وطن عزیز کو اندھیروں میں ڈوبا دیکھ کر‘ ملک کے ہر فرد کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا دیکھ کر‘ غریبوں کو بھوک اور بیماری سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا دیکھ کر‘ نوجوانوں کو روزگار کے لیے سڑکوں پر دھکے کھاتے دیکھ کر‘ پانچ پانچ کلو آٹے کے تھیلے کے لیے قوم کی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو گھنٹوں قطاروں میں دھکے کھاتا دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ پوری قوم سے کوئی سنگین جرم سرزد ہوا ہے جس کی ہمیں یہ سزا مل رہی ہے۔ ایک ہی ملک میں امیر و غریب کا تفاوت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی قبرستان ہے جہاں کسی کو دوسرے کا کوئی احساس‘ کوئی دکھ نہیں۔ شاید کوئی جنگل کا معاشرہ ہے جہاں کوئی قانون نہیں۔ ملکی معیشت پاتال سے جا لگی ہے، ڈالر کے مہنگا ہونے سے قوم کی پشت پر ہر روز ایک نیا تازیانہ برس رہا ہے۔ کل تک ملک کے نوجوانوں کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی مگر رجیم چینج کے بعد سے وہ چمک بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہر کوئی اب ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے کہ نجانے کل کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے اور جو کچھ اب تک ہو چکا ہے‘ بہتری اور اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ وہ مائیں‘ جو بچے کے دفتر یا دکان سے واپسی میں ذرا سی دیر ہو جانے پر دروازوں پر آ کر کھڑی ہو جاتی تھیں‘ اب خود ہی اپنے بچوں کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ جو بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوان دل برداشتہ ہو کر خود کو دیس نکالا دے چکے ہیں‘ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ان نوجوانوں میں ہنریافتہ افراد سے زیادہ تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی، ڈاکٹرز، انجینئر، آئی ٹی سے وابستہ نوجوان، جنہیں یہاں پر اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔ لاکھوں جا چکے ہیں، نجانے مزید کتنے لاکھ تیار بیٹھے ہیں اور اس کیلئے وہ اپنا سب کچھ بیچ رہے ہیں۔ میرا وطن‘ میرا دیس نجانے کس کی نظرِ بد کا شکار ہو گیا ہے۔ نجانے کن کے کرتوتوں کی اجتماعی سزا اس ملک و قوم کا مقدر بنتی جا رہی ہے۔ میرا یہ دیس ایسا تو کبھی نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا، یہ تو کوریا اور ملائیشیا کے لیے ایک مثال کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کی صنعتی ترقی امریکی یونیورسٹیوں میں بطور مثال پڑھائی جاتی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ آج ہم ان حالوں کو پہنچے ہوئے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت ملک و قوم کو جن نامساعد حالات کا سامنا تھا، آج کوئی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جب پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان میں پانچ اور مغربی پاکستان میں محض دو شوگر ملیں تھیں، ان میں سے ایک سرحد میں فرنٹیئر شوگر مل جبکہ دوسری پنجاب میں راہوالی شوگر مل تھی۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے بہت سے ہنرمندوں اورکاریگروں نے پنجاب میں چھوٹی چھوٹی مشینیں لگا کر گنے سے چینی بنانا شروع کی اور پھر ان مشینوں کا جال رفتہ رفتہ پھیلاتے چلے گئے۔ پہلے یہ مشینیں ہاتھ سے چلتی تھیں‘ پھر ان کے ساتھ بجلی کی موٹریں لگنا شروع ہو گئیں۔ 1950ء تک دیکھتے ہی دیکھتے پورے پنجاب میں جگہ جگہ یہ مشینیں لگ گئیں۔ پھر کرپشن کا سویا ہوا عفریت جاگنے لگا، ملک کی صنعت کو ترقی اور تحفظ دینے کے بجائے ایک دن اچانک جاوا اور سماٹرا سے انتہائی موٹی‘ دانے دار چینی در آمد کرنے کے لائسنس جاری کیے جانے لگے۔ یہیں سے ملک میں لائسنسوں اور پرمٹوں کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ چینی کی مقامی صنعتیں اور ان کی مشینری‘ جن پر مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجرین نے اپنی جمع پونجی صرف کر رکھی تھی‘ ایک ایک کر ضائع ہونا شروع ہو گئیں۔ اگر ان لوگوں کو اس وقت تحفظ دیا جاتا‘ ان کی مدد کی جاتی تو 1955ء سے لے کر آج تک‘ ملک کبھی چینی کے بحران کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی چینی اس قدر مہنگی ہوتی۔
چینی کے بعد آتے ہیں ملک میں لوہے اور سٹیل کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کی طرف۔ کراچی سٹیل مل کا بحران آج اس ملک کے سالانہ پچاس ارب روپے ہڑپ کر جاتا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے فوری طور پر سٹیل ملز کی نجکاری کا مطالبہ کیا ہے۔ اگلے چند دنوں میں اس حوالے سے پیش رفت سامنے آ جائے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس سٹیل ملز کو نجکاری کے ذریعے کسی اور کے حوالے کر دیا جائے گا اور اس سے جان چھڑائی جائے گی‘ وہ ان حالوں کو کیسے پہنچی؟ یہ وہی سٹیل ملز ہے جس نے2004-05ء میں 1.1 ملین ٹن سٹیل فروخت کرتے ہوئے 32 ارب روپے کا منافع کمایا تھا۔ آج یہ اس قدر بدحال اور مقروض کیوں ہے؟ اس کی بدحالی بلکہ تباہ حالی کا سبب جاننا ہے تو اس ضمن میں محض یہ دو خبریں ہی کافی ہوں گی جو چند ماہ قبل ملک بھر کے میڈیا کی زینت بنی تھیں۔ پہلی خبر ہے کہ ''وزارتِ صنعت و پیداوار کی جانب سے سٹیل ملز میں 10 ارب روپے مالیت کی مشینری چوری ہونے کا نوٹس لینے کے بعد ادارے میں کھلبلی مچ گئی۔ ادارے کے کرتا دھرتا اپنی جانیں بچانے کیلئے عہدے چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ وزارتِ صنعت و پیداوار نے سٹیل ملز سے دس ارب روپے مالیت کی مشینری چوری ہونے پر ادارے سے وضاحت طلب کی تھی اور سکیورٹی عملے کی اہلیت پر سوال اٹھایا تھا۔ وضاحت نہ ہونے پر سٹیل ملز کے کرتا دھرتا مشکلات میں گھر گئے ہیں اور وہ اپنے عہدوں سے جان چھڑانے کیلئے بے قرار ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز میں اقربا پروری کا دور دورہ رہا ہے، اس دوران قیمتی ساز و سامان کی چوری بھی ایک معمول رہی۔ ادارے میں من پسند افراد کو نوازا گیا اور سکیور ٹی کی ناقص کارکردگی کے باوجود مہنگی اور قیمتی گاڑیاں کرائے پر حاصل کی گئیں۔ مزدور تنظیموں نے سٹیل ملز کو پہنچنے والے مالی نقصان کی تحقیقات کرانے اور موجودہ عہدیداران اور بورڈ اراکین کو تحقیقاتی عمل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔ دوسری خبر ہے کہ ''مالی سال 2020-21ء میں پاکستان سٹیل مل کے 3 ارب 38 کروڑ روپے مالیت کے پرزہ جات اور میٹریل چوری ہوا۔ آڈیٹر جنرل نے پاکستان سٹیل ملز کی آڈٹ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں اربوں روپے کی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 600 سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود محض ایک سال میں 3 ارب 38 کروڑ روپے کے پرزہ جات اور میٹریل چوری ہوا جو سنگین غفلت کا ثبوت ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کی خرچ کردہ 29 ارب 92 کروڑ 96 لاکھ روپے کی رقم بھی واپس جمع نہیں کرائی جا سکی، پاکستان سٹیل کی 5 ارب روپے مالیت کی 250 ایکڑ اراضی پر بھی قبضہ کیا جا چکا ہے، پاکستان سٹیل کے عہدیداران فنڈز کے ساتھ اراضی کی حفاظت میں بھی ناکام رہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے پاکستان سٹیل کے اعلیٰ عہدیداران کی تقرری کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا کہ متعلقہ اہلیت اور تجربے کے بغیر افراد کو تعینات کیا گیا۔ تعیناتی کے لیے درخواستوں کی اہلیت کے معیار کا جائزہ تک نہ لیا گیا‘‘۔ کیا اس کے بعد بھی یہ جاننے کی حاجت رہ جاتی ہے کہ سٹیل ملز ان حالات کو کیسے پہنچی؟
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ملکی سٹیل کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ملک میں پہلی سٹیل مل لگانے کا منصوبہ بنا تو اس کیلئے جرمنی کی سب سے بڑی سٹیل مل (Krupp)کے مالک الفریڈ کرپ کو پاکستان بلایا گیا۔ واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد اس شخص پر امریکہ، برطانیہ اور روس کی طرف سے پابندیاں لگا دی گئی تھیں کہ وہ اب کسی بھی قسم کی انڈسٹری نہیں لگا سکتا۔ جب پاکستان کی درخواست پر وہ کراچی پہنچ گیا تو کچھ دردمند پاکستانیوں نے اسے قائل کیا کہ وہ پاکستان میں سٹیل مل لگائے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جتنی بھی آبدوزیں، ٹینک اور توپیں جرمنی نے استعمال کی تھیں‘ وہ سب اسی شخص کی سٹیل مل کی تیار کردہ تھیں۔ اس کے تیارہ کردہ سٹیل کی مضبوطی اور پائیداری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہٹلر جیسا جابر شخص‘ جو کسی کی بھی تعریف کرنے میں انتہائی بخیل تھا‘ اپنی تقریروں میں کہا کرتا تھا کہ ''ہر جرمن کو ایک شکاری کتے سے تیز اور کرپ کے سٹیل کی طرح مضبوط ہونا چاہیے‘‘۔ وہ شخص پاکستان کے مختلف حصوں میں گیا اور بالآخر اس نے کالاباغ کے علاقے کو سٹیل مل کیلئے منتخب کر لیا‘ جس میں کوئٹہ کا کوئلہ اور میانوالی کا خام مال استعمال ہونا تھا۔ اُس وقت طے یہ پایا کہ پاکستان اس سٹیل مل کیلئے زمین دینے کے علا وہ ضروری عمارتیں بھی بنائے گا اور میانوالی اور کوئٹہ کے لیے ایک علیحدہ ریلوے لائن بھی بچھائے گا جس کے ذریعہ کوئلے اور خام مال کی سپلائی جاری رہے گی۔ طے پایا کہ اس پروجیکٹ کیلئے درکار مشینری کی فراہمی جنابِ کرپ کی ذمہ داری ہو گی۔ ملک بھر میں اس پر خوشیاں منائی جانے لگیں لیکن ملک دشمنوں اور ان کے حامیوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ فوری طور پر خفیہ ہاتھ حرکت میں آئے اور مسٹر کرپ کو بھگانے کی سازشیں شروع ہو گئیں تاکہ سٹیل مل کا منصوبہ روکا جائے۔ اب طرح طرح کے سوالات اٹھائے جانے لگے کہ اگر ہمارا تیار کردہ سٹیل عالمی معیار کا نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ کہا گیا اسے بیرونِ ملک فروخت کر دیا جائے گا۔ پھر کہا کہ ہما رے کوئلے اور خام مال کی لاگت کا کیا بنے گا؟ اس پر یہ طے پایا کہ نقصان کی لاگت مسٹر کرپ ادا کریں گے۔ جب تمام شرائط طے پا گئیں تو شوشہ چھوڑا گیا کہ ملتان سے میانوالی اور کوئٹہ تک جو نئی ریلوے لائن بچھانی ہے‘ اس کے لیے حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہے۔ اس سے قبل کہ یہ معاملات طے پاتے‘ نت نئے بہانے سامنے آنے لگے۔ کرپ کے راستے میں اتنے کانٹے بچھائے گئے کہ وہ تنگ آ کر بھاگ گیا اور پھر نہرو نے اسے بھارت بلا لیا حالانکہ اس وقت تک ٹاٹا کمپنی نے سٹیل ملز کی تیاری شروع کر دی تھی لیکن بھارت نے جرمنی کے کرپ خاندان کی خدمات حاصل کیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں فوری طور پر سٹیل مل لگا لی گئی اور چند ہی سال بعد کاروں، بھاری مشینری، ٹریکٹرز اور لوہے کی مشینری تیار ہونے لگی اور بھارت صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ ادھر پاکستان میں بہترین کاریگر اور ہنرمند افراد بنیادی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے خالی ہاتھ بیٹھے رہے اور ملک کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہو تا رہا۔ واضح رہے ملک کی پہلی سٹیل ملز کا افتتاح ایوب خان نے 24 اگست 1967ء کو کیا تھا اور یہ سٹیل مل چٹاگانگ (مشرقی پاکستان) میں لگائی گئی تھی۔ دو سال بعد اس سٹیل مل کے حوالے سے پندرہ پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ اگر ملک کے قیام کے ابتدائی برسوں میں ہی سٹیل مل مکمل ہو جاتی تو شاید آج میرے وطن کے معاشی حالات مختلف ہوتے۔ ملک کی معیشت کو اپنے تھوڑے سے مفادات کی خاطر اندھے کنویں میں دھکیلنے والوں سے کب پوچھ گچھ ہو گی ؟ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی‘ کبھی بھی ان سے سوال نہیں کرے گا۔