چند دن ہوئے‘ سابق وزیراعظم جناب نواز شریف ایک کنونشن سے آن لائن خطاب کرتے دکھائی دیے، ان کی پُر مغز اور درد مند باتیں سن کر دل پسیجنے لگا کہ ہمارے ملک میں اس قد بہترین سوچ کے لیڈران کرام کے ہوتے ہوئے ہم کیوں خود کو لاوارث اور بے بس سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو درپیش مسائل پر مضامین اور مقالے پڑھتے دیکھ کر روسٹرم کے عقب میں کھڑے سیا سی لیڈران اور ان کی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے افراد جذبات سے مغلوب ہو کر جب پُر جوش نعرے لگاتے‘ تو یہ دیکھ کر جب وہ اپنی نظر کی عینک کے زاویوں کو درست کرتے تو اس ملک کے طلبہ، وکلا اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کو درپیش تکلیف کا کرب ان کے چہرے سے صاف دکھائی دیتا تھا۔ گوکہ اس وقت وہ لندن کی پُر فضا اور جمہوریت کی انتہا سمجھے جانے والے معاشرے سے لطف اندوز ہو کر اپنے مادرِ وطن کی محبت میں ہر اس طاقت کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے تھے جو ان کے دام میں نہیں آ سکی تھی۔ جب وہ عدلیہ کی آزادی کا درس دیتے ہوئے اہم شخصیات اور اداروں کے خلاف اپنے دل کا غبار نکا ل رہے تھے تو اس وقت نجانے کیوں کچھ چینلز کمزور یادداشت سے نجات کیلئے ایک دوا کا شتہار چلا کر ان کی تقریر کا تسلسل توڑ رہے تھے۔ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ‘ جو ان کا خطاب بڑے انہماک سے سن رہے تھے‘ اس اشتہار کو کوس رہے تھے کہ اس اشتہار کیلئے یہی وقت مناسب تھا؟ جب ان کی تقریر ختم ہوئی اور بلائے گئے مہمانوں کے نعروں سے ہال گونجنا شروع ہوا تو ہمارے جیسے ٹی وی کے سامنے بیٹھے نجانے کتنے ہی لوگ اس تقریر کی چاشنی میں گم ‘خاموش اور چپ بیٹھے تھے لیکن کئی لوگ ابھی تک اشتہار پر غور و فکر کر رہے تھے۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد یہی خیال ذہن میں آیا کہ یہ اشتہار ضرور میاں صاحب کے کسی سیا سی مخالف کی جانب سے چلوایا گیا ہو گاتاکہ وکلا، اساتذہ، طلبہ، ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کا دھیان فوری طور پر ان کے دورِ اقتدار پر چلا جائے اور وکلا، ڈاکٹرزاور طلبہ کے ساتھ ان کے دور میں روا رکھے گئے سلوک کے واقعات کو اگر لوگ بھول چکے ہیں تو وہ پھر سے یاد آ جائیں۔ جب آزادیٔ اظہار، وکلا اور طلبہ سمیت عوام کی شہری آزادیوں سے متعلق وہ موجودہ حکومت کی زیا دتیوں کی باتیں کر رہے تھے تو نجانے کچھ لوگوں کا دھیان ان کے دوسرے عرصۂ اقتدار کے عروج‘ 12 ستمبر 1997ء کی طرف کیوں چلا گیا جب ان کے برادرِ صغیر میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وہ خود دو تہائی اکثریت والی حکومت کے ساتھ اس ملک کے مختارِ کل تھے۔ اس دن خصوصی ہدایات پر لاہور کے ایف سی کالج پر پولیس نے اس بری طرح دھاو ا بولا تھاکہ ایف سی کالج کے در و دیوار معصوم طلبہ اور ان کی مددکیلئے آئے ہوئے ان کے والدین کے خون سے رنگ گئے تھے۔ آج انسانی حقوق کا درس دینے والوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنی ایک حمایت یافتہ طلبہ تنظیم اور پولیس کے علاوہ پارٹی کارکنان کو بھی اس طرح کھلی چھٹی دی کہ طلبہ کو لینے کیلئے آئی ہوئی ان کی مائوں تک کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔ اگلے دن کے اخبارات میں خون آلود کالج کے در و دیوار کی تصاویر دیکھ کر سب سہم گئے۔بہت سے والدین اپنے لہو لہان بچوں کو لے کر لاہور کے ہسپتالوں میں دھکے کھاتے دیکھے جا رہے تھے۔ بات صرف ایک دن ہی کی نہیں تھی بلکہ دو دن تک کالج کے اندر گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ ستر کے قریب طلبہ اور سات اساتذہ اس حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ سب سے دردناک منظر وہ تھا جب ایک سینئر پروفیسر اس بر بریت پر پولیس کو منع کرنے کیلئے آ گے بڑھے تو پولیس کی مدد کو آئے سیاسی کارکنان نے پروفیسر صاحب پر دھاوا بول دیا اور ان کے منہ پر طلبہ کے سامنے اس زور سے تھپڑ مارے گئے کہ ان کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ اخبارات میں ایک سینئراستاد کے منہ پر مارے گئے تھپڑ وں کی تفصیلات کی اشاعت نے پنجاب ہی نہیں‘ ملک بھر کے اساتذہ میں غصے اور بے چینی کی لہر دوڑا دی اور جب اس پر مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں احتجاج شروع ہوا تو ہمارے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کو چن چن کر بے دردی سے پیٹا جانے لگا اور مخالفت میں اٹھنے والی سبھی آوازیں خاموش کرا دی گئیں۔ دراصل اساتذہ پر تشدد باقیوں کے لیے سبق تھا کہ زبان کھولنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔
لاہور میں اپنے خلاف فیصلہ دینے والی عدلیہ اور ججوں کو ڈھکی چھپی دھمکیاں دیتے ہوئے جو ڈرامہ کرایا گیا‘ یہ خبریں آج کل زوروں پر ہیں۔ جب وہ عدلیہ کے احترام اور قانون کی بالا دستی جیسی خوش کن باتیں کر رہے تھے تو ہال کے ایک کونے میں موجود ایک کمزور سی آواز بھی گونج رہی تھی جس پر کسی نے دھیان دینا منا سب نہ سمجھا۔وہ کمزور سی آواز بڑے ادب سے پوچھ رہی تھی کہ جناب جب آپ1997ء میں اس ملک کے دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے تو اس وقت مر حوم یٰسین وٹو آپ کے وفاقی وزیر پارلیمانی امور تھے اور آپ کی خصوصی ہدایات پر انہوں نے قومی اسمبلی میں ججوں کے ''ضابطۂ اخلاق‘‘ کے حوالے سے ایک بل تیار کیا تھا، جب یہ خبر میڈیا کے ذریعہ باہر نکلی تو اس پر جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ، جسٹس (ر) عطا اﷲ سجاد، جسٹس (ر) ذکی الدین پال سمیت کئی ریٹائرڈ جج چیخ اٹھے تھے۔ عدلیہ سے اظہارِ یکجہتی اور ججوں کی عزت بحال کرانے کے حوالے سے اپنی کاوشوں کے اعتراف میں کیا مسلم لیگ نواز اپنا ستمبر 1997ء کا تیار کردہ ججوں کا وہ ضابطہ اخلاق پڑھ کر سب کو سنا سکتی ہے تاکہ ان کی عدلیہ کی آزادی کی محبت سب پر واضح ہو جائے۔
ان کا عدلیہ کے بارے ما ضی اس قدر روشن ہے کہ ہر طرف 'بہتری‘ کیلئے انجام دیے گئے کارناموں کی چکا چو ند ہے۔ 28 نومبر 1997ء کا سیاہ دن نہ صرف سیاسی بلکہ عدالتی اور ملکی تاریخ کا بھی سیاہ ترین دن تھا جب پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فل بینچ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔ سماعت اختتامی مرحلے میں تھی اور اس دن وہ فیصلہ سنایا جانا تھا جوجسٹس سجاد لکھ کر اپنے ساتھ لائے تھے مگر اس روز وہ ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کچھ 'نامعلوم لوگ‘ جنہیں ایک رات پہلے پنجاب ہائوس میں ٹھہرایا گیا تھا، عدالت کی عمارت کے اندر نعرے بازی کرتے داخل ہوئے اور کورٹ روم نمبر ایک‘ جہاں چیف جسٹس بیٹھے تھے‘ پر دھاوا بول دیا۔ باقی کی کہانی تاریخ کے باب اور پوری قوم کے حافظوں میں محفوظ ہے۔
اگر کسی کی یاد داشت کمزور نہیں تو اسے فیصل آباد میں ترقیاتی ادارے کے افسران کو وزیراعظم کی کھلی کچہری میں ہتھکڑیاں لگانا والا واقعہ بھی یاد ہو گا کہ عدالتِ عظمیٰ نے کھلی کچہری میں افسران کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تو اس وقت بطور وزیراعظم میاں صاحب نے فیصلہ کیا کہ ملک میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی اور جب وکلا اور سابق ججوں کی طرف سے اس پر احتجاج کیا گیا تو ما ڈل ٹائون کی کھلی کچہری میں 15 ستمبر 1997ء کو یہ انتہائی خیال افروز اعلان کیا گیا ''خصوصی عدالتیں ملک میں انسانی حقوق بحال کر دیں گی‘‘۔ آج جب ان سمیت ان کی پارٹی عدلیہ کی آزادی کیلئے بیانات کی دھنیں بجاتی ہے تو کیا ہی بہتر ہوتا کہ جس ہال میں عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے منعقدہ کنونشن سے لیگی قیادت خطاب کر رہی تھی‘ وہاں بینرز پر یہ نعرہ بھی لکھ کر لگا دیا جاتا کہ ''خصوصی عدالتیں انسانی حقوق بحال کرتی ہیں‘‘۔