردی پہنتے ہی ملکی سرحدوں اور ملک کے وقار کی حفاظت کا جذبہ وردی پہننے والے کے جسم میں سرایت کر جاتا ہے‘ اس لیے جیسے ہی دفاعِ وطن کیلئے دشمن کے کسی بھی حملے اور کسی کوشش کو ناکام بنانے کیلئے آپریشن کا لفظ آتا ہے‘ یہ ان محافظوں کو یہ بتانے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ اب سے تمہاری نیند‘ بھوک اور آرام اس قوم کیلئے وقف ہو گئے ہیں جن کی حفاظت کی تم نے قسم کھائی ہوئی ہے۔
پاکستان کی بحریہ ہو یا بری افواج‘ ہمارے رینجرز ہوں یا کوسٹ گارڈز‘ ایف سی کے جوان ہوں یا لیویز کے مجاہد‘ سب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر پاک فضائیہ کی بات کریں تو ان کے پائلٹس کے ساتھ ساتھ ان کا زمینی عملہ بھی جذبۂ جہاد سے سرشار‘ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دفاعِ وطن کیلئے ہر حد سے گزرنے پہ آمادہ نظر آتا ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو معمولی سمجھ کر کبھی سامنے نہیں لائی جاتیں حالانکہ قوموں کی زندگی میں یہ سبھی ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ گروپ کیپٹن ریٹائرڈ سید رضی الدین سے جب ایئر فورس کی خدمات اور وطن عزیز کے دفاع پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایئر فورس کے زمینی عملے کا ایک ریڈار ٹیکنیشن شوکت ہاشمی 1971ء کی جنگ میں ڈھاکہ سے جنگی قیدی کی حیثیت سے گرفتار ہوا۔ اسے پاکستان کے دوسرے جنگی قیدیوں کی طرح‘ اس کے عملے کے ہمراہ الٰہ آباد میں قید رکھا گیا۔ اس نے 16 جنوری 1973ء کو اپنے ایک ساتھی قیدی نواب دین کے ساتھ مل کر دشمن کی قید سے نکلنے کیلئے سرنگ کھودی۔ جب وہ اپنے منصوبے کے مطابق اس سرنگ کے راستے فرار ہوئے تو ان کا بھارتی فوج کے گارڈز سے سامنا ہوا جنہوں نے ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں، اس پر نواب دین کی جان بچانے کیلئے شوکت ہاشمی نے خود کو ان گارڈز کے اوپر گرا لیا اور نواب دین کو فرار ہونے کا کہا۔ شوکت ہاشمی کی بہادری کی یہ داستان ایک سال بعد 1974ء میں پاکستان تک اس وقت پہنچی جب باقی جنگی قیدی تو بھارت سے رہا ہو کر واپس آگئے لیکن شوکت ہاشمی نہ آ یا۔ شوکت ہاشمی کی یہ داستانِ جرأت اپنے واحد گواہ نواب دین کے توسط سے ہم تک پہنچی۔
8 دسمبر 1971ء کو چکوال کے قریب پاکستان کی ایک ایئر بیس کے زمینی عملے کے ایک بہادر ٹیکنیشن محمد لطیف کی شہادت کی داستان وطن کیلئے دی گئی بے مثال قربانی کے حوالے سے آج بھی دلوں کو تڑپاتی رہتی ہے۔ ایک مشن سے واپسی کے بعد‘ جب پاک ایئر فورس کے چار جہاز ایئر بیس پر اترنے کیلئے نیچے آ رہے تھے تو دیکھا گیا کہ دشمن کے کچھ جہاز ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ لطیف نے جب انڈین ایئر فورس کے ان طیاروں کو دور سے دیکھا تو اس وقت پاکستان کے چاروں جہاز رن وے پر اتر چکے تھے لیکن ان جہازوں کے پائلٹس کو کاک پٹ سے سیڑھی کے ذریعے اتار کر خندق تک لے جانے والا ان کا سٹاف ان سے کافی دور تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس وقت یہ چار جہاز اور ان میں بیٹھے پائلٹس دشمن کا پہلا اور سب سے آسان ٹارگٹ ہیں‘ نہتا محمد لطیف پاکستان کے عشق میں بے خطر دشمن کے جہازوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ پائلٹس کی جانیں بچانے کیلئے وہ برق رفتاری سے سیڑھی لیے ایک ایک جہاز تک پہنچا‘ جہاں اس نے کنوپی کھول کر ان پائلٹس کو اترنے میں مدد دی۔ اس وقت انڈین ایئر فورس زمینی ایئر کرافٹ گنوں سے چلائے جانے والے گولوں سے بچتے ہوئے تاک تاک کر ان جہازوں پر فائرنگ کر رہی تھی لیکن ٹیکنیشن محمد لطیف کو کسی بات کی خبر نہیں تھی۔ اسے پروا تھی تو صرف یہی کہ اس نے ان پائلٹس کو بچانا ہے جو ملک و قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ آخری پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ حسیب کے ساتھ جب لطیف بھاگتا ہوا ایئر فیلڈ کے درمیان میں پہنچا تو اس وقت دشمن کی ایئر ریڈ ان کے سر پر تھی۔ یہ دیکھتے ہی اس نے اپنے آس پاس موجود پائلٹس کو دھکا دے کر زمین پر گرایا اور خود پائلٹ حسیب کے اوپر لیٹ گیا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ حسیب تو بچ گئے لیکن لطیف بھارتی ایئر فورس کی برسائی جانے والی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گیا۔
صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
6 ستمبر 1965ء کا سورج غروب ہونے کو تھا‘ جالندھر کا آسمان گرد آلود تھا، ڈھلتے سورج کی وجہ سے شفق دھندلا دھندلا سا ہو رہا تھا، ایسے میں پاک فضائیہ کے تین سیبر طیارے‘ جنہیں فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسین اور سیسل چودھری اڑا رہے تھے‘ نمودار ہوئے۔ ان کی قیادت سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کر رہے تھے۔ ان کا ٹارگٹ جالندھر سے 55 کلومیٹر جنوب میں ہلواڑہ کا مشہور بھارتی ہوائی اڈہ تھا۔ جیسے ہی یہ تینوں اپنے ٹارگٹ کے قریب پہنچے تو سیسل چودھری نے اپنے کمانڈر فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز رفیقی کو بتایا کہ کچھ دور دشمن کے ٹرانسپورٹ طیارے اڑتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے ٹارگٹ کو ترجیح دینا اولین جانا۔ شام کی تاریکی میں انہیں اپنا ٹارگٹ دکھائی نہیں دے رہا تھا، انہوں نے کئی فضائی غوطے لگائے لیکن کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر انہوں نے واپس مڑنے کیلئے کورس سیٹ کیا ہی تھا کہ دشمن کے ہنٹر طیاروں کا ایک غول ان پر جھپٹ پڑا۔ سرفراز رفیقی نے الارم دیتے ہوئے فالتو ٹینکیاں پھینکنے کا حکم دیا، اب ان تین کے مقابلے میں دشمن کے چھ طیارے تھے۔ کہاں پرانے زمانے کے سیبر طیارے اورکہاں اس وقت جدید ہنٹر طیارے۔ جالندھر کی فضائوں میں ایک عجب جنگ لڑی جا رہی تھی، کچھ دیر بعد ایک انڈین ہنٹر کو شکار کر لیا گیا، دوسرے ہنٹر کو رفیقی نے اپنی زد میں لے کر گنوں کا بٹن دبانا چاہا تو طیارے کی گنیں خاموش رہیں، بار بار فائرنگ بٹن دبانے کے باوجود بھی ناکامی ہوئی، گنیں جام ہو چکی تھیں، اب ''خالی ہاتھ‘‘ دشمن میں گھرے رفیقی نے اپنے فائٹرز کو پیغام دیا کہ وہ واپسی کی راہ لیں‘ وہ انہیں کور کرنے کیلئے ان کے پیچھے پیچھے رہیں گے۔ پھر سرفراز رفیقی نے اپنے ان دو پائلٹس کا‘ جنہوں نے دشمن کے دو مزید ہنٹر طیاروں کو تباہ کر دیاتھا، سائے کی طرح ساتھ دیا اور بالآخر خود ایک ہنٹر طیارے کا نشانہ بن گئے۔
کسی بھی شعبے میں‘ کسی بھی ہنر میں بہایا گیا پسینہ زندگی میں پیش آنے والے امتحانات اور مشکلات میں کام آتا ہے۔ اسی طرح جب فوجی جوان زمانۂ امن میں اپنی کٹھن مشقوں اور تجربات میں خود کو غرق کرتے ہوئے بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر کئی کئی گھنٹے تک اپنا پسینہ بہاتے ہیں تو اس بے تحاشا بہائے گئے پسینے کا ثمر انہیں اپنے مشن یا کسی بھی صورتحال میں پیش آنے والے مقابلوں میں محض سرخرو ہی نہیں کرتا بلکہ ملکی سلامتی کے کام بھی آتا ہے۔
جنگِ ستمبر میں مشرقی پاکستان میں بھی پاک فضائیہ نے دشمن کو بے بس کیے رکھا۔ ہمارے سیبر طیاروں کے سکواڈرن کو ''دم تراش‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سات ستمبر کی صبح انڈیا کے لڑاکا اور بمبار طیارے ڈھاکہ اور چاٹگام کو اپنا نشانہ بنانے کیلئے لپکے لیکن پاک ایئر فورس نے انہیں بھگا دیا۔ پھر جیسے ہی یہ طیارے مغربی بنگال کے ایئر بیس کلائی کنڈہ پر لینڈ کرنے لگے تو ان کا پیچھا کرنے والے شاہینوں نے ان تمام طیاروں کو ہمیشہ کیلئے زمین بوس کر دیا۔