''اگر آپ ٹیکس ادا نہیں کر رہے تو آپ کو کسی بھی صورت میں بلٹ ٹرین یا میٹرو بس میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ عوامی جمہوریہ چین میں قانون میں نرمی کی گنجائش ہی نہیں۔ وہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی، ججز ایسے سخت گیر ہوتے ہیں کہ کسی کی شکل‘ سیاسی اثر و رسوخ اور دولت دیکھ کر اس سے اتنی ہی زیادہ سختی سے پیش آتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر کسی کو یہ پوچھنا کہ تم نے یہ کرتا کہاں سے لیا؟ یہ گھر کیسے خریدا؟ تمہارے پاس فارم ہائوس کہاں سے آ یا؟ تم اور تمہارا خاندان دنیا بھر کے ملکوں میں آئے دن سفر کس طرح کرتے ہو؟ تمہاری فیملی نے ٹیکس کی ادائیگی کیوں نہیں کی؟ تمہارے بیٹوں کے پاس‘ جو تمہاری کفالت میں ہوں یا تم سے علیحدہ رہ رہے ہوں‘ زر و جواہرات اور دولت کے بے تحاشا انبار کہاں سے آئے؟ جوئے شیر لانے کے مترادف بلکہ ایک ناممکن کام ہے مگر چین کی سپریم کورٹ‘ سپریم پیپلز کورٹ کے اس سپریم فیصلے نے ایسے تمام لوگوں کا معاشرے میں ناطقہ بند کر کے رکھ دیا جو ٹیکسز گول کر جاتے تھے۔ چین کی سپریم عدلیہ کے اس حکم کے ذریعے 70 لاکھ چینی‘ جو مختلف مدات میں نادہندہ ڈیکلیئر کیے گئے تھے‘ جنہوں نے اپنے ملک کے مختلف بینکوں سے قرض لے رکھا تھا‘ انکم ٹیکس کی ادائیگیوں کو پس پشت ڈال رکھا تھا یا اپنی آمدنیوں کو عرصے سے چھپا رکھا تھا‘ ان سب کو لگ بھگ بارہ برس قبل چینی سپریم کورٹ نے اپنے مذکورہ فیصلے کی رو سے کسی بھی جہاز پر سفر کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا۔ ان 70 لاکھ افراد کی شہریت کو معطل کرتے ہوئے کسی بھی ہوٹل میں ان کو ٹھہرنے اور چیک آئوٹ کی سہولتوں سے بھی محروم کر دیا گیا۔ان میں 42 لاکھ سے زائد چینی شہری‘ 19 لاکھ سے زائد مختلف کمپنیاں و ادارے اور دیگران شامل تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا: مختلف حیلے بہانوں سے انہوں نے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا تھا‘ یہ فیصلہ ان کے گرد گھیرا تنگ کرے گا تاکہ یہ رضاکارانہ طور پر اپنے ٹیکسز اور دیگر ادائیگیاں کریں۔
ایک ایک دروازے سے مانگ تانگ کر اپنا گھر چلانے والے اپنے ملک کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ہر طاقتور اور اس کے خاندان کے علا وہ ان کے حواریوں کی جانب سے مختلف ادوار میں ملکی بینکوں سے لگ بھگ 100 کھرب روپے سے زائد‘ لیے گئے قرضے نجانے کب کے ہضم ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت میں ایک نئی طویل فہرست پھر سے تیار ہو چکی ہو جس میں ان کے دوسرے ساتھیوں اور ہمدردوں کے ذمہ واجب الادا قرضوں کو معاف کرنے کاسوچا جا رہا ہو۔
پیلی ٹیکسی سکیم کے تحت قائدِ محترم نے اس ملک کے چھ سے زائد بینکوں کی جو حالت کی‘ وہ ملک کے میڈیا ہائوسز سمیت سرکاری دفاتر کے ریکارڈ ر وم میں آج بھی محفوظ ہے کہ کس بیدردی سے ان کے وسائل کوہڑپ کیا گیا‘ کس طرح عوام کے جمع کرائے گئے ٹیکسوں کو اپنی تشہیر پر غرق کر دیا گیا۔ ہمارے بینکوں کو‘ ہماری معیشت کو‘ ہمارے وسائل کو کسی غریب نے‘ کسی غیر نفع بخش عہدے سے محروم سرکاری ملازمین نے نہیں کھایا‘ وہ تو نجانے اپنی زندگی کے دن کس طرح گزارتے ہیں، ہمارا گھر‘ ہمارے وسائل‘ ہمارے آنگن کو انہوں نے اجاڑا جو قانون سازی کے ایوانوں میں کسی نہ کسی بھیس میں گھسے رہے اور کسی بھی موقع پراپنے پیٹ بھرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ ان کو بھی جی بھر کر اس کام میں حصہ دار بنانے سے نہیں چوکتے جو ان لوگوں کو اقتدار کی مسند تک پہنچاتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو ان کو سیڑھیاں فراہم کرنے والوں میں شامل رہے۔ اگر نظر دوڑا کر دیکھا جائے تواپنے سمیت مجھے کوئی ایسا نظر نہیں آتا جس نے پاکستان کی معیشت‘ سالمیت اور عوام کی بہتری کیلئے جمع کیے گئے وسائل میں نقب نہیں لگائی۔ محکمہ انہار کے ایک معمولی بیلدار سے لے کر محکمۂ جنگلات کے گارڈ تک‘ ریلوے کے کانٹا بدلنے والے سے سٹیشن ماسٹر تک‘ محکموں کے سیکرٹریوںسے وزیروں تک‘ اوپر نیچے کے تمام افسران سے اہلکاروں تک‘ الا ماشاء اللہ‘ ہر کوئی اس وطن کو اپنی ہمت‘ استطاعت اور رسائی کے حساب سے نوچ نوچ کر کھانے میں لگا ہواہے اور78 برس گزرنے پر بھی ان کی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
عوامی جمہوریہ چین کی سپریم کورٹ کے سنائے گئے اس فیصلے کو گو ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے لیکن جس طرح چین کی عدلیہ نے ملک کی معیشت اور دنیا بھر کی کھا جانے والی نظروں سے اپنے وطن اور اس کے شہریوں کو بچانے کا فارمولہ دیا ہے‘ وہ تاریخ اور قانون کی کتابوں میں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ گھر اور بستیاں بسانے سے بستی ہیں نہ کہ ان کی ایک ایک اینٹ اکھاڑنے سے۔ اپنا گھر اوراپنی بستی بسانے کیلئے چین کی سپریم کورٹ نے وہی کام کیا تھا جو اس کی پیپلز لبریشن آرمی کے جانباز اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت اور اسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کیلئے کر رہے ہیں۔ قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔ اگر تعلقات ملکی و قومی مفاد پر حاوی ہو جائیں، ذاتی پسند اورنا پسند کو میرٹ پر ترجیح دی جانے لگے تو وہی کچھ ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ پھر غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر اپنی خودی کا سودا کیا جائے گا۔ جس طرح چین کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے ملک کے ایسے امرا‘ جنہوں نے ملکی بینکوں سے کروڑوں‘ اربوں کے قرضے حاصل کر کے انہیں دبا رکھا تھا‘ جو ٹیکس ادا کرنے میں تساہل سے کام لے رہے تھے‘ کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا کہ نہ تو ایسے کسی فرد کو کسی سٹور سے کچھ خریدنے کی اجا زت ہو اور نہ ہی وہ کسی جگہ ملازمت یا کاروبار کرنے کا مجاز ہو، نہ تو کسی دوسرے ادارے کو اس سے تجارت اور لین دین کی اجا زت ہو گی اور نہ ہی وہ کوئی سفر کر سکے، گویا پنجابی کے محاورے کے مطا بق ایسے تمام افراد کا حقہ پانی بند کر دیا گیا ہے۔ ایک جانب امریکہ اور اس کے درجنوں باجگزار اور حواری چین پر پابندیوں کو سخت سے سخت تر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب چین اور اس کے ادارے ملکی معیشت و سالمیت کی دیواروں کو تاریخی دیوارِ چین کی طرح وسیع اور مضبوط کرنے میں اپنے حکمرانوں کا ہاتھ بٹانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
چین کی سپریم کورٹ نے کوئی خلافِ ضابطہ یا آئین کے منا فی حکم نہیںدیا‘ نہ ہی اس نے کسی کا حق غصب کرنے کی جانب قدم بڑھایا ہے بلکہ اس نے اپنی قوم کو احساس دلایا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ ایک طرف تمہاری اور ہم سب کی سالمیت اور عزت کی جانب سپر پاور اور اس کے اتحادی ہاتھ بڑھا رہے ہیں‘ ہم سب کو محتاج بنانے کیلئے خوراک سے انر جی تک‘ دفاع سے تجارت تک ہمارے تمام راستوں کے آگے بندباندھے جا رہے ہیں‘ ہماری جانب خلوص اوردوستی کی نیت سے بڑھنے والے قدموں کو راستے ہی میں روکا اور کاٹا جا رہا ہے‘ ایسے میں اگر ہم بھی اپنے گھر کو نقب لگانا شروع کر دیں‘ اپنے گھر کی دیواروں کو کمزور کرنے لگیں‘ اپنی دولت کو خفیہ رکھ کر دنیا کو اس سے مستفید کرنا شروع کر دیں تو نہ یہ دیوار رہے گی اور نہ ہی ہمارا وجود رہے گا، ہم ایک کمزور اور لڑکھڑاتے ہوئے ڈھانچے میں تبدیل ہو جائیں گے۔ پھر لپکتے ہوئے درندے بوٹی بوٹی نوچ کھائیں گے اور ان کے پیچھے آنے والے لگڑ بگڑبچا کھچا گوشت ا ور ہڈیاں چبانے کیلئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک میںقتل‘ چوری اور آبروریزی کے مجرموں کو معاشرے میں جس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ ان سے بھی سخت رویہ ملکی ٹیکس کی ادائیگی میں غفلت اور جان بوجھ کر انکم ٹیکس چوری کرنے والوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ ٹیکس چور کبھی اپنے ملک کی نمائندگی کا سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ ہمارے یہاں وہی سب سے بڑا لیڈر ہے‘ وہی رہنما ہے‘ وہی ہر دلعزیز ہے‘ وہی قائد محترم ہے جس پر سب سے زیا دہ ٹیکس چرانے کا الزام ہے۔ یہاں پر تو پہچان ہی یہ ہے کہ جو سب سے بڑا ٹیکس چور ہو گا‘ اتنا ہی بڑا لیڈر ہو گا۔ چین کی سپریم کورٹ نے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے اور اپنے پاس موجود وسائل اور دولت سے مملکت کا حصہ غبن کرنے والوں کو کونے کھدروں سے ڈھونڈ نکالنے کیلئے ایسا فیصلہ سنایا جس نے مملکت سے بے وفائی کرنے والوں کو اپنے ہی معاشرے میں اچھوت بنا کر رکھ دیا۔