ابھی ہردیپ سنگھ نجر کے کینیڈا میں بہیمانہ قتل کی بازگشت ہی گونج رہی تھی کہ بھارت نے خالصتان موومنٹ کے ایک اور متحرک رکن کو کینیڈا میں بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے دنیا کے ہر ملک کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ جب چاہے‘ جہاں چاہے متعلقہ ملکوں کے قانون اور قاعدے کو اپنے پائوں تلے روند سکتا ہے۔ G20 کانفرنس میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے احتجاج، نریندر مودی کو بھارتی ایجنسیوں کی کینیڈا میں کارروائیوں اور بعد ازاں کینیڈا کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بھارت مخالف بیانات سے دونوں ملکوں میں سفارتکاروں کی بیدخلی اور تند و تیز بیانات اور ویزا سروس بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اسی دوران بھارت نے ایک اور سرگرم سکھ کارکن کو قتل کرا دیا جیسے اسے کسی کی پروا ہی نہ ہو۔ یہ مودی سرکار کے تکبر اور غرور کی انتہا ہے۔ شاید بھارت سمجھ بیٹھا ہے کہ جب امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک اس کے پیچھے کھڑے ہیں تو کینیڈا ان کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے مگر وہ یہ بھول رہا ہے کہ کینیڈا کوئی عام ملک نہیں بلکہ امریکہ کا ہمسایہ ہے، اس کی وجہ سے امریکی سرحدمحفوظ ہے۔ امریکہ کبھی بھی کینیڈا جیسے اتحادی کو کھونا نہیں چاہے گا۔ دوسری جانب کینیڈا کے وزیراعظم کے بیان سے ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ماد رپدر آزاد ہو چکی ہیں اور ان کیلئے دوسرے ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کرانا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ اس سے قبل یہ الزام بھارت کے ہمسایہ ممالک ہی لگایا کرتے تھے مگر اب تو یہ بات سات سمندر پار سے کینیڈا نے کی ہے۔
سٹیورٹ بیل (Stuart Bell) جیسے مایہ ناز دانشور کی معاشیات، سیاست، عالمی معاملات اور دفاع پر تحقیقاتی رپورٹس انتہائی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ چند برس پہلے ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ان کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے کینیڈا سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ سٹیورٹ بیل کی رپورٹ نے کینیڈا کے میڈیا اور سیاسی حلقوں سمیت سکیورٹی اداروں کو بھی لرزا کر رکھ دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اس قدر دیدہ دلیر ہو چکی ہیں کہ وہ کینیڈا کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگی ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کینیڈا کے سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کے افسران نے دو ایسے اشخاص کی نشاندہی کی جن میں سے ایک کا تعلق بھارت کی آئی بی اور دوسرے کا ''را‘‘ سے تھا اور جنہوں نے ایک بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہوئے اسے مالی ترغیب سے کینیڈا کے کچھ سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملانے کا ٹاسک دیا تھا تاکہ وہ کینیڈا میں بھارتی مفادات کو آگے بڑھانے کا کام کر سکیں۔ اس کام کے لیے اس چیف ایڈیٹر کو بھی ایک بھاری رقم دی گئی تھی جس کی کینیڈین خفیہ ایجنسیوں کو خبر ہو گئی تھی۔ اس چیف ایڈیٹر کی 'را‘ اور آئی بی کے افسران سے ہونے والی ملاقاتیں شاید کینیڈین حکام کی نظروں میں نہ آتیں لیکن مذکورہ ایڈیٹر کچھ عرصہ سے کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں کے زیر نگرانی تھا اس لیے جیسے ہی اس کی ان دو اشخاص سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں شروع ہوئیں تو اس کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی۔ بعد ازاں بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر کو بلا کر اس سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو پہلے اس نے سرے سے انکار کر دیا کہ اسے بھارت کے کسی ادارے نے یا کسی ایجنٹ نے کوئی خفیہ ٹاسک دیا ہے لیکن آخرکار اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ ان دونوں افراد سے‘ جن سے متعلق اس کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں جانتا کہ ان کا تعلق بھارت کے کن اداروں سے ہے‘ چند بار ملا ہے لیکن وہ بھی ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے۔ جب اس کے سامنے ملاقاتوں کا ریکارڈ اور چند دیگر تفصیلات رکھی گئیں تو اس کے ہوش اڑ گئے کیونکہ کینیڈین اداروں کے مطابق اس کی بھارتی اہلکاروں سے چند ایک نہیں بلکہ 25 سے زائد ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔
ایڈیٹر صاحب سے تفتیش کا دائرہ وسیع ہوا تو کینیڈین اتھارٹی یہ جان کر حیران رہ گئی کہ بھارت کینیڈا میں خالصتان موومنٹ کے خلاف عوامی اور سماجی حلقوں میں ناپسندیدگی اور نفرت انگیز جذبات بھڑکانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مقامی اور غیر مقامی لوگوں میں لاکھوں ڈالر تقسیم کر رہا تھا۔ چیف ایڈیٹر نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں کینیڈا میں مقیم سکھوں کی نئی نسل کو جعلی قسم کے واقعات گھڑ کر خالصتان موومنٹ اور پاکستان کے خلاف ابھارتی ہیں۔ ''گلوبل نیوز‘‘ پر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے مطابق بھارت کافی عرصے سے کینیڈین سیاستدانوں کو خریدنے کے لیے مالی پیشکشیں کرتا چلا آ رہا تھا اور 'را‘ اور آئی بی کے اہلکار کینیڈین سیاستدانوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو خریدنے کا سلسلہ 2009ء سے شروع کیے ہوئے تھے اور اُس وقت تک کروڑوں ڈالر اس مد میں خرچ کر چکے تھے۔ کینیڈا کے سیاسی نظام میں بھارتی مداخلت کی یہ رپورٹ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ کینیڈا کی فیڈرل کورٹ میں سکیورٹی انٹیلی جنس سروس برائے جاسوسی نے اس ''Aledged foreign operation‘‘ کو بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر کے خلاف فردِ جرم میں بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ حساس قسم کی معلومات کی وجہ سے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے نام کورٹ کے سامنے بتانے سے اجتناب کیا گیا اور ان دونوں کی جگہ ''مسٹر اے‘‘ اور ''مسٹر بی‘‘ کا حوالہ دیا گیا۔ بعد ازاں اس ایڈیٹر نے چھ برسوں میں متعلقہ اہلکاروں سے 25 ملاقاتوں کا اعتراف کر لیا۔ ان میں سے اکثر ملاقاتیں 2015ء کے شروع میں ہوئی تھیں۔
امیگریشن افسران کی جانب سے ایڈیٹر کو خط کی صورت میں بھی سوالات بھیجے گئے۔ ایک سوال نامے میں پوچھا گیا کہ ''تم نے اقرار کیا کہ انڈین 'را‘ کے افسران نے ملاقات میں اس امر کا ٹاسک دیا کہ تم خفیہ طور پر کینیڈا کے حکومتی ذمہ داروں اور سیاستدانوں پر بھارتی مفادات کے لیے اثر انداز ہونے کی کوشش کرو؟ دوسرا سوال پوچھا گیا کہ تم نے تسلیم کیا ہے کہ تمہیں کہا گیا کہ ''Random Caucasians‘‘ (لاابالی اور بکائو قسم کے) سیاستدانوں اور اراکنِ پالیمنٹ سے رابطے کر کے انہیں مالی پیشکش کرتے ہوئے بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے کی ترغیب دو۔ تیسرا سوال تھا ''تم نے تسلیم کیا ہے کہ RAW کی جانب سے تمہاری رہنمائی کرنے کے علاوہ تمہیں کیش اور پروپیگنڈا کے لیے مواد بھی مہیا کیا جاتا رہا تاکہ مطلوبہ سیاستدانوں کو اپنے زیرِ اثر لانے میں آسانی ہو۔ 30 مئی 2018ء کو امیگریشن حکام کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ تمہیں یہ ٹاسک بھی دیا گیا کہ تم کینیڈین سیاستدانوں کو قائل کرو کہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والی بھاری رقوم کینیڈا سے پاکستان بھیجی جا رہی ہیں۔
مشہورکینیڈین دانشور اور پروفیسر سٹیفنی کارون (Stephanie Carvin) نے فیڈرل کورٹ کی ابتدائی کارروائی پرکہا کہ یہ مقدمہ اس بنا پر غیر معمولی ہے کہ انڈیا کینیڈین سیاستدانوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہو چکا ہے جو کینیڈین عوام کے لیے بھی باعثِ شرم ہے۔ کینیڈا کے سکول آف انٹرنیشنل افیئر کی ایکسپرٹ نارمن پیٹرسن نے کہا کہ جب خفیہ دستاویزات کے حوالے سے کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر بل بلیئر (Bill Blair) سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈین ایجنٹس اور ایڈیٹر کے بارے میں مزید کچھ بتانے سے احتراز کیا لیکن جب ان کے محکمے کے تحفظات بارے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے میں کسی دوسرے ملک کی نجی و قومی سلامتی کے معاملات میں مداخلت پر تحفظات اور تشویش ایک یقینی بات ہے۔ واضح رہے کہ بل بلیئر اِس وقت کینیڈا کے وزیر دفاع ہیں۔ بطور پبلک سیفٹی منسٹر ان کے دفتر کی جانب سے اس واضح وضاحت کے بعد ثابت ہو گیا تھا کہ بھارت کینیڈا میں اپنا انٹیلی جنس اور سلیپر سیل گروپ مضبوط کرتا چلا آ رہا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کے لیے کینیڈا جیسے ملک میں اپنے کسی مخالف کو غائب یا قتل کرانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔