9مئی کو پاکستان کے اور میرے ہیرو کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر)کی یادگار کی جس طرح چند شر پسندوں نے بے حرمتی کی‘ ان منا ظر کا دکھ اور تکلیف ایک زہر آلود خنجرکی صورت میں میرے وجود میں پیوست ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دکھ‘ اس تکلیف اور اس شرمناک منظر کو شاید عمر بھر نہ بھلا سکوں۔ کیپٹن کر نل شیر خان شہید نے 29اکتو بر 1994ء میں پاک فو ج کی انفنٹری بٹالین میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا۔1999ء میں کارگل کے محاذ پر 18400فٹ کی بلند چوٹیوں پر کیپٹن کر نل شیر خان نے محض چند ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کی کمین گا ہ پر حملہ کیااور دشمن کوواصلِ جہنم کیا اوراس دوران جام ِ شہادت نوش کر گئے۔اْن کی بہادری کے اعتر اف میں حکومت ِ پاکستان نے انہیں بہادری کے اعلیٰ ترین فو جی اعزاز نشانِ حید ر سے نوازا۔یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید صوبہ خیبر پختونخوا کے واحد سپو ت ہیں جنھیں نشانِ حید ر کے اعزاز سے نوا ز ا گیا۔یہ بات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری کی قدر کی جانی چاہیے۔کیپٹن کرنل شیر خان وہ پاکستانی فوجی ہیں جن کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیاتھا۔یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ شہید کی موت قوم کی حیات بن جاتی ہے کیونکہ وہ وطن جس کیلئے اس شہید نے خود کو قربان کیا ہوتا ہے‘ اس وطن میں رہنے والوں کی عزت و ناموس کے لیے اپنی جان کی قربانی‘ اپنے ارمانوں کی قربانی‘ اپنے ماں باپ کی گہرے سمندروں جیسی محبت اور شفقت کی قربانی‘ اپنی اولاد کی مسکراہٹ اور جسم کے ٹکڑے کی حیثیت رکھنے والے وجودسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جانے کی قربانی کوئی معمولی بات نہیں۔ اگر اس زندگی کا‘ اپنے ارد گر دکے لوگوں کی کمی کا اور ان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وچھوڑے کے دکھ کا احساس کرنا ہے‘ اگر یہ دیکھنا ہے کہ بچھڑنے کاکتنا دکھ ہوتا ہے اور جب ایک طرف بھر پور زندگی ہو اور دوسری جانب دشمن‘ کسی غدار اور دہشت گرد کی گولی کا اپنے جسم سے فاصلہ سامنے ہو تو ایسے لوگ جو پیار محبت کے تمام سوتوں کو اس گولی پر قربان کر دیتے ہیں‘ ان کی کیفیت کا اندازہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب یہ امتحان ہوتا ہے۔
9 مئی کو کچھ لوگ یومِ سیاہ کا نام دے رہے تو کچھ اسے یو مِ ندامت سمجھتے ہیں لیکن میں اس دن اور اس دن ہونے والے تمام واقعات سے اس قدر دکھ محسوس کر رہا ہوں کہ میرا وجود اسے قبول کرنے اور ہضم کرنے کو تیار ہی نہیں ہو رہا۔ شہیدانِ وطن کی یاد گاروں اور فوجی چھائونیوں کے باہر ان کے لگائے گئے وہ مجسمے‘ جنہیں اس قوم کی بیٹے ہمیشہ آتے جاتے ہوئے سلیوٹ کیا کرتے تھے‘ جنہیں دیکھ کر وطن پر مر مٹنے کا جذبہ اس ملک کی نئی نسل کی رگوں میں جوش مارنے لگتا تھا‘ ان کی جس طرح بے حرمتی کی گئی وہ دل دہلا دینے والے مناظر وطن کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہمارے بدنوں کو کرچی کر چی کر گئی ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی ان شہدا کی روحوں سے یہ قوم کس طرح معافی مانگے گی۔ روزِ محشر کس منہ سے ان کے سامنے کھڑی ہو سکے گی۔ وطن کے یہ سجیلے جوان‘ جنہیں دیکھ کر مائیں ان کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی تھیں‘ ان جوانوں کی بہادری اور سرفروشی کی داستانیں سناتی ہوئی یہ یادگاریں اس وطن کی عظمت اور شجاعت کی پہچان تھیں‘ انہیں جن بد بخت ہاتھوں نے گرایا وہ ہاتھ اپنے نبی ﷺاور رب کریم کی بارگاہ میں اگر ساری عمر رو رو کر معافی مانگیں تو شاید پھر بھی ان کی دعائیں قبول نہ ہوں کیونکہ ان شہدا نے‘ ان دلیر جوانوں نے اسی وطن میں بسنے والے‘ اسی وطن میں اپنی اولاد اور خاندانوں کیساتھ عزت و احترام سے زندگی گزارنے والوں کے لیے اپنا آپ قربان کیا‘ اپنے بچوں کو یتیمی اور اپنی بیویوں بیوگی کا سہر ادیا اور اپنے ماں باپ کو دن اور رات کے چین اور خود کو اپنے چند‘ ماہ چند سال کے لال کو دیکھنے‘ انہیں اپنی گود میں لینے‘ اپنے سینے سے لپٹانے سے محروم کیا۔ ان کی قربانیاں تو رہتی دنیا تک چکائی نہیں جا سکتیں ۔ لاہور‘ کراچی‘ پشاور‘ بنوں اور ملک کے دوسرے اہم شہروں میانوالی اور فیصل آباد کے وحشیانہ منا ظر انسانی طبیعت اور پاکستان کی سوچ اور محبت رکھنے والوں کے وجود پر اس قدر گراں گزر رہے ہیں کہ الفاظ انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں‘ لیکن ایک بات جو مجھ جیسے نہ جانے کتنے پاکستانیوں کو نہ جانے کیوں ہضم نہیں ہو رہی اور یہ سوچ ایک سوال بن کر بار بار زبان پر آ جا تی ہے کہ '' اگر فیصل آباد میں حکومتی عمائدین کا گھر بچانے کے لیے ان کی راہ میں پولیس کے دستے ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے تھے تو پھر لاہور میں جناح ہاؤس ‘ پشاور میں ریڈیو سٹیشن اور راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے سامنے پولیس اور پیر ا ملٹری فورس کے دستے کیوں استعمال نہیں کیے گئے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر لوگ پوچھتے ہیں لیکن کسی کے پاس اس سوال‘ اس تشویش‘ اس وسوسے کا کوئی جواب نہیں کیونکہ ہم بھی ان کی طرح سوچ ہی سکتے ہیں‘ اپنے آپ سے سوال ہی کر سکتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ اس کا جواب کوئی ذمہ دار ہی دے سکتا ہے یا کوئی ایسی شفاف انکوائری یا کوئی ایسا آزاد جوڈیشل سسٹم ہی بتائے گا کہ ایسا کیوں نہیں کیا جا سکا؟کیا کسی سیا سی جماعت کے لیڈر کا گھر مسلح افواج کی شان سے زیادہ اہم ہو سکتا ہے؟
9 مئی کی آڑ میں اگر کوئی سیا سی مخالفین سے انتقام لے گا یا اس سانحہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مقبولیت بحال کرے گاتو یہ عمل اس موقع سے سیا سی فائدہ اٹھانے کی کوشش سمجھا جائے گا۔ جو بھی مجرم ہیں‘ جنہوں نے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی ہے‘ انہیں عبرت کی مثال ضرور بنایا جائے لیکن جس طرح گجرات میں مدثر نامی ایک شخص‘ جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں‘ اس کا نام بھی دہشت گردی کی ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے‘ اس قسم کے طریقوں اور جھوٹے مقدمات سے شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اس لیے انصاف کیجئے۔ اس سانحہ کے نام پر اپنا سیا سی ایجنڈہ پورا نہ کیجئے۔ سمجھ لیجئے ایک گندی مچھلی مقدمات کے پورے عمل کو مشکوک بنا دے گی۔ رہی پاک فوج سے دلی محبت اور عقیدت کی بات تو یہ راز وطن کے سجیلے جوانوں اور رکھوالوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قوم ان سے اَن مٹ محبت کرتی ہے۔
قوم آج ایک بار پھر اعتماد اور اتفاق کی زنجیر کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کے ہر حصے میں‘ ہر کونے میں‘ ہر صحن میں سیا سی انتشار کی آگ بھڑک رہی ہے‘ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو قوم اپنی قسمت عالمی ساہوکاروں کے ہاں گروی رکھ دے‘ وہ قوم ایک آزاد اور با وقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ ان عالمی ساہوکاروں کے مالک‘ ان کے گاڈ فادر امریکہ کی دن بدن بکھرتی ہوئی وحدانیت پر معنی خیز اور پر اسرار خاموشی اگر ملک کے تھنک ٹینک اور با خبر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی تو پھر ڈراپ سین کیلئے تیار رہئے۔ یاد رکھئے کہ امریکی بہت لمبی سوچتے ہیں‘ اگر موقع ملے تو انتقام اور غصے کو ایک طرف رکھ کر سوچئے گا کہ اس سارے کھیل کا اصل ہدایت کار کون ہے؟