"MABC" (space) message & send to 7575

مردم شماری اور سیاسی توازن

ڈیجیٹل مردم شماری‘ جس میں اب (پانچویں بار) 15 مئی تک توسیع کر دی گئی ہے‘ پر ایک بار پھر کراچی ا ور حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ بعض ذرائع حالیہ مردم شماری کے حوالے سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جعل سازی سے کراچی کی آبادی 2017ء سے بھی کم ظاہر کی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور شدید زیا دتی ہو گی کیونکہ کراچی کی آبادی کسی طور بھی اب دو‘ ڈھائی کروڑ سے کم نہیں ہے۔ اسے بد قسمتی ہی کہہ لیجئے کہ کراچی کے ساتھ سے یہ ناانصافی اب سے نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت سے ہو رہی ہے۔ اگر گزشتہ یعنی 2017ء میں کی جانے والی مردم شماری کے نتائج کی بات کریں تو یہ ابھی تک تنازع کا شکار ہیں۔ ملک میں جب بھی مردم شماری کرائی گئی‘ اربن سندھ اس کے نتائج پر مطمئن نہیں ہوا اور کسی حد تک اس سلسلے میں کراچی والوں کے شکوے بجا بھی ہیں کیونکہ غیر حکومتی ذرائع کے مطابق کراچی کی آبادی برسوں قبل دو کروڑ کا ہندسہ عبور کر چکی ہے جبکہ 2017ء میں کچی پنسلوں سے کی گئی مردم شماری میں یہ آبادی ڈیڑھ کروڑ سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حالیہ مردم شماری میں بھی ابھی تک کراچی کی آبادی 1 کروڑ 76 لاکھ 79 ہزار نفوس پر مشتمل بتائی گئی ہے، تاہم ابھی کراچی کے ضلع وسطی، ملیر، کیماڑی، شرقی، جنوبی اور غربی میں 15 مئی تک کام جاری رہے گا۔ نجانے کراچی اور حیدر آباد جیسے سندھ کے اربن اضلاع کی حقیقی تعداد کو کیوں چھپا لیا جاتا ہے اور جعلی اعداد و شمار کو ہی اپنے لیے سیاسی ہتھیار کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ایک جانب پیپلز پارٹی جمہوریت کو بہترین انتقام کہتی ہے اور دوسری طرف مخالفین اس کی صوبائی حکومت پر جمہور کی تعداد مٹانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
حالیہ مردم شماری میں کراچی اور حیدر آباد کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے اعداد و شمار اس قدر مضحکہ خیز ہیں کہ کراچی کے عوام کیا‘ دنیا بھی انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو رہی۔ کراچی کے ساتھ روا رکھی گئی جعل سازی کے ثبوت دیکھنے ہوں تو اس کیلئے یہ ایک مثال ہی کافی ہو گی۔ جب 1998ء میں مردم شماری ہوئی تو اس کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی تیرہ کروڑ سے زائد تھی اور یہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک تھا جبکہ کراچی کی آبادی 98 لاکھ تھی۔ اگلی مردم شماری اس کے دس برس بعد ہونا تھی مگر اس وقت کی حکومت کی جانب سے اس اہم فریضے کی تکمیل میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا۔ اسی دوران ورلڈ بینک نے 2012ء میں اپنے ایک جائزے کے حوالے سے جو رپورٹ تیار کی اس کے مطابق پاکستان اس وقت بیس کروڑ سے زائد آبادی ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا تھا اور کراچی پونے دو کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک۔ یہ جعلی مردم شماری کا سب سے بڑا سر ٹیفکیٹ تھا۔ اِس وقت بھی پوری دنیا کے جائزوں کے مطابق کراچی کی آبادی کم از کم بیس ملین (دو کروڑ) ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں 1998ء کے بعد دو دہائیوں تک مردم شماری کرانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ 19 سال تک ملک میں مردم شماری کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہو گا۔ جس ملک میں مردم شماری نہیں ہو گی‘ وہ کس طرح مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے؟ وہاں ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟ وہاں کے عوام کی ضروریات؛ تعلیم، پانی، بجلی، علاج معالجے اور رہائش کا کیسے بہتر اور مناسب بندوبست کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء، دوسری 1961ء، تیسری 1972، چوتھی 1981ء میں کی گئی لیکن جو مردم شماری 1991ء میں ہونا تھی‘ اسے یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا گیا کہ مردم شماری کے ترمیمی آرڈیننس کی میعاد ختم ہو رہی ہے اور دونوں ایوانوں سے اس کی بطور قانون منظوری ضروری ہے جس کا فوری امکان نہیں ہے، چونکہ یہ آرڈیننس اب غیر مؤثر ہو گیا ہے اس لیے مردم شماری نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 22 نومبر 1990ء سے 16 دسمبر 1990ء تک خانہ شماری کا کام مکمل ہو چکا تھا اور اس کے آخری مرحلے میں یکم مارچ 91ء سے افرادِ خانہ کو شمار کیا جانا تھا لیکن خانہ شماری کی بنیاد پر لگائے گئے تخمینوں سے جو نقشہ مرتب ہوا وہ سیاسی لحاظ سے اتنا خوفناک اور اس قدر ناقابلِ قبول تھا کہ اس وقت کی لیگی حکومت کے پاس مردم شماری کے عمل کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔ سندھ میں پہلے 1972ء میں کی جانے والی مردم شماری میں بڑے پیمانے پر جعلسازی کی گئی اور پھر 1981ء میں اس سے بھی زیادہ جعلسازی کی گئی۔ ان جعل سازیوں کا مقصد سیاسی فوائد بٹورنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ 1998ء میں جب ملک کی پانچویں مردم شماری کرائی گئی تو پیپلز پارٹی سے بیک ڈور چلنے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے کے تحت مسلم لیگی رہنما سرتاج عزیز نے ایک پریس کانفرنس میں پہلے ہی واضح کر دیا کہ اس مردم شماری کا انتخابی حلقہ بندیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا اور آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے ملک میں کسی قسم کی نئی انتخابی حلقہ بندی نہیں کی جائے گی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی طرف سے یہ جمہوریت کے بنیادی اصول کی نفی تھی۔
چھٹی مردم شماری کیلئے اپریل 2011ء میں ابتدائی کام کرتے ہوئے پہلے خانہ شماری کرائی گئی اور جب ستمبر میں مردم شماری کا مرحلہ آیا تو اس وقت کی حکومت نے اس کام سے اُسی طرح ہاتھ کھینچ لیا جیسے1991ء میں لیگی حکومت نے کھینچا تھا۔ اس کی اصل وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مذکورہ دونوں سیاسی خاندانوں کا اندر خانے پنجاب اور سندھ میں اپنی اپنی سیاسی اجارہ داری برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک خاموش معاہدہ تھا۔ نیز سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کی خانہ شماری کے اعداد و شمارنے حکومت کو ایک مرتبہ بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ واضح رہے کہ 1977ء میں ضیا مارشل لاء کے بعد بھٹو دور کے سیکرٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے تحریری طور پر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو‘ جو تقریباً 65 لاکھ تھی‘ اُس وقت کی حکومت کے مجبور کرنے پر 35 لاکھ ظاہر کیا تھا، یہ جعلسازی اس لیے کرائی گئی تھی تاکہ کراچی کی صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں محدود رکھی جائیں۔ اُس وقت کے بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات کے مطابق کراچی کی آبادی میں چھ فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا تھا اور اقوام متحدہ کے جائزوں اور پلاننگ کمیشن کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی دیہی آبادی دس سال میں 30 سے 35 فیصد جبکہ شہری آبادی 50 سے 60 فیصد بڑھتی ہے۔ اس طرح اگست 1972ء میں کرائی جانے والی مردم شماری میں بدین کی آبادی میں 364 فیصد، کندھ کوٹ میں 155 فیصد، سکرنڈ میں 200 فیصد، گھوٹکی میں 177 فیصد، دادو میں 148 فیصد، ٹھٹھہ میں 70 فیصد، ہالہ میں 99 فیصداور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں 72 فیصد اضافہ دکھا کر تمام بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ کراچی کی آبادی‘ جو اس وقت کے تخمینوں کے مطابق 65 نہیں بلکہ 75 لاکھ ہونی چاہئے تھی‘ کو بھٹو حکومت کے کہنے پر سیکرٹری داخلہ نے صرف 35 لاکھ 15 ہزار تک محدود کر دیا۔
مردم شماری کے حقیقی نتائج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ''سیا سی توازن‘‘ کا بدل جانا ہے۔ اسی لیے حکومتیں نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے پر یقین رکھتی ہیں۔ ایک مثال سامنے رکھ لیں، 1972ء کی مردم شماری میں سکھر کی آبادی 50 لاکھ 95 ہزار اور حیدر آباد کی 54 لاکھ 54 ہزار ظاہر کی گئی‘ جبکہ کراچی ڈویژن‘ جو سب سے زیادہ گنجان آباد تھا‘ حیرت انگیز طور پر اس کی آبادی سکھر اور حیدر آباد سے بھی کم دکھائی گئی۔1981ء میں کرائی گئی مردم شماری میں نوشہرو فیروز کی آبادی میں 771 فیصد، لاڑکانہ میں 397 فیصد، جیکب آباد میں 288 فیصد، شکارپور اور دادو میں بالترتیب 272 اور 357 فیصد اضافہ دکھایا گیا لیکن حیران کن طور پر کراچی کی آبادی میں صرف 89 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔ اگر یہ روایت برقرار رہتی ہے اور کراچی کو اس بار بھی اس کا حقیقی حق نہیں ملتا تو یہ معاملہ کافی شدت اختیار کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں