''میرے ہم وطنو اور محب وطن پاکستانیو! ماہرین کے مطابق ملک میں بنائے جانے والے دوسرے تمام ڈیمز کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں بن سکتے۔ عوام‘ خاص طور پر ذرائع ابلاغ سے گزارش ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی خاطر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے آواز بلند کر کے وطن کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں‘ یہ صدقۂ جاریہ ہو گا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں بھرپور کردارادا کرنے والی حکومت کو سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا ان شاء اللہ‘‘۔ 22 جون 2019ء کو ایک موقر روزنامے کے صفحۂ اول پر‘ ایک آرتھو پیڈک سرجن کی جانب سے شائع ہونے والا یہ اشتہار ہر اُس پاکستانی کے دل کی آواز ہے جو وطن عزیز کے مختلف حصوں میں آباد افراد کی خوشحالی و ترقی کے لیے بے تاب ہے اور عوام کو درپیش تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت ہمارا دشمن ہم سے زیادہ جانتا ہے اور اس کے لیے وہ پیسہ پانی کی طرح بہاتا آیا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے آمر حکمران‘ جو دل و جان سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خواہاں تھے‘ وہ بھی دشمن کی چال اور سرمایے کے سامنے مار کھا گئے۔ نام نہاد قوموں پرستوں‘ سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی میں ولی خان فیملی کی مخالفت کی وجہ سے کوئی بھی حکومت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی جانب نہیں بڑھ سکی اور ڈیم کے افتتاح کی تیار شدہ تختیاں ڈبوں میں بند پڑی رہ گئیں۔
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کہاں بنے گا؟ یہ ڈیم کالاباغ سے تقریباً 22 کلومیٹر اوپر کی جانب دریائے سندھ پر بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے یہ نہ مٹنے والا اصول طے کرنا ہو گا کہ کالا باغ جھیل میں جمع شدہ پانی کس صوبے کو کس مقدار میں فراہم کیا جائے گا۔ اس کے لیے منگلا و تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مثالیں سامنے رکھنا ہوں گی تاکہ ہر صوبے کو یقین ہو جائے کہ اس کا حق نہیں چھینا جا رہا۔ اس منصوبے کے حوالے سے اگر عدلیہ سے بھی رجوع کر لیا جائے تو یہ سب کے لیے قابلِ قبول ہو جائے گا۔ پرویز مشرف حکومت کے ابتدائی دنوں کے بعد‘ آج چودھری ظہور الٰہی‘ جنہیں پنجاب کی پگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ کے نواسے اور وفاقی وزیر برائے آبپاشی چودھری مونس الٰہی نے نعرۂ حق بلند کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو پاکستان کے مستقبل سے وابستہ قرار دے کر چمن سے خیبر اور تھرپارکر سے راجن پور تک ہر پاکستانی کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اے اہلِ پاکستان! اگر مہنگائی میں کمی چاہتے ہو‘ اگر بیروزگاری میں کمی کی خواہش رکھتے ہو‘ اگر پھلوں‘ سبزیوں اور اناج کی فراوانی اور ان کی قیمتیں کم دیکھنا چاہتے ہو تو آئو سب مل کر‘ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرتے ہیں اور پچاس سال سے اپنے کانوں میں دشمن کے سیسے کی طرح پگھلا کر انڈیلے گئے پروپیگنڈے کو نکال باہر کریں۔
بھلا کسے یاد نہیں کہ مشرف دور کے ابتدائی دنوں میں‘ کالا باغ ڈیم کی لفظ سنتے ہی ایک رات نوشہرہ کے گلی کوچوں میں سرخ دائروں جیسے نشانات لگا کر یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو یہ تمام گھر اور دکانیں پانی میں بہہ جائیں گے۔ مقامی عوام سے یہ تک جھوٹ بولے گئے کہ اس ڈیم سے دریائے کابل میں آنے والی طغیانی سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ نہ تو ماہرین نے اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی عوام نے کچھ غور وخوض کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی سیلاب آتا ہے‘ تو یہ زلزلے کی طرح‘ پانچ یا دس سیکنڈ میں نہیں آتا۔ سیلاب سے پہلے ہمیشہ تیز اور لگاتار طوفانی بارشیں ہوتی ہیں۔ پھر ان بارشوں کا پانی ندی نالوں سے بہتا ہوا دریائوں تک پہنچتا ہے جس کے بعد دریا میں پانی خطرے کا نشان کراس کر جاتا ہے اور سیلاب آ جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کا کم از کم اڑتالیس گھنٹے پہلے نوٹس ہو جاتا ہے۔ جب یہ پانی کالا باغ ڈیم کی جھیل تک پہنچے گا‘ فرض کیجئے کہ اس وقت کالا باغ ڈیم کی جھیل بھری ہوتی ہے‘ لہٰذا نئے پانی کے تخمینے کے حساب سے سیلاب آنے سے پہلے ہی بیراجوں اور ڈیم سے پانی خارج کر دیا جائے گا تاکہ جب یہ سیلابی پانی ڈیم میں آئے تو جھیل دوبارہ اسی طرح بھر جائے۔ اس طرح دریائے کابل کی وادی کے زیر آب آنے کا اندیشہ ایک فیصد بھی نہیں۔
سندھ اور خیبر پختونخوا کی ایسی تمام طاقتیں اور وہ تمام گروہ‘ جن کا دانا پانی ریاست مخالفت سے منسلک ہے‘ نفرت کا زہر پھیلاتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی راہ روکنے کی بھرپور کوششیں کریں گے۔ سندھ کے سادہ لوح عوام کو یہ کہہ کر دھوکا دیا جاتا ہے کہ مون سون میں جب سیلاب آتا ہے تو سیلاب اترنے کے بعد نم رہ جانے والی زمینیں‘ جنہیں کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے‘ ختم ہو جائیں گی اور یوں زمین کی زرخیزی اور استعداد بھی متاثر ہو گی جس کا نتیجہ پیداوار میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔ کالا باغ ڈیم بننے سے سندھ سیلابی پانی سے محروم ہو جائے گا۔ مقامی وڈیرے اور طاقتور افراد جانتے ہیں کہ کچے کی زمین پر جو بھی بویا جائے‘ وہ بغیر کسی کھاد کے بہترین فصل کی صورت میں انہیں مالا مال کر دیتا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی سونا اگلنے والی زمینوں کی خاطر سیلاب کے خواہشمند رہتے ہیں‘ بھلے علاقے کے غریب افراد کی تمام جمع پونجی اس میں بہہ جائے۔ مقامی عوام کو یہ جھوٹ سنا کر بھی اشتعال دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مون سون میں بحیرہ عرب میں جو تیز ہوائیں چلتی ہیں‘ ان کی وجہ سے اکثر سمندر کا پانی دریائے سندھ میں داخل ہو جاتا ہے۔ جب دریائے سندھ میں پانی کا بہائو تیز ہوتا ہے تو وہ سمندر کے پانی کو واپس دھکیل دیتا ہے لیکن اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو پانی کے بہائو کی کمی کی وجہ سے برسات کے موسم میں سمندر کا نمکین پانی اوپر آ کر دریا کے میٹھے پانی کو کھارا کر دے گا جس سے فصلیں تباہ ہو جائیں گی جبکہ زمینی کٹائو کا سلسلہ بھی تیز ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ تیسرا تیر یہ داغا جاتا ہے کہ جب سیلاب نہ آنے سے سمندر کا پانی دریائوں اور جھیلوں میں شامل ہو گا تو کھارے پانی کی وجہ سے سندھ کی بڑی معیشت‘ یعنی ماہی گیری ختم ہو کر رہ جائے گی اور ساتھ ہی سندھ کے میٹھے پانی کے ذخیرے بھی ختم ہو جائیں گے۔ آبی ماہرین کے نزدیک یہ تمام جھوٹ اور سفید جھوٹ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق کے پی اور سندھ میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے 90 فیصد سے زائد لوگوں کو کالا باغ ڈیم کی اونچائی‘ لمبائی‘ گہرائی اور محل وقوع کے بارے میں ہی کچھ علم نہیں ہے۔ انہیں بس یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ڈیم ''پنجاب‘‘ میں بنے گا۔ دریائوں پر بنایا جانے والا ڈیم انسان کی جہد مسلسل کا شاہکار ہوتا ہے۔ وہ فطرت کے نایاب تحفے کو اپنے اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کے فوائد کیلئے روک کر ضرورت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ ڈیم ایک ایسی دیوار کی مانند ہوتا ہے جو دریا کے راستوں میں بنائی جاتی ہے۔ اس دیوار سے روکے گئے پانی کو بنی نوع انسان کی بھلائی اور ریا ست کی ترقی اور خوشحالی کے کام لایا جاتا ہے۔ اس سے اندھیرے روشنیوں سے جگمگانے لگتے ہیں‘ نت نئے کارخانوں اور شاپنگ و رہائشی پلازوں کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے۔ ڈیم بنتا ہی اس جگہ ہے جہاں پیچھے اونچی اونچی قدرتی دیواریں موجود ہوں‘ جن کے درمیان پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔
میری نظر میں کالا باغ ڈیم پر قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے اگر یہ رہنما اصول طے کر لیا جائے کہ ڈیم میں جو پانی جمع ہو گا‘ اسے کس صوبے کو کس حساب سے اور کس طرح فراہم کیا جائے گا تو اس کی مخالفت کا سلسلہ ختم ہو سکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بننے سے سندھ کو سردیوں میں جس مقدار میں پانی ملنے لگے گا‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک بار ڈیم کو بھرنے کے لیے پانی درکار ہوتا ہے‘ اس کے بعد جتنا پانی ڈیم میں داخل ہوتا ہے‘ اتنا ہی خارج بھی ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ کہنا کہ دریا خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے‘ کچے کے علاقے خشک اور بنجر ہو جائیں گے‘ محض لاعلمی ہے‘ بلکہ میٹھے پانی کی فراوانی سے مچھلیوں کی پیداوار پہلے سے کئی گنا زیادہ ہونے لگے گی۔ یاد رہے کہ کوئی بھی ڈیم بجائے خود اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کو کس طریقے سے اور کس اصول کے تحت استعمال کیا جائے تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو اور بنی نوع انسان کو بغیر کسی تعصب کے فائدہ پہنچے۔