کہا جاتا ہے کہ حقیقت وقتی طور پر جھوٹ کی تہوں میں دب سکتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے چھپی نہیں رہ سکتی۔ یہ مقولہ ہفتے کو زمان پارک میں ہوئے آپریشن کو دیکھ کر یاد آ گیا۔ ویسے تو یہ ایک نہایت کمزور سکرپٹ تھا جس سے حکومت کے حصے میں سراسر بدنامی اور رسوائی آئی۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں کیمروں کی موجودگی میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ انیس سو اسّی کی دہائی کی طرزِ سیاست کے سہارے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کر دے گا تو یہ فقط اس کی بھول ہے۔ ہماری روایتی سیاسی پارٹیاں جنہیں ''گرگ بارہ ماہ دیدہ‘‘ کہا جا سکتا ہے‘ ابھی تک انہی پرانے روایتی حربوں کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کی آج کے دور میں رتی بھر بھی افادیت نہیں ہے۔ گزشتہ روز زمان پارک پر بولا جانے والا دھاوا اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ درجنوں میڈیا کیمروں میں بھلا کوئی چہرہ چھپا رہ سکتا تھا؟ مگر اس کے باوجود کئی ایسے افراد بھی اس آپریشن میں حصہ لیتے نظر آئے جن کا پولیس تو کیا‘ حکومت کے کسی محکمے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ویسے تو مظاہرین پر ان کے حملے کے انداز اور ان کی وردیوں کو دیکھ کر ہی خوب اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں مگر ان کی ''اوور ایکٹنگ‘‘ نے سب کو اپنی جانب مبذول کرا لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی گھنٹوں میں ان کی اصلیت سب کے سامنے آ گئی۔ پولیس وردی میں ملبوس ایک شخص‘ جس کی وردی پر کوئی نام نہیں تھا‘ سے متعلق یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس کا نگران حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے تعلق ہے۔اگر یہ حقیقت ہے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایک دفعہ پھر ''گلو بٹوں‘‘ کے ذریعے سیاسی ایجنڈوں کی تسکین کی کوشش کی گئی۔
پولیس آپریشن کی آڑ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے باورچی اور مالی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس طرح وہاں بیٹھے درجن بھر کارکنوں پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائی گئیں‘ اس سے قبل 8 مارچ کو جس طرح لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے‘ ان سب کو دیکھ کر 16 جون 2014ء کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ اس دن ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور ملحقہ علاقوں میں لوگوں کی قیمتی گاڑیوں کو جس طرح توڑا پھوڑا گیا تھا‘ وہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا۔ ویسے تو یہ طرزِ سیاست 1990ء کی دہائی سے ہماری سیاست کا حصہ ہے مگر ماڈل ٹائون سانحے میں یہ مناظر کیمروں میں قید ہو گئے اور پھر اکتوبر 2014ء میں ایک شخص‘ جس کی شناخت گلو بٹ کے نام سے ہوئی‘ کو گیارہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے کو اگرچہ نو سال گزر چکے ہیں مگر آج بھی گلو بٹ کا نام ایک استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اب جن نئے گلو بٹوں کی تصویریں اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں‘ انہیں تحریک انصاف کے ورکرز اور زمان پارک میں موجود خواتین سے بد معاشی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے سابق وزیر اعظم کے گھر میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور جائے ہوئے وہاں سے پر فیومز‘ ٹریک سوٹ یہاں تک کہ باتھ روم سے شیونگ کا سامان بھی لوٹ کر لے گئے۔ اس وقت سوشل میڈیا پردرجنوں ایسی وڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی رہائش گاہ سے سامان نکال نکال کر گاڑیوں میں بھرا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ سامان پولیس کی گاڑیوں میں بھرا گیا اور کچھ نجی لوڈر گاڑیوں میں لادا گیا۔ وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سول کپڑوں میں ملبوس افراد گھر کے اندر جاتے ہیں اور ڈبوں کے ڈبے بھر کر باہر کھڑی گاڑیوں میں لا کر رکھتے ہیں۔ کچھ ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں پولیس کی گاڑیوں میں زمان پارک سے برآمد کیے گئے ''دہشت گرد‘‘ پنکھے اور ٹیوب لائٹیں رکھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
اب تک سیالکوٹ کے چونڈہ‘ ظفر وال سیکٹر کے بارے میں ہی سنا تھا کہ جب 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھارتی فوج ان علا قوں پر قابض ہوئی تو واپسی پر دیہات اور قصبوں کے شہتیر اور بالے تک اپنے ساتھ لے گئی۔ مقامی افراد نے بھارتی فوج کے ساتھ آئے ہوئے شہریوں کو گھروں میں موجود ایک ایک شے کو لوٹتے دیکھا اور آج بھی یہ کہانیاں نسل در نسل سنائی جاتی ہیں۔ اب عمران خان کا گھر اس طرح لوٹا گیا جیسے کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد اسے تاخت و تاراج کیا جاتا ہے۔عمران خان کے بچوں کی تصاویر، بچپن میں بنائی گئی ان کی پینٹنگز تک کو پھاڑ کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا‘ یہ وہ زخم ہے جس کی تکلیف عمران خان اور اس ملک کے با شعور طبقے کو کبھی نہیں بھولے گی۔ اس کی کسک ہمیشہ یہ احساس دلاتی رہے گی کہ عمران دشمنی میں کچھ لوگ اس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جس نے بھی کیا‘ وہ شاید گلو بٹ کا انجام بھول گیا۔ ماڈل ٹائون کے واقعے کے بعد گلو بٹ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ ایک ایک گھر جا کر معافیاں مانگتا رہا مگر کسی نے اسے معاف نہیں کیا۔ جنہوں نے اس کو شہ دے کر بلایا تھا اور وہاں موجود عوامی تحریک کے کارکنوں اور عام شہریوں کی گاڑیاں تباہ کرائی تھیں‘ انہوں نے بعد میں اسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ عمران خان کے گھرپر دھاوا بولنے دوسرے علاقوں بالخصوص مریدکے سے جو افراد بلوائے گئے تھے‘ وہ اب سب کی نظروں میں آ چکے ہیں۔ ان کی شکلیں‘ پولیس کی وردی میں ملبوس زمان پارک آپریشن میں ان کی شمولیت اب وڈیوز کی صورت میں محفوظ ہو چکی ہے۔نیز اس سے نگران حکومت کا کردار بھی سب پر واضح ہو گیا ہے۔ دعا ہے کہ خدا ہر ریاستی و سرکاری اہلکار کو ملک سے محبت اور غیر جانبداری سے اپنے فرائضِ منصبی کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسری جانب ہفتے کو جو تماشا اسلام آباد میں لگایا گیا‘ سوال یہ ہے کہ اس میں کس کو فائدہ ہوا؟ ایک عام شہری یا میڈیا سے اپنے تعلق کی وجہ سے اسلام آباد میں براجمان حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ اگر آپ عمران خان کو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں بغیر کسی رکاوٹ کے پیش ہونے کا موقع دے دیتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب میاں نواز شریف‘ ان کے بیٹے اور بعدمیں مریم نواز صاحبہ اسلام آباد جے آئی ٹی میں پیش ہونے کیلئے اسی جوڈیشل کمپلیکس میں آیا کرتے تھے۔ کیا ان کے ساتھ لاہور‘ ہزارہ‘ پشاور اور سوات سے مسلم لیگی کارکنوں کی ٹولیاں نہیں آیا کرتی تھیں؟ اگر ان کے آنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی تھی تو عمران خان کے ساتھ آنے والوں کو جوڈیشل کمپلیکس میں آنے سے کیوں اور کس مقصد کے تحت روکا گیا؟ یہ سب کچھ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی پیشیوں کو پولیس، رکاوٹوں کی دیوار اور آنسو گیس کی طوفانی بارش سے روکنا ایک عادت بنا لیا گیا ہے۔ اسی بہانے حکومت کو عمران خان پر دہشت گردی، بلوے اور پولیس و سرکار پر حملے سمیت کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ گزشتہ روز بھی عمران خان کی پیشی کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی قیادت، کارکنوں اور چیئرمین تحریک انصاف پر مزید دو مقدمات قائم کر لیے گئے۔ اب تک عمران خان پر لگ بھگ 96 مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ اب تک حکومت کے عمران خان کے خلاف سبھی اقدامات کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ یہ عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے ہے‘ اگر واقعتاً ایسا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ عمران خان کے خلاف جاری کیسز کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچانے کے لیے تمام راستے صاف کرتے ہوئے عمران خان کو اپنی جانب سے ہر قسم کی سہولت فراہم کرے، تاکہ وہ جلد از جلد عدالت اور متعلقہ جج کے سامنے پیش ہوں اور ان کے خلاف کیسز پر پیشرفت ہو سکے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا، سوال یہ ہے کہ اس میں کس کا مفاد ہے؟پچھلے گیارہ ماہ سے حکومت کے لبوں پر توشہ خانہ کیس کا نام ہے مگر عملاً یہ صورتحال ہے کہ ابھی تک اس کیس کے قابلِ سماعت ہونے ہی کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور اگلی سماعت پر‘ 30 مارچ کو اس پر بحث کا آغاز ہو گا۔ عمران خان کی وجہ سے زمان پارک کے رہائشیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے جو بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ وہ نہ صرف چلنے سے قبل ہی ٹھس ہو گیا بلکہ زمان پارک کے رہائشی بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے اور بھائی کے گھر کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے اس پولیس آپریشن کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔