"MABC" (space) message & send to 7575

راستہ تلاش کریں

'راستہ تلاش کریں‘ اور 'بھول بھلیّاں‘ جیسے کھیل بچوں کے رسالوں اور اخبارات میں ان کیلئے مخصوص صفحات میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک خاصا الجھا ہوا نقشہ بنا کر کہا جاتا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کریں۔ کل تک یہ کھیل بچوں تک محدود تھا مگر آج پی ڈی ایم سرکار نے ایسا ہی نقشہ بنا کر نیب کے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں۔ پی ڈی ایم کے مسندِ حکومت پر بیٹھنے سے قبل ہی یہ بات عام ہو چکی تھی کہ یہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے کیسز کا بندوبست کرنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتی ہے اور ایسی انتخابی ترامیم کرنا چاہتی ہے کہ جس کا تمام تر فائدہ صرف اسے ہی ہو اور اب تک کی حکومتی کارکردگی نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ایسے افراد‘ جو سر عام اگلا الیکشن برسر اقتدار پارٹیوں کے ٹکٹ پر لڑنے کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں‘ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر بنا کر وکٹ کے دونوں جانب کھیلا جا رہا ہے اور ایسے ایسے بل منظور کیے جا رہے ہیں جن کا عوام سے دور دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ اب نیب قوانین میں پے درپے اتنی ترامیم کر دی گئی ہیں کہ اگر کسی کی سالانہ آمدنی پانچ‘ چھ لاکھ روپے ہے اور اس کے پاس دس ارب روپے کی جائیدار اور سرمایے کی موجودگی کا پتا چلتا ہے تو اس پیسے کا جائز ہونا ثابت کرنا اب اس کا کام نہیں کہ یہ اس کے پاس کیسے اور کہاں سے آیا یا کس نے دیا؟ بلکہ اب یہ نیب پتا چلائے گا۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل پر اعتراض کرتے ہوئے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا حوالہ دیا ہے اور پی ڈی ایم حکومت سے سوال کیا ہے کہ جب عام آدمی نے خلیفہ وقت سے پوچھا تھا کہ یہ کرتا کہاں سے آیا‘ تو ثبوت کا بار سوال کرنے والے پر نہیں بلکہ خلیفۂ وقت پر تھا کہ وہ وضاحت کریں کہ انہوں نے اپنے لمبے کرتے کا کپڑا کہاں سے لیا؟ لہٰذا یہ بل مقصدِ احتساب اور دنیا بھر میں رائج انسدادِ بلیک منی قوانین کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ Swiss foreign Illicit Assets Act 2010 اور برطانیہ کے ''اَن ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر 2018ء‘‘ میں بھی یہی اصول بنیاد بنایا گیا تھا لیکن نجانے کیوں موجودہ حکومت احتساب قوانین کا مقصد اور حلیہ بگاڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر احتسابی ادارے ہر کسی کے بے نامی اکائونٹس اور پراپرٹیز کو ڈھونڈنا شروع کریں تو اس میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جبکہ دوسری طرف نیب قوانین میں ترامیم کر کے اس ادارے کو پندرہ دنوں کا پابند کر کے ملزم کے سامنے اس کے ہاتھ پائوں باندھ دیے گئے ہیں۔
اکثر لوٹ مار اور گھپلے اس قسم کے ہوتے ہیں جنہیں عام فہم زبان میں ''وائٹ کالر کرائم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان میں ثبوت کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے آپ نے بھول بھلیوں میں سے راستہ ڈھونڈنا ہو یا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنی ہو۔ لوٹ مار اور وائٹ کالر کرائم کیسے کیے جاتے ہیں‘ اور ان کو تلاش کرنے میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے‘ اس حوالے سے ایک مثال ہی کافی ہو گی، مگر اس سے پہلے یہ جان لیجیے کہ حالیہ ترامیم میں نیب کے قوانین پر کلہاڑا چلاتے ہوئے ملزم کے ریمانڈ کا دورانیہ 90 دن سے کم کر کے 15 دن کر دیا گیا ہے۔ نیب حراست میں تھرڈ ڈگری کا جسمانی تشدد تو ہوتا نہیں‘ ملزم کو حراست میں رکھ کر سوالات کے ذریعے ہی اگلوایا جاتا ہے یا تفتیشی ٹیمیں کئی کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعد مطلوبہ مواد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں مگر اب اس ادارے کو ایک عام سا‘ ایسا کمپلینٹ سیل بنا کر رکھ دیا ہے کہ اگر اس کے سامنے کرپشن اور لوٹ مار کے سب ثبوت آ جائیں‘ تب بھی وہ خاصے بے اثر رہیں گے۔
2014ء میں لیہ میں 100 میگاواٹ کا سولر پروجیکٹ لگانے کیلئے اس وقت کی پنجاب حکومت نے ایک چینی کمپنی کو ذمہ داری سونپتے ہوئے اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ فزیبلٹی سٹڈی کے بعد اس کمپنی نے جنریشن لائسنس کیلئے اپلائی کر دیا (لائسنس کی یہ درخواست انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے) اس پاور پروجیکٹ کی تکمیل کا تخمینہ 150 ملین ڈالر لگایا گیا تھا اور معاہدے کے تحت مذکورہ کمپنی کو یہ لاگت مع طے شدہ منا فع اگلے25 سال تک ٹیرف کی مد میں ادائیگی کر کے واپس کرنا تھی۔ چینی کمپنی نے اس سلسلے میں درکار ہر قسم کی مشینری بشمول سولر پینل اور اِنورٹر چین سے منگوانے تھے۔ ابتدائی کام شروع ہو گیا تو 2017ء میں کمپنی نے بجلی کا ٹیرف طے کرنے کیلئے نیپرا کو درخواست دی، لیکن چونکہ 'دوسرے‘ معاملات طے نہ ہو سکے تھے‘ اسی وجہ سے کبھی ہندسوں کا ہیر پھیر ہو جاتا تو کبھی طے شدہ ہندسہ مٹا دیا جاتا، کبھی اوپر کے احکامات اور مرضی آڑے آ جاتی اور کبھی کچھ اور ہو جاتا۔ اسی دوران سیاسی عہدوں پر فائز شخصیت کی تبدیلی بھی عمل میں آئی۔ اب یہ تبدیلی نچلی سطح پر بھی معاملات کے طے ہونے میں بھی نظر آنے لگی۔
مبینہ طور پر کئی دوسرے ہاتھ بھی شریکِ کار بن گئے اور ہر کوئی زیادہ سے زیادہ حصے کے چکر میں رہا۔ وقت گزرتا رہا اور پھر تحریک انصاف کی حکومت آ گئی۔ ہوتے ہوتے یہ فائل عمران خان کے پاس پہنچی تو پھر ہونی ہو کر رہی۔ انہوں نے نیپرا کے ریٹ دیکھنے کے بعد حکم دیا کہ اس پروجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ دوبارہ پیش کی جائے۔ چند ماہرین کو یہ رپورٹ دکھانے کے بعد جب ان سے رائے طلب کی گئی تو پتا چلا کہ یہ رپورٹ تو دوگنا لاگت بتاتے ہوئے تیار کی گئی ہے جس پر مذکورہ کمپنی سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے ہر بات کھول کر رکھ دی۔ معلوم ہوا کہ ''حصہ داروں‘‘ کی وجہ سے اس پاور پروجیکٹ کی رقم دو گنا سے بھی بڑھ چکی تھی۔ پھر حکومت نے اس معاہدے کو ریویو کیا اور پہلے سے طے شدہ لاگت یعنی 150 ملین ڈالر کو کم کرتے ہوئے‘ 67 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا‘ اس طرح اس منصوبے کی لاگت ''عمران سپیڈ‘‘ کے باعث آدھی سے بھی کم ہو گئی۔
اس لاگت پر جب بجلی کے ٹیرف کا حساب کیا گیا تو وہ 3.7 سینٹ یعنی 6 روپے سے بھی کم تھا یعنی یہ منصوبہ ملک کی سب سے سستی بجلی پیدا کر رہا تھا جبکہ اس سے کئی برس پہلے کا پنجاب قائداعظم سولر پروجیکٹ ہر کسی کے سامنے ہے جس کا ٹیرف 24 روپے مقرر کیا گیا تھا۔ اب یہ نیا پروجیکٹ پی ٹی آئی حکومت نے نہ صرف کم ترین ٹیرف طے کرنے کے بعد فوری شروع کرایا بلکہ حکومت پر شب خون مارنے سے چند دن پہلے‘ مارچ 2022ء میں اسے مکمل بھی کر لیا اور چوبارہ گرڈ سے منسلک کر دیا جہاں سے بجلی کی پیدوار اب شروع ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کی سرمایہ کار کمپنیاں حالات و واقعات کے تحت سرمایہ کاری کی وصولی کی قسطیں کرتی ہیں۔ کسی بھی ایسے معاشرے میں‘ جہاں معاملات ''انڈر دی ٹیبل‘‘ طے ہوتے ہوں‘ نہ صرف منصوبوں کی لاگت کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے بلکہ سارے کا سارا بوجھ عوام پر لاد دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد اور ایسی کمپنیاں جو اس استحصالی نظام میں اپنی بقا تلاش کرتے ہیں‘ ہر اس شخص کو اپنے راستے کا سب سے بڑا کانٹا تصور کرتی ہیں جس سے ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اب باقی ملک کی بات چھوڑیے‘ لیہ کے لوگ بھی جب ووٹ دینے لگیں گے یا سیاسی جلسوں میں جا کر 'زندہ باد‘ کے نعرے لگائیں گے تو کوئی بھی نہیں سوچے گا کہ وہ پروجیکٹ جو 150 ملین ڈالر کی لاگت میں مکمل ہونا تھا‘ اسے تحریک انصاف نے 67 ملین ڈالر میں کیسے مکمل کر دیا۔ یہ 83 ملین ڈالر کی تقسیم کا وہی جھگڑا تھا جو ٹیرف کی حتمی منظوری میں اس قدر وقت لے گیا کیونکہ حصے بخرے کرنے میں لڑائیاں تو ہوتی ہیں۔ بالفرض اب اس معاملے میں کرپشن کی تحقیقات کی جاتی ہیں تو اس کو ثابت کون کرے گا کہ 150 ملین ڈالر کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری میں کس کس کا کتنا حصہ تھا اور کتنا حصہ وہ پہلے ہی لے چکے تھے؟ عمران خان کے دورِ حکومت کی دوسری رپورٹ دیکھیں تو صاف پتا چل جاتا ہے کہ پہلے کچھ نادیدہ ہاتھ ضرور کارفرما تھے‘ جو اس طرح کے سینکڑوں پروجیکٹس اور منصوبوں سے قوم کے کروڑوں ڈالر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ترمیمی بل‘ جو حکومت نے آنکھ جھپکتے میں منظور کر لیا تھا‘ واپس بھیجتے ہوئے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ آخر اس قسم کے قوانین منظور کرانے کی اس قدر جلدی کیوں ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں