"MABC" (space) message & send to 7575

پہلا پتھر

بڑھتا ہوا تشدد اور جنون ملک و قوم کی خوش حالی اور ترقی کی راہ میں حائل آتش فشاں کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دردمند اہلِ وطن کے لیے یہ جنون اور ایک دوسرے کو کچلنے کا رجحان فکر و تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا‘ وہ ہم سب کیلئے باعث شرم بن چکا ہے لیکن اس سانحے پر سیاست کے رجحان نے عوام نے دلوں کو مزید دکھی کر دیا ہے۔ چند سیاسی رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سانحہ سیالکوٹ کا سارا کیچڑ موجودہ حکومت کی نااہلی پر گرانے کی کوشش کر کے اپنی سطحی سوچ کا ثبوت دیا ہے۔ کیا ہم ایسے معاملات پر اظہارِ یگانگت اور اتحاد کا مظاہرہ نہیں کر سکتے؟ ہمارے لیے ہر معاملے میں سیاست کرنا ضروری کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ کسی ایک دورِ حکومت کا قصہ نہیں‘ سانحہ نشتر پارک، سانحہ گوجرہ اور سانحہ بادامی باغ سمیت نجانے کتنے ہی واقعات ہیں جو گزشتہ ادوارِ حکومت میں پیش آئے۔ کیا یہ نام نہاد رہنما سمجھتے ہیں کہ عوام وہ سب کچھ فراموش کر چکے ہیں؟ کیا عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے؟ کئی رہنمائوں نے سانحہ سیالکوٹ پر اپنی سیاست چمکاتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے کی افسوسناک حرکت کی۔ ان کی شعلہ بیانی سے لگتا ہے کہ اب تعصب ہی سیاست کا مشن بن چکا ہے اور وہ حکومت سے مخاصمت میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بعض شکست خوردہ رہنما اپنے تمام تر غصے کے اظہار کے لیے اس سانحے کی آڑلے رہے ہیں‘ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ فتح اور شکست ہوتی رہتی ہے۔ وہ خود بھی اب تک نہ جانے کتنے ہی مقابل امیدواروں، سرداروں اور وڈیروں کو انتخابات میں شکست دے چکے ہوں گے۔ اپنی وقتی شکست پر انہیں ریا ست کی بنیادیں کھوکھلی کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
بعض رہنمائوں نے سیالکوٹ سانحے پر کی گئی پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا وہ سر آنکھوں پر‘ لیکن منافرت اور تشدد کے جذبات ابھارنے میں سیاسی رہنمائوں کا جو کردار رہا‘ وہ کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ چودہ فروری 2006ء کو لاہور میں ہونے والے احتجاج کو کون فراموش کر سکتا ہے جب مال روڈ‘ ایجرٹن روڈ اور ڈیوس روڈ سمیت شہر کے کئی علاقوں میں آگ اور خون کی ایسی خوفناک بارش برسائی گئی کہ آدھا شہر جلا دیا گیا۔ لاہور کے ریگل چوک پر غیر ملکی فاسٹ فوڈز ریسٹورنٹس سمیت ایجرٹن روڈ پر کھڑی دو سو سے زائد موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو جلا کر راکھ بنا دیا گیا۔ ایک اہم رہنما کی قیادت میں نہ صرف پنجاب اسمبلی کی عمارت پر حملہ کیا گیا بلکہ قائداعظم کی تصویر تک کو بھی نہ بخشا گیا۔ پنجاب پولیس کے ایک سو پچاس سے زائد افسران اور جوان زخمی کر دیے گئے۔
اﷲ وحدہٗ لاشریک کی آخری کتاب قرآن پاک نے صاف اور کھلے الفاظ میں وارننگ دیتے ہوئے کہا ''فرقوں میں نہ بٹ جانا‘‘۔ (آل عمران: 103) اگر قرآن مجید‘ فرقانِ حمید کو خوب سمجھ کر پڑھیں تو یہی آیت نہیں بلکہ ہر دوسری آیت میں انسانیت سے بھلائی کا حکم ملے گا۔ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حجرات سمیت متعدد سورتوں میں معاشرتی احکام نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ہو یہ رہا ہے کہ جس پر چاہا الزام لگا دیا، جسے چاہا زندہ جلا دیا۔ قرآنِ مجید نے فرقہ بندی سے سختی سے منع کیا ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہم ترس رہے ہیں کہ کوئی اٹھے اور کہے کہ پوری امت رسولﷺ ایک ہی فرقہ‘ ایک ہی قوم ہے‘ اسلام میں فرقوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ حدیث شریف میں ہمسایوں سے حسن سلوک کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ فرمایا: جب جبرائیل ہمسایوں سے حسن سلوک سے متعلق خدا تعالیٰ کے احکام بیان کر رہے تھے تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہیں وراثت میں بھی حصہ دار قرار دے دیا جائے گا۔ آج آپ اپنے چہار جانب نظریں گھما کر دیکھیں‘ اپنے ہمسایوں سے سلوک کا مشاہدہ کریں‘ مجھے کہنے دیجیے کہ معاشرت کے معاملے میں شاید ہم وہ قوم بنتے جا رہے ہیں جسے 'قوم مجرمین‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔
دین ملا سے متعلق جو کچھ اقبالؔ نے کہا وہ کوئی شاعرانہ مغالطہ نہیں بلکہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ تھیوکریسی کے نام پر فساد لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔ ذرا سا کوئی واقعہ ہو جائے تو فوراً لائوڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو آگ لگانے اور گھروں سے نکل کر حملے کرنے کی ترغیب کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ اصل واقعہ کیا ہے‘ اس کے محرکات کیا ہیں‘ واقعہ ہوا بھی ہے یا محض الزام تراشی ہے‘ ہر کوئی آگ کا گولہ بن کر چڑھ دوڑتا ہے۔ جن مقدس اوراق کی بے حرمتی کی تہمت لگا کر تم نے بچوں کا باپ‘ ماں باپ کی آنکھوں کا نور اور ایک سہاگ اجاڑ کر پورے گھرانے کا مستقبل تاریک کیا ہے‘ انہوں نے تمہیں یہ سبق تو دیا ہی نہیں کہ بغیر کسی تحقیق کے ملزم کی گردن اڑا دو؟ قرآنِ مجید تو واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ ''مومنو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو، پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے‘‘۔ (سورۃ الحجرات: 6) دینِ ا سلام نے تو کہیں بھی ہمیں یہ سبق نہیں دیا کہ جھوٹ بول کر لوگوں کو مشتعل کرو اور لوگوں کی جان و مال اور ان کی املاک کو تہِ تیغ کر دو۔
اگر سچ سننا چاہتے ہیں تو بے حرمتی کے اصل مجرم وہ ہیں جو جھوٹی تہمتیں لگاتے ہیں‘ جو سڑکوں‘ چوکوں اور چوراہوں سمیت سوشل میڈیا پر نفرت کا پرچار کرتے ہیں‘ جو خود ہی کوتوالی‘ خود ہی قاضی اور خود ہی جلاد بن کر بچوں کو یتیم اور سہاگنوں کو بیوہ کرتے ہیں۔ ہماری سیاست‘ ہمارے معاشرت اور ہمارے سماج سمیت اختیار کردہ نظام میں ہر جگہ دینی تعلیمات کو پس پشت ڈالا جا رہا اور ان کی نفی کی جا رہی ہے۔ کیا ہمارے بازاروں میں توہین نہیں ہو رہی جہاں جھوٹ، ریا کاری، غلط بیانی، فریب کاری اور قول و فعل کا تضاد کاروباری پیمانہ بن چکے ہیں۔ کیا ہماری سیاست مذکورہ ''اوصاف‘‘ سے متصف نہیں؟ کیا ہمارے دفاتر اور عوام سے متعلق کسی بھی محکمے میں رشوت، سفارش، اقربا پروری اور مستحقین کا حق نہیں کھایا جا رہا؟ کیا رشوت کی تیز دھار تلواریں اپنے ہی ہم وطنوں کا گلا نہیں کاٹ رہیں؟ ہماری محفلوں میں چغلی و غیبت کا چلن عام نہیں ہے؟ قرآنِ مجید کے الفاظ میں بات کریں تو یہی کہا جائے گا کہ ہم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں۔ اپنے اردگرد کی معاشرت پر نگاہ ڈالیں؛ یہ چوریاں‘ ڈاکے‘ رہزنی کے واقعات‘ ہر چھوٹے بڑے کی لوٹ کھسوٹ‘ اناج اور کھاد سمیت ادویات کی کمیابی اور ذخیرہ اندوزی‘ کیا آج ہمارے معاشرے میں یہی کچھ نہیں رہ گیا؟ کیا کھاد سمیت دودھ اور اشیائے خوردنی میں مضرِ صحت ملاوٹ نہیں کی جا رہی؟ کیا یہ سب کرنے والے دینی احکامات کی توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ کیا ناپ تول میں کمی کے باعث اگلی قوموں پر خدا کا غضب اور عذاب نازل نہیں ہوا تھا؟ جان بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ ہے جو جیتے جاگتے لوگوں کو قبروں میں اتار رہی ہیں‘ کیا یہ گناہ قتل جیسا گناہِ کبیرہ نہیں؟ کیا قرآنِ مجید نے ان حرکات سے سختی سے منع نہیں کیا؟ ان احکامات کو نہ ماننا کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟
آج پورا معاشرہ جنسیت زدہ ہو چکا ہے‘ معصوم بچے، بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا معمول بن چکا ہے۔ آئے دن لڑکیوں کے اغوا اور اجتماعی زیادتی کے واقعات پیش آ رہے ہیں‘ کیا ان جرائم سے ہم سب کو سختی سے منع نہیں کیا گیا؟ ایسے افعال پر دردناک عذاب کی بشارت نہیں دی گئی؟ کسی قصور وار پر پہلا پتھر اسے ہی مارنا چاہیے جس نے خود اپنے عمل سے کبھی بھی کسی دینی حکم کی بے حرمتی نہ کی ہو‘ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہو‘ کبھی بے ایمانی نہیں کی ہو‘ جو جعل سازی‘ رشوت‘ دھوکے اور فراڈ کا مرتکب نہ ہوا ہو‘ جس نے کبھی کسی چیز میں ملاوٹ نہ کی ہو‘ جو لوٹ مار نہیں کرتا‘ جس نے کبھی کم نہیں تولا‘ جو گھٹیا مال کو اول درجے کا کہہ کر نہیں بیچتا‘ جس نے کسی بیوہ اور یتیم کا حق غصب نہیں کیا، جو اہل و عیال، عزیز و اقارب اور ہمسایوں کے حقوق کے معاملے میں غفلت کا مرتکب نہیں ہوتا‘ جس کا دامن معاشرتی علتوں سے پاک ہے اور جو سماجی برائیوں سے کنارہ کش ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ اپنی آنکھوں کا شہتیر کوئی دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور نکل پڑتے ہیں دوسروں کی آنکھوں میں تنکا ڈھونڈنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں