ہر سیاسی جماعت اپنی حکومت کے آخری ایام میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرکے پھر سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے۔ موجودہ حکومت بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ حکومت کی طرف سے ملک کی نوجوان نسل کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں دس ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس کے تحت ایک لاکھ طلبہ میں لیپ ٹاپس تقسیم کیے جائیں گے اور اس سکیم کے تحت آج کل طلبہ میں لیپ ٹاپس کی تقسیم کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اس حکومت کو ساٹھ سال تک اپنی خدمات اس ملک و قوم کیلئے وقف کرنے والوں کیلئے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے بھاری کیوں لگ رہے ہیں؟ محض سیا سی مقاصد کیلئے اربوں روپے لاہور میں اورنج ٹرین پر خرچ کر دیے گئے اور اب بھی اس منصوبے کو ماہانہ تقریباً دو ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے لیکن اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہونے والے قوم کے بوڑھوں کی زندگیاں آسان کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ شنید ہے کہ کھڈیاں میں ایک سیاسی جلسے کے لیے ایک کسان صفدر کی محنت پلک جھپکتے تہس نہس کر کے رکھ دی گئی لیکن یہ نہ سوچا کہ یہ بے چارہ کسان اب سال بھر کیا کرے گا‘ اس نے تو ابھی بہت سے لوگوں کو اپنی فصل اگانے کیلئے لیا گیا قرضہ بھی واپس کرنا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے صفدر کو قرض دیا تھا‘ اس کی فصل کو اجڑتا ہوا دیکھنے کے بعد اس کے گھر پر مدت پوری ہونے سے پہلے ہی چکر لگانا شروع ہو گئے ہیں ۔کیا حکومت کے پاس ایسے مجبور کسانوں کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے؟ اس ضمن میں حال ہی میں گرین پاکستان انیشی ایٹو پروگرام کا ڈول ڈالا گیا ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ منصوبہ زرعی شعبے اور کسانوں کی زندگیوں میں کس قدر تبدیلی لا پاتا ہے۔
وطنِ عزیز میں سرکاری ملازمین کی مدتِ ملازمت عموماً 25 سال ہوتی ہے لیکن اکثر افراد اپنے معاشی مسائل کے باعث نوکری کیلئے عمر کی آخری حد یعنی 60 سال کی عمر کو پہنچنے تک نوکری جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو یکمشت رقم ملازمین کو ملتی ہے اس سے عام طور پر بیٹیوں کی شادیاں یا گھر کی تعمیر جیسے عرصہ دراز سے ادھورے رہ جانے والے امور انجام دیے جاتے ہیں۔یوں معمر ریٹائرڈ حضرات کی گزر اوقات کیلئے وہ معمولی رقم ہی بچتی ہے جو انہیں بعد از ریٹائرمنٹ سرکار ماہانہ پنشن کے نام پر جاری کرتی ہے۔ یہ پنشن بالعموم آخری بنیادی تنخواہ کے نصف کے برابر ہوتی ہے۔ بنیادی تنخواہ سے مراد وہ رقم ہے جس میں کسی قسم کے الاؤنسز شامل نہیں ہوتے اور وہ اصل تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔ جس طرح پنشنرز کی رقم حفظ مراتب (پروٹوکول) کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوتی ہے‘ اسی طرح پنشنرز کے مسائل بھی ان کے عہدوں کی طرح مختلف نوعیت کے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کی ابتداء پنشنر کے اپنے اسی محکمے سے ہوتی ہے جس کی نذر مذکورہ پنشنر نے اپنی زندگی کی درجنوں بہاریں کی ہوتی ہیں‘ یعنی اس سرکاری ملازم کا اپنا محکمہ ہی اس کی پنشن کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔
یہ کیسا تضاد ہے کہ ایک طرف حکومت کے لیے بوڑھے پنشنرز بوجھ بن چکے ہیں تو دوسری طرف چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوانِ بالا کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل کس قدر آسانی سے پاس کروا لیا۔ ایوانِ بالا کے سابق اور مستقبل کے سربراہان کی مراعات میں اضافے کے لیے تینوں بلوں کی منظوری کے بعد‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ قانون سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا جیسے یہ رقم قومی خزانے سے نہیں بلکہ کسی اور ذریعے سے ادا کی جائے گی۔ اگر حکمرانوں کی یہ مراعات قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں تو پھر بوڑھے پنشنرز کی معمولی پنشن بوجھ کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ گوکہ اضافی مراعات کے بل کو چند ایک افراد کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اندرونِ خانہ یہ ان کی بھی شدید خواہش ہوگی کہ کسی طرح قومی اسمبلی سے بھی یہ بل منظور ہو جائے۔ دیگر مراعات کے علاوہ مجوزہ قانون میں سابق چیئرمینوں کے لیے کم از کم 10ملازمین پر مشتمل سکیورٹی عملہ‘ حکومت کی جانب سے ان کے گھریلو عملے کیساتھ ساتھ خاندان کے افراد کے سپانسر شدہ سفری انتظامات کی شقیں بھی شامل ہیں جبکہ نئے بل کے مطابق چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے دفاتر کے ماہانہ اخراجات 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ نے اس اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل کچن کے خرچ کے لیے پچاس ہزار روپے کیا ہے؟ یعنی ہمارے حکمران اور ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندے اس حقیقت سے تو بخوبی آگاہ ہیں کہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں پچاس ہزار سے بھی کچن نہیں چلتا لیکن دوسری طرف دیکھیں کہ غریب پنشنرز کی معمولی پنشن بھی انہیں چبھتی ہے۔
حکومت کے پاس لیپ ٹاپ سکیم کے لیے پیسے ہیں‘ اپنے اراکینِ اسمبلی کو اگلا الیکشن جتوانے کے لیے90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کے لیے پیسے ہیں‘ سینیٹ کے موجودہ اور سابق چیئرمینوں کو تاحیات مراعات دینے کے لیے پیسے ہیں‘ اگر پیسے نہیں ہیں تو بے چارے پنشنروں کیلئے نہیں ہیں‘ ان چھوٹے سرکاری ملازمین کے لیے نہیں ہیں جو لاہور میں سخت گرمی میں گزشتہ پانچ روز سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے یہ تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ان کی تکالیف کا اندازہ ایئر کنڈیشنڈ دفاتر‘ گھروں اور گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہم جیسے شہریوں‘ ہم سب کے اَن داتا اعلیٰ افسران اور صاحبانِ اقتدار کو شاید ہے ہی نہیں۔ جولائی کا گزشتہ ہفتہ انسانی تاریخ کا گرم ترین ہفتہ تھا لیکن حکمرانوں اور متعلقہ حکام کو سخت دھوپ میں بیٹھے ان ہم وطنوں کا کوئی احساس نہیں۔ یہ لوگ مانگ کیا رہے ہیں صرف یہی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا بڑھاپا اور ان کی موت کے بعد ان کے بچوں کی دو وقت کی روٹی کا اس وقت تک بند وبست ہو تا رہے جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت کے ملک بھر میں کسی بھی جگہ تعینات ملازمین کو اشیائے خور و نوش مہنگی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کو سستی مہیا کی جاتی ہیں؟ کیا صوبائی حکومتوں کے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو بیماری کی صورت میں ادویات سستی اور وفاقی ملازمین کو مہنگی دی جاتی ہیں؟ اگر ایسا نہیں اور بالکل ایسا نہیں ہے تو پھر ملک بھرکے ملازمین کیلئے تنخواہوں میں اضافہ ایک جیسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟یہی سوال پنجاب حکومت کے یہ ملازمین لے کر دھرنا دیے بیٹھے ہیں کہ ان کی اوروفاقی ملازمین کی پنشن اور مراعات میں ایک جیسا اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟
دوسری طرف جیلوں میں سڑنے والے بے گناہوں کے لیے بھی کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ عدلِ جہانگیر نہ جانے کن کتابوں اور خیالوں میں کھو چکا ہے۔ ملک میں حضرت عمرؓ کے عدل کی باتیں نہ جانے کب سے سن رہے تھے لیکن وعظ کرنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی آگے بڑھ کر ان بے بسوں‘ بے کسوں اور مظلوموں کیلئے آواز اٹھائی ہے‘ کسی کے سامنے دہائی دی ہے؟ اتنا بے بس اور کمزور نظام نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔