زرِمبادلہ کے ذخائر کیا بڑھے‘ بھارت آپے ہی سے باہر ہوا جا رہا ہے۔ بھارتی سفارتکاروں اور سیاستدانوں کو جہاں بھی موقع ملتا ہے‘ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لگتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک بھارتی وزیر نے کہا ہے کہ پاکستان نے برصغیر کی تقسیم کے وقت اثاثوں کی تقسیم کے ضمن میں بھارت کو تین سو کروڑ روپے کی ادائیگیاں کرنا تھیں لیکن ہمارے بار بار کے تقاضوں کے باوجود پاکستان ان بقایا جات کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ جب برصغیر تقسیم ہوا تھا تو پاکستان کے علاقے میں جو بھارت کے اثاثہ جات تھے ان کی تقسیم کی مد میں اب بھی پاکستان سے 300 کروڑ روپے کی ادائیگی باقی ہے لیکن بھارت دوستی اور امن پسندی کی بنیاد پر اس معاملے کو طول نہیں دے رہا۔ موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اپنے واجبات پر سود کامطالبہ نہیں کر رہا، اگر اس رقم پر پچھلے 75 برسوں کا سود در سود بھی جمع کیا جائے تو یہ رقم اربوں ڈالر بن جاتی ہے لیکن بھارت پاکستان سے صرف اپنی اصل رقم ہی کا تقاضا کر رہا ہے۔ حقائق کی روشنی میں بھارت کے اس دعوے کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی محاورہ صادق آتا ہے: الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بنیا سود پہلے مانگتا ہے اور اصل زر بعد میں۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان نے نقد اثاثوں کی صورت میں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں اپنے حصے کے اثاثہ جات آج بھی بھارت سے وصول کرنا ہیں جو وہ دینے سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ تقسیم کے فوری بعد کی بات ہے اور ریکارڈ پر ہے کہ جب وزارتی سطح پر نہرو حکومت نے بات سننے سے انکار کیا تو قائداعظم محمد علی جناح نے براہ راست موہن داس گاندھی سے بات کی اور پھر گاندھی نے پاکستان کو پیسوں کی عدم ادائیگی پر مرن بھرت رکھا۔ یہ قصہ ہے 12 جنوری 1948ء کا۔ نہرو حکومت بالخصوص ولبھ بھائی پٹیل جیسے متعصب لیڈر نے کشمر کے مسئلے پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے پاکستان کے اثاثوں کی منتقلی بند کر دی تھی۔
''پاک بھارت تنازع اور مسئلہ کشمیر کا آغاز‘‘ از زاہد چودھری کے مطابق: 'قیام پاکستان سے پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کی کرنسی 31 مارچ 1948ء تک مشترکہ رہے گی۔ اس کے بعد پاکستان چھ مہینے کے اندر مروجہ کرنسی کی جگہ اپنی کرنسی رائج کرے گا۔ گویا 30 ستمبر 1948ء تک پاکستان میں وہی کرنسی چلتی رہے گی جو تقسیم سے پہلے ہندوستان میں رائج تھی۔جب یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت حکومتِ ہند کے پاس تقریباً چار ارب روپے کے اثاثے موجود تھے۔ پاکستان کے نمائندوں کا مطالبہ یہ تھا کہ انہیں مشرقی و مغربی پاکستان کی آبادی، رقبے اور دوسرے ذرائع کا لحاظ کرتے ہوئے اس رقم کا کم از کم پچیس فیصد حصہ دیا جائے لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے قطعی انکار کر دیا اور صرف 20 کروڑ روپے کی فوری ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی۔ حکومت پاکستان نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کا تنازع ثالثی ٹریبونل کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ 9 دسمبر 1947ء کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دہلی میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد اور بھارتی وفد کی قیادت وزیر داخلہ سردار پٹیل نے کی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر یہ فیصلہ ہوا کہ متحدہ ہندوستان کے پاس جو چار ارب روپے کے اثاثے ہیں، ان میں سے پاکستان کو 17.33 فیصد حصہ یعنی 75 کروڑ روپے ملیں گے‘‘۔ واضح رہے کہ متحدہ پاکستان ہندوستان کے کل رقبے کا لگ بھگ ایک تہائی تھا جبکہ اس کو اس کے حصے کا نصف یعنی 17 فیصد دینے کا غیر منطقی و غیر منصفانہ فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان کو 20 کروڑ روپے پہلے ہی مل چکے تھے جبکہ 55 کروڑ روپے کی ادائیگی باقی تھی مگر ولبھ بھائی پٹیل اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ پاکستان کے انگریزی جریدے کے 20 جنوری 1948ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ''پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کے جن رہنماؤں نے ہندوستان کی تقسیم کو خلوصِ دل سے قبول نہیں کیا وہ پاکستان کے قیام کے روز اول سے اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ان رہنماؤں کے سرخیل سردار پٹیل ہیں جن کی زبردست خواہش ہے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو‘‘۔
آزادی کے وقت اثاثے کیسے تقسیم ہوئے، پاکستان کو اس کے جائز اور طے شدہ حصوں میں سے کیا ملا، یہ سب کچھ برطانوی حکومت کے ریکارڈ میں بھی درج ہے لیکن شاید بھارت کی وزارتِ خزانہ یہ سب دیکھنے سے اس لیے کتراتی ہے کہ اسے لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی مودی سرکار جو آج اپنے قومی خزانے کے ارب ہا ڈالرز کے زرمبادلہ پر اتراتی پھر رہی ہے‘ آج بھی پاکستان کا قرض اتارنے سے گریزاں کیوں ہے؟ یہ تنازع محض پیسوں تک محدود نہیں تھا۔ قبل ازیں 8 نومبر 1947ء کو ہندوستان کی جائنٹ ڈیفنس کونسل کا چودھواں اجلاس دہلی میں منعقد ہوا تھا جس میں دولت مشترکہ کے امور کے سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس ٹیلیگرام پر غور کیا گیا جس کے مطابق ہندوستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے شہنشاہِ معظم نے ہندوستان سے تمام برطانوی فوجی اور سول افسران کو واپس بلانے کافیصلہ کیا اور کہا گیا کہ 30 نومبر 1947ء سے ہندوستان میں انگریز فوج کے سپریم کمانڈر کا دفتر بند کر دیا جائے گا۔ برٹش انڈیا فوج کے سپریم کمانڈر آفس کے ختم کرنے کیلئے 30 نومبر کی تاریخ دی گئی جس پر پاکستان نے اپنے حصے کے دفاعی اور فوجی سامان کا مطالبہ کیا تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے یقین دہائی کرائی کہ بھارتی کابینہ نے اس بات کی متفقہ منظوری دیدی ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے تمام اثاثہ جات مع فوجی ساز و سامان اس کے حوالے کر دیے جائیں، اس لیے پاکستان کو بھارتی کابینہ کی یقین دہانی اور گارنٹی پر مطمئن رہنا چاہیے۔
ہندوستان میں اسلحہ سازی، گولہ بارود اور فوج کے استعمال کی تمام اشیا بشمول جوتے وغیرہ تیار کرنے والی آرڈیننس فیکٹریاں کی تعداد انیس تھی۔ اثاثوں کی تقسیم کے معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ فوجی ساز و سامان میں پاکستان کا حصہ متحدہ ہندوستان کے موجودہ سٹاک کا ایک تہائی ہو گا۔ ہر فوج میں یہ اصول ہوتا ہے کہ اسلحہ اور ایمونیشن تیار کرنے والی فیکٹریوں میں تیار کر دہ اسلحہ اور گولہ بارود ملک بھر میں پھیلی ہوئی متعلقہ یونٹوں میں تقسیم ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں 1946ء سے ہی کانگریس نے ایسا بندوبست کرنا شروع کر دیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں تیار ہونے والا اسلحہ اور گولہ بارود ان علا قوں‘ جن کے متعلق کانگریس کو یقین تھا کہ یہ پاکستان کے حصے میں آئیں گے‘ میں بھیجنا بند کر دیا گیا تھا اور اس سازش میں انگریز فوجی افسران بھی برابر کے شریک تھے۔ اس کا ایک دستاویزی ثبوت ہندوستان کے ڈپٹی سیکرٹری ڈیفنس ونگ کمانڈر ملر اے ہائیس کا 31 اکتوبر 1947ء کو سیکرٹری ڈیفنس کو لکھا جانے والا خط ہے جس میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ مارچ 1946ء سے عسکری فیکٹریوں میں تیار ہونے والا اسلحہ اور ایمونیشن ان اسلحہ ڈپوئوں میں نہیں بھیجا گیا جو آج پاکستان کی حدود میں واقع ہیں۔ اس نے اپنے خط میں کہا کہ میں نے برٹش وزارتِ دفاع کا تمام ریکارڈ چیک کیا ہے اس میں پاکستانی علاقوں میں ترسیل روکنے یا منقطع کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ یہ خط آج بھی برطانوی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ بھارت کے سفارتکار دنیا میں جہاں بھی بیٹھتے ہیں‘ بھارت کی دریا دلی اور امن کی کہانیاں بیان کرتے ہیں اور پاکستان کی طرف سے واجب الادا تین سو کروڑ روپوں کی فرضی کہانیاں سناتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ جنوری 1948ء سے ہی بھارتی حکومت نے اثاثوں کی تقسیم‘ جن میں فیکٹریاں، اسلحہ ڈپو، سونے کے ذخائر اور دیگر اثاثے شامل تھے، ہڑپ کا منصوبہ بنا لیا تھا ۔ اس بات کو آج 75 برس ہو چکے ہیں لیکن پاکستان کے اثاثے ہندوستان سے واپس نہیں آ سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ اب جبکہ بھارت ہر جگہ اپنی امارت کے قصے بیان کر رہا ہے‘ روایتی مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے اپنے تمام بقایا جات کا مطالبہ کیا جائے۔