کوئی دوستوں کے ساتھ ترکی تو کوئی بیس‘ پچیس افراد کے جلو میں فرانس اور کینیڈا کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوا اور لیموزین میں گھومتا ہوا نیاگرا آبشار کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ مر تو عوام رہے ہیں جو ان سب کو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کے آگے سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کیا بھی جائے تو کس طرح کہ ''جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ انہیں کیا پتا کہ آج عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ کوئی بھی سبزی دو‘ ڈھائی سو روپے فی کلو سے کم نہیں مل رہی۔ انہیں دودھ‘ دہی اور آٹے‘ دال کا بھائو کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ 1976ء کے بعد شاید اب راشن ڈپوئوں کی طرح‘ یوٹیلیٹی سٹوروں کے سامنے مرد و خواتین کی طویل قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور لوگ ایک کلو گھی اور دو کلو چینی خریدنے کیلئے گھنٹوں خوار ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی مشاہدہ کر سکتا ہے کہ ان قطاروں میں اکثریت بوڑھوں‘ عورتوں اور معذوروں کی ہوتی ہے لیکن کوئی سننے والا ہی نہیں۔ حکومت کی نظر میں سب اچھا ہے اور اس کی سب سے بڑی ترجیح اس وقت اپوزیشن کو طاقت اور اختیار سے کچل دینا ہے۔
دو ہفتوں سے ہر گھر‘ ہر گلی‘ ہر محلے اور ہر آبادی سے روتی‘ بلکتی‘ چیختی‘ چلاتی عورتیں ہاتھوں میں بجلی کے بل پکڑے کراچی سے پشاور تک‘ باہر نکل نکل کر بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے دفاتر کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہی ہیں۔ ان احتجاجوں کے مناظر ایسے تھے جیسے پورے شہر میں کوئی ماتم کیا جا رہا ہو۔ ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز نے جب ہاتھوں میں بجلی کے بل پکڑے ان مرد و خواتین کی چیخ و پکار براہ راست دکھا نا شروع کی تو ایک لمحے کیلئے نیوز روم اور ڈیسک پر کام کرنے والوں کے علاوہ جس جس گھر اور جس جس آنکھ کے سامنے یہ منا ظر آئے‘ وہ کانپ کر رہ گئی۔ ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ موقع پر جا کرصورت حال کا جائزہ لیا جائے۔ جب پانچ ہزار سے ستر ہزار روپے تک کے بجلی کے بلوں کے پہاڑ تلے دبنے والے‘ تنگ و تاریک اور بے ترتیب بستیوں کے ان ستم رسیدہ لوگوں اور ان کے گھروں کو دیکھا تو خود پر حیرانی ہوئی۔ پھر ان کے تنگ و تاریک کوٹھڑیوں نما گھروں کے اندر جھانکنے اور انہیں دیکھنے کا موقع ملا تو ایسے لگا کہ ہم جیسے لوگ کسی جنت سے اٹھ کر دوزخ میں آ گئے ہیں۔ ان گھروں کی سیلن دماغ کو چڑھ رہی تھی۔ فوری فیصلہ کیا کہ جلدی سے یہاں سے نکل چلیں کیونکہ مرے پر سو درے کا کام بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کر رہی تھی۔
چند لمحے ان تنگ گلیوں اور کچی پکی بستیوں میں ان مکینوں کے دکھوں‘ تکالیف اور ان کے اندر پکنے والے لاوے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ درجنوں کی تعداد میں ملنے والی عورتیں ایسی تھیں جنہیں یہ تک پتا نہیں تھا کہ اس وقت ملک پر عمران خان کی نہیں بلکہ شہباز شریف کی حکومت ہے۔ پانچ ہزار سے ستر ہزار روپے تک بجلی کے بل جنہیں بھیجے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی کا ایک کمرہ اور چھوٹا سا صحن تو کسی کے دو کمرے اور دو چارپائیوں کی جگہ کا بر آمدہ ہے۔ ان سب لوگوں کی ماہانہ آمدنی پندرہ سے بیس ہزار روپے تک تھی۔ ہم نے کچھ گھروں‘ جہاں چار سے پانچ بچے اور بوڑھے ماں باپ ساتھ رہ رہے تھے اور کچھ انتہائی ضعیف اور معذور خاندانوں کو مارک کرنے کے بعد ان کے بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے بیرونِ ملک مقیم ایک مہربان سے بات کی جنہوں نے کسی تساہل کے بغیر ان کے بل ادا کر دیے۔
جب ہم جگہ جگہ بجلی کے بلوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ رہے تھے تو پوچھا گیا کہ آج کل آپ کے مضامین نہیں آ رہے۔ آگے سے یہی جواب دیا کہ حضور! مضامین کے درمیان بیٹھا ہوں۔ میرے اردگرد اس قدر دلخراش منا ظر اور داستانیں ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ یہاں سے گھر تک زمین کے ایک ایک چپے پر سجدے کرتے ہوئے اپنے رب کریم کا شکر بجا لائوں جس نے اپنی لاتعداد نعمتوں سے ایسے نواز رکھا ہے کہ اس کے کرم کے سوا کسی کی محتاجی نہیں۔ مجھے خود بھی اس ماہ 68 ہزار روپے کا بجلی کا بل موصول ہوا جو معمول کے بل سے دو گنا سے بھی زیادہ تھا‘ لیکن چونکہ مجھ پر رب کریم کی بے شمار عنایتیں ہیں‘ اس لیے دل پر پتھر رکھ کر جیسے تیسے بل تو ادا کر دیا لیکن اگلے کئی دنوں تک جو کٹھنائیاں بھگتنا پڑیں‘ وہ ہم ہی جانتے ہیں کیونکہ ایک طرف مہنگائی کا عفریت متوسط اور نچلے طبقے کو جکڑے ہوئے ہے اور اس پر مستزاد یہ بھاری بھرکم بل۔
جن چند گھروں کے بل اپنے ایک اوور سیز پاکستانی دوست کے سپرد کیے‘ دیکھا جائے تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن کچھ ہوا تو سہی۔ ایک طرف وہ چند گھرانے ہیں جن کو کسی بھی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ایک طرف غریب بے بس اور مجبور گھرانے ہیں جن پر ہر وقت مہنگائی کا تازیانہ برستا رہتا ہے۔ اگرچہ ان کے مابین ایک مڈل کلاس بھی ہوا کرتی تھی جو اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے؛ تاہم اس میں بھی دکھاوے کی وجہ سے بہت سے خرابیاں در آئی ہیں۔ ان تمام حالات میں ہر اس پاکستانی سے‘ جو اپنے اخراجات کو کسی حد تک سمیٹ سکتا ہے‘ درخواست ہے کہ اگر ہم سب اپنے شہروں، تحصیلوں، قصبات اور دیہات کی کچی بستیوں، کمزور، مزدور طبقے اور سفید پوش گھروں کو اپنے ساتھ نتھی کر لیں تو یقین کیجئے لوگ نہ تو بھوک، مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں سے تنگ آ کر پھانسی کے پھندے اپنی گردنوں میں ڈالیں گے اور نہ ہی کوئی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو ذبح کرے گا یا بڑی نہروں میں بچوں سمیت کودنے کا خیال دل میں لائے گا۔ کچھ احباب سمجھاتے ہیں کہ خود میں مگن رہا کرو‘ کیا ضرورت ہے کسی دوسرے کو تکلیف دینے کی‘ وہ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے ''خدا کے کیمرے کی آنکھ سب کچھ محفوظ کر رہی ہے‘‘۔ مظلوم‘ مجبور اور بے بس مخلوق کی دستک کسی کے دل کے دروازے تک پہنچانے میں کیا حرج ہے؟ حکومتیں جن کے پاس بے پناہ وسائل ہوتے ہیں‘ وہ زلزلے، ناگہانی آفات اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے جب بنی نوع انسان کو پکار سکتی ہیں تو ایک عام شخص کیوں نہیں پکار سکتا؟
ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور جھنگ سمیت کے پی، بلوچستان اور سندھ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے‘ اس کا میڈیا اور سوشل میڈیا کی محدود کوریج سے اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ حکومت خود بھی سیاسی جھمیلوں میں مگن رہی اور سیلاب کی کوریج بھی ایک حد سے آگے نہیں جانے دی گئی۔ اس میں کیا مصلحت تھی‘ یہ وہی جان سکتے ہیں جن کا یہ فیصلہ تھا۔ لیکن جو آنکھیں یہ سب کچھ خود دیکھ کر آئی ہیں‘ ان سے مسلسل بہنے والے آنسو ہر ایک کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے عوام اس وقت کھلے آسمان تلے اپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ مچھروں کی یلغار میں جس طرح بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں‘ وہ دل گرفتہ مناظر لفظوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ جو کچھ پچھلے چند دنوں میں دیکھا ہے‘ اس کے بعد میرے ہاتھ گھر کے پکے کھانوں کا لقمہ اٹھاتے ہوئے بھی کانپنے لگتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ کھلے آسمان تلے چادراور چار دیواری کے بغیر بھوکے پیاسے مرد‘ بچے‘ بزرگ اور خواتین کی حالت اس وقت نجانے کیا ہو گی‘ طبیعت بے چین سی ہونے لگتی ہے۔ کاش کہ بجلی کے ہوشربا بلوں اور سیلاب کی تباہ کاریو ں کے جو مناظر دیکھے ہیں‘ میں یہ نہ دیکھتا۔ حوا کی بیٹیوں کو گندا پانی پیتے اور ان کی چھاتیوں سے چمٹے ہوئے لاغر اور کمزور بچے دیکھنے کے بعد دل کر رہا ہے کہ امرتا پریتم سے یہ عرض کروں کہ جس نے 1947ء کے فسادات پر ایک بیٹی کی تکلیف پر کہا تھا ''اک روئی سی دھی پنجاب دی، تے توں لکھ لکھ مارے وین، اج لکھاں دھیاں روندیاں تے تینوں وارث شاہ نوں کہن‘‘ ، آج وارث شاہ کے پنجاب ہی نہیں‘ سندھ، بلوچستان، کے پی سمیت ملک کے چپے چپے میں لاکھوں بیٹیاں کہیں بجلی کے بل ہاتھوں میں پکڑے بین ڈال رہی ہیں تو کہیں سیلاب اور بارشوں سے زمین بوس ہوئے اپنے کچے گھروں اور سیلاب کی تند و تیز موجوں سے بہہ جانے والے اپنے مال مویشیوں اور کہیں تباہی مچاتے ہوئے سیلابی ریلوں میں غرق ہوجانے والی اپنی اولادوں کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھن جانے پر ماتم کناں ہیں‘ ان کا نوحہ کون لکھے گا؟