فرض کیجئے کہ آپ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا کسی کمپنی کے جنرل منیجر ہیں اور اپنے کسی ذہین‘ ایماندار اور فرض شناس ملازم سے ناراض ہیں‘ یا آپ کا تعلق کارخانے میں کام کرنے والے کسی ایسے گروپ یا ایسے افراد سے ہے جو کارخانے کے انجینئر کو اس کی بے باکی کی وجہ سے سخت ناپسند کرتے ہیں‘ یا آپ اس شخص کی ذاتی زندگی کے بارے میں‘ جو اپنی فرض شناسی کی وجہ سے کارخانے بھر میں یا یونیورسٹی کے سٹاف اور طلبہ میں یا اپنی ورک پلیس پر بہت مقبول ہے‘ اپنے دوستوں یا ساتھیوں کے کہنے پر یا ان کی محبت اور تعلقات کی وجہ سے کسی سیمینار یا بورڈ میٹنگ میں اس لیے گھٹیا قسم کے الزامات کی بھرمار شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کے الزامات سے اس شخص کی عزت اور وقار میں کمی پیدا ہو جائے اور لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت کے جذبات ابھرنے لگیں تو جان لیجئے کہ یہ عمل آپ کے ادارے‘ یونیورسٹی یا کمپنی کے استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھنے اور مزید مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم سب اپنی حدوو و قیود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ سوچئے کہ اگر وائس چانسلر کے کہنے پر یا اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کسی پروفیسر‘ یا کسی کمپنی کے جنرل منیجر کے کہنے پر کسی انجینئر کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانے والے کو کارخانے یا یونیورسٹی کے تمام اختیارات سونپ دیے جائیں اور پھر اس شہری کو کچلنے یا اسے سبق سکھانے کیلئے یکطرفہ طور پر مظالم اور زیادتیاں شروع کر دی جائیں تو ایسی کسی بھی کمپنی میں تفریق پیدا ہونا اور گالم گلوچ سے باہمی محبت اور احترام میں کمی ہونے کے علاوہ نفرت کا لیول بھی بڑھ جائے گا۔
زمانۂ امن ہو یا جنگ‘ دشمن کے ساتھ چھوٹی بڑی جھڑپیں ہوں یا ممکنہ جنگ کے خدشات کی صورت میں ملکی افواج کی سرحدوں کے دور و نزدیک ڈپلائمنٹ‘ جو بھی‘ جیسی بھی صورت حال ہو‘ کسی بھی ملک‘ کسی بھی ریا ست کے عوام اور ملک کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے جب تک باہم شیر و شکر نہ ہوں‘ ایک دوسرے سے پیار و محبت اور اعتماد نہ رکھتے ہوں‘ کوئی بھی جنگ اور لڑائی جیتی نہیں جا سکتی۔ اس کا تجربہ ہمیں ستمبر 1965ء کی فتح اور پھر 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ہو چکا ہے۔ نہ جانے کیوں لگ رہا ہے کہ کوئی بڑی بیرونی طاقت باہمی نفاق اور نفرت کو بڑھاوا دینے کیلئے آج وہی تجربہ پھر سے دہرانے کیلئے کسی اندرونی گروہ کو اکسا رہی ہے۔ ایک لمحے کیلئے سب سوچئے گا ضرور کہ خدانخواستہ جب یہ بیرونی طاقت قوم کو تقسیم کر دے اور دیکھے کہ اب ان کی ایک دوسرے سے نفرت دشمنی کی حد تک پہنچ گئی ہے تو ایسے میں وہ ہمارے ازلی دشمنوں کو ان کے سات دہائیوں کے دبائے ہوئے ناپاک ارادوں کی تکمیل کیلئے ہماری سرحدوں پر چڑھ دوڑنے کا حکم دے دے تو ہمارے قومی مورال کا کیا حال ہو گا؟ جب دشمن یہ دیکھے کہ اس ملک کے عوام اور اداروں میں تفریق پیدا کی جا چکی ہے تو یہ صورتحال اس کے لیے کس قدر خوشی کا سبب ہو گی؟ پاکستان ففتھ جنریشن وار فیئر یا ہائبرڈ وار سے نبرد آزما ہے۔ یہ جنگ 22 کروڑ سے زائد عوام کے خلاف لڑی جا رہی ہے ۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ملک‘ قوم سے بنتے ہیں اور ایک قوم آئیڈیالوجی یعنی نظریے سے بنتی ہے‘ اس لیے ایک ملک کو توڑنے کے لیے اس قوم کے نظریے کو ختم کرنا پڑتا ہے اور جب نظریہ ختم ہو جائے تو قوم کی وحدت باقی نہیں رہتی۔ پھت قوم ختم ہو جاتی ہے اور لوگوں کا ایک بے سمت ہجوم باقی رہ جاتا ہے۔ یہ طریق کار کوئی نیا نہیں ہے‘ سقوطِ ڈھاکہ بھی درحقیقت اس طریق کار کا نتیجہ تھا لیکن اب ہائبرڈ وار خطرناک اس لیے ہو گئی ہے کہ اس کا ایک نیا میدانِ جنگ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس میں سوشل میڈیا سرفہرست ہے۔ اور ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے استعمال کی حساسیت کا ادراک کیے بغیر دن رات اسی میں گم ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسا لامحدود مواد شیئر کیا جاتا ہے جو اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے قومی اداروں اور عوام کو ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ر ہنا ہو گا۔ ان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کیلئے دھڑکنے چاہئیں‘ لیکن اگر خدا نہ کرے کہ چند مطلب پرست بیرونی آقاؤں کے ایجنڈوں پر کاربند لوگ ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت کے ساتھ محکوموں جیسا سلوک کرنا اور ان پر مظالم ڈھانا شروع کر دیں یا پھر مظلوموں کی چیخیں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ایک ایک کونے میں اس قدر وائرل ہو جائیں کہ مہذب معاشرہ اس وڈیو کو دیکھتے ہوئے رونا چیخنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ معاشرے میں نفرت پنپنا شروع ہو جائے گی۔ حالیہ دنوں ایک دس ماہ کی بچی کی وڈیو نے دنیا بھر میں پاکستان کا جو تصور نمایاں کیا ہے‘ اس کا اندازہ شاید اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ابھی تک نہیں کر سکے۔ ملک میں جو کچھ اس حکومت کے مختصر سے عرصے میں ہو چکا ہے‘ یہ کسی مہذب‘ انصاف پسند معاشرے میں قطعاً قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ اس دوران مختلف مواقع پر جو کچھ ہوا‘ اس سے جنم لینے والے منفی جذبات نوجوانوں میں سرایت کر چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر پاکستان سب کیلئے‘ قانون سب کیلئے‘ آئین پاکستان کا احترام سب کیلئے کا حکم نافذ نہ کیا گیا تو سماج میں تفریق اس قدر بڑھ جائے گی کہ اس کے تصور سے ہی ایک دردمند اور محب وطن پاکستانی کو خوف آنا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کو امریکہ کے سخت پیغامات‘ بھارتی دھمکیاں اور ناقابلِ قبول مطالبات‘ کالعدم ٹی ٹی پی کی دھمکیاں‘ مخصوص ایجنڈا رکھنے والی درجنوں غیر ملکی ہیومن رائٹس تنظیموں کی دھمکیاں‘ بلوچستان میں علیحدگی کے بین الاقوامی ایجنڈے پر کاربند دہشت گرد گروپوں کی دھمکیاں‘ امریکہ اور اس کے ہمنوا میڈیا کی وطن کی عزت اور وقار کے خلاف در پردہ کی جانے والی چالاکیاں کیسے نظر انداز کی جا سکتی ہیں؟
بیرونی احکامات کے ذریعے ہمیں جو زخم دیے گئے انہیں بھولنا اچھا نہیں ہوتا‘ کیا ہم وہ فیصلہ بھول گئے جب سکیورٹی اداروں کے سینکڑوں اہلکاروں اور سات ہزار سے زائد معصوم شہریوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد ہمارے سسٹم کی مختلف کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر نکل گئے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ان کے خلاف استغاثہ کے پاس ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔ لگتا ہے کہ کوئی ایسے بیرونی ہاتھ اور ذہن اس میں کارفرما رہے تھے جن کا مقصد شہدا اور ان کے خاندانوں کو مزید تڑپانا اور زخم دینا تھا۔ جہاں بائیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہوں وہاں یہ چند مقدمات بھی اس فہرست میں شامل رہنے سے کیا فرق پڑنا تھا؟ پھر سے سن لیجئے کہ بولے اور سنے جانے والے الفاظ انسان کی زندگی کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ الفاظ احساس‘ جذبات‘ جسم‘ دل و دماغ‘ عمل حتیٰ کہ روح تک کو متاثر کرتے ہیں۔ الفاظ اتنی طاقت کے حامل ہوتے ہیں کہ مقررین اور لیڈر اِن لفظوں کے استعمال سے لوگوں کو تحریک دیتے ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لفظوں کی قوت سے آگاہ ہوئے بغیر انسانوں کے جذبات کو سمجھنا ناممکن ہے‘ اس لیے اگر کوئی کسی کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنا کر اس کی کردار کشی کرکے خود کو بڑا بنانا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔