"MABC" (space) message & send to 7575

’’مین آف دی میلینم‘‘

خدائے ذوالجلال کے فیصلے عجب اور سمجھ نہ آنے والے ہوتے ہیں۔ میں نے تو چند روز قبل ''خدائے ذوالجلال کے فیصلے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ کر صرف وسل بلوئنگ کی تھی لیکن ہوا یہ کہ رب کریم نے یہ صدا رب کے منتخب کردہ بندے کے ذہن میں اس طرح ڈال دی کہ اس نے اسے ہر اس آنکھ اور کان تک پہنچایا کہ جس نے رب کریم کے اس فرمان کو سچ کر دکھایا کہ ہم اپنے بندے کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتے ہیں جس کا اسے تصور بھی نہیں ہوتا۔ آٹھ یتیم بچوں کی کسمپرسی پڑھتے ہی اللہ کے دیے ہوئے دل اور اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی یتیم اور لاچاروں کی محبت اور احساس کے باعث ایک پودے سے اتنی شاخیں پھوٹنا شروع ہوئیں کہ خدائے بزرگ و برتر نے آٹھ یتیم بچوں‘ ایک بیوہ اور نوے سالہ بوڑھے سسر کے دکھوں اور تکلیفوں پر کچھ دیر کے لیے مرہم رکھ دی۔ اگر یہ سلسلہ ہر ماہ اسی طرح چلتا رہا تو ہو سکتا ہے کہ ان آٹھ یتیم بچوں میں سے کوئی ایک دن میری اس سچی کہانی کا ہیرو بن جائے۔
بھارت کی فلمی دنیا کا سپر سٹار رجنی کانت‘ جسے ایک نظر دیکھنے کے لیے پورا ہندوستان گھنٹوں انتظار میں کھڑا رہتا ہے‘ایک دن یہ ایک چھوٹے سے گھر کے باہر ننگے پاؤں ایک ریٹائرڈ لائبریرین اور عام سے ہوٹل کے ویٹر کے انتظار میں کھڑا دنیا کو حیران کر رہا تھا۔ رجنی کانت کے ساتھ میڈیا اور فلمی صنعت کی اہم ترین شخصیات بھی اس کا دیدار کرنے کے لیے وہاں موجود تھیں۔ رجنی کانت کی خواہش تھی کہ اس گھر میں رہنے والا شخص بطور باپ اسے اپنا لے اور وہ فخر سے دنیا کو کہہ سکے کہ سندرم جی اس کے پتا ہیں۔ رجنی کانت جس شخص کے گھر کے باہر کھڑا تھا‘ ان کا نام کلیان سندرم تھا جو بھارت کے ایک کالج میں لائبریرین تھا اور جس نے 35 برس کی نوکری میں ہر ماہ ملنے والی تنخواہ کا ایک پیسہ بھی اپنے آپ پر خرچ نہ کیا اور جونہی اسے تنخواہ ملتی اس کا کچھ حصہ وہ اس کالج میں پڑھنے والے غریب طلبہ کو دے دیتا اور باقی جو رقم اس کے پاس بچ رہتی‘ اسے غریبوں اور یتیم خانوں میں تقسیم کرتا۔ اپنی دو وقت کی روٹی اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ کالج سے چھٹی کے بعد ایک ہوٹل میں ویٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔ والدین کی طرف سے چھوڑا ہوا ایک چھوٹا سا گھر اس کی ملکیت تھا جس کے بارے میں اس نے وصیت کر رکھی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد یہ گھر بیچ کر اس کی رقم غریبوں میں بانٹ دی جائے اور ساتھ ہی اپنی وصیت میں اس نے یہ بھی لکھ دیا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی آنکھیں کسی مستحق کو عطیہ کر دی جائیں تاکہ وہ اس کے بعد دنیا کو دیکھ سکے اور اس کا جسم جلانے کے بجائے کسی میڈیکل کالج کو دے دیا جائے تاکہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اس کے جسم کو اپنے طبی مقاصد کی تعلیم کے لیے استعمال کر سکیں۔
1953ء میں پیدا ہونے والے کلیان کے والد اس کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے اور وہ اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا بچہ تھا جس نے اسے بچپن میں ہی یہ سبق دیا کہ اپنی ضروریات سمیٹ کر دوسروں کی جھولی بھرنے کی کوشش کیا کرو۔ کلیان شروع سے ہی دل لگا کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کی قابلیت اسے ہر امتحان میں اول پوزیشن دلاتی رہی۔ اس نے لائبریری سائنس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد انگلش لٹریچر اور تاریخ میں ایم اے کیا اور پھر بھارت کے کمار پورہ کالج میں بطور لائبریرین ملازمت اختیار کر لی۔ 35برس کی ملازمت کے بعد 1990ء میں جب ریٹائر ہوا تو اسے پندرہ لاکھ روپے پنشن فنڈ کی صورت میں ملے۔ اس نے پندرہ لاکھ روپے کی یہ پنشن اپنے پاس رکھنے کے بجائے تامل ناڈو میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کے اناج اور دیکھ بھال کے لیے دے دی اور دو وقت کی روٹی اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی ہوٹل میں بطور ویٹر نوکری کرتے ہوئے گزارہ کرنا شروع کر دیاجہاں وہ دورانِ ملازمت اپنی گزر بسر کے لیے نوکری کر رہا تھا۔حکومت نے جب اسے سال کے بہترین لائبریرین کا خطاب دیا تو اس کی تصاویر مشہور اخبارات میں شائع ہوئیں جس میں اس کی زندگی کے کچھ حالات بارے بھی مختصر سا تعارف کرایا گیا لیکن یہ تھوڑا لکھا ہی ہر طرف دھو م مچا گیا اور اس کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشے دور و نزدیک پھیلنا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت بھارت اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی اور اسے دنیا کے دس بہترین لائبریرین میں سے ایک منتخب کر لیا گیا۔کیمبرج یونیورسٹی کے انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سینٹر نے اسے ''One of the noblest man of the world‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ نے اسے ''One of the outstanding people of 20th century‘‘کا خطاب دیا اور ان دونوں اعزازات کیساتھ اسے 10کروڑ روپے بھی دیے لیکن اس نے یہ تمام رقم جھگیوں میں رہنے والوں کو سائیکل رکشہ خرید کر دینے کے لیے وقف کر دی تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ اب اس کی شہرت نجی ٹی وی چینلز سے ہوتی ہوئی بڑے بڑے اخبارات کی شہ سرخیوں میں تبدیل ہونے لگی۔ دنیا بھر کی این جی اوز نے اس سے رابطے شروع کر دیے لیکن اس کے باوجود اس نے ہوٹل میں ویٹر کی ملازمت نہ چھوڑی۔ جب اس کی شہرت چار سو پھیل گئی تو دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لیے اس ہوٹل میں آنے لگے جس سے اس ہوٹل کی آمدنی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گئی۔ لوگ اسے بڑھ چڑھ کر ٹپ دینے کی کوشش کرتے لیکن کسی سے ایک پیسہ بھی نہ لیتا بلکہ وہ سختی سے انکار کر دیتا۔ بڑے بڑے امیر گھروں سے لڑکے لڑکیاں اپنے خاندانوں سمیت اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اُمڈ پڑے۔ لوگ اس کے ہاتھ سے Serve کیا ہوا کھانا کھاتے ہوئے تصاویر بنانے کے لیے یہاں جوق در جوق آنا شروع ہو گئے جس سے گاہکوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ ہوٹل کی جگہ کم پڑ گئی اور مالک کواپنے ہوٹل کو توسیع دینے کیلئے ساتھ والی جگہ خریدنا پڑ گئی۔جب دنیا بھر کی این جی اوز کے بڑے بڑے عہدیدار اس کے پاس آنے لگے تو اس نے کسی کیساتھ کام کرنے کے بجائے اپنی رفاہی تنظیم کی بنیاد رکھ دی جو روز بروز پھیلنے لگی۔ امریکہ کی ایک فلاحی تنظیم نے بھارت آ کر اس کے حالاتِ زندگی اور انسانی فلاح کیلئے اس کی خدمات اور کوششوں پر ایک رپورٹ تیار کرنے کے بعد اسےMan of the Millennium کے خطاب سے نوازتے ہوئے اسے 30 کروڑ روپے کی رقم بطور اعزاز دی۔ کلیان سندرم نے یہ تیس کروڑ روپے غریبوں کیلئے سائیکل رکشہ اور اچھی تعلیم کی نذر کر دیے۔ اَنات بچے کی یہ کہانی بھی تو خدائے ذوالجلال کے فیصلے کا ہی ایک روشن چراغ ہے۔
پاکستان کی سسٹر زیف بھی بے لوثی کی عمدہ مثال ہیں۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی استاد رفعت عارف‘ جنہیں سسٹر زیف کے نام سے جانا جاتا ہے‘ کوچند روز قبل ہی یونیسکو کے گلوبل ٹیچر اعزاز سے نوازا گیا ہے۔گلوبل ٹیچر کا اعزاز ہر سال اس استاد کو دیا جاتا ہے جس نے نہ صرف تدریسی میدان میں بہترین کام کیا ہو بلکہ اس کے کام سے مقامی لوگوں کی زندگی میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہو۔سسٹر زیف نے 1997ء میں 13 سال کی عمر میں اپنے گھر کے صحن میں سکول کا آغاز کیا تھا جسے وہ روزانہ آٹھ گھنٹے محنت کر کے حاصل ہونے والی آمدن سے چلاتیں۔اپنے سکول میں وہ روزانہ چار گھنٹے پڑھاتیں اور رات کو خود پڑھتی تھیں۔ ان کی اس محنت کے عوض آج 26 سال بعد ان کا قائم کردہ فلاحی ادارہ گوجرانوالہ کے 11 دیہات میں تقریباً 200 لڑکیوں کو 12ویں جماعت تک مفت تعلیم دے رہا ہے۔گلوبل ٹیچر ایوارڈ جیتنے والے کو 10 لاکھ ڈالر کا انعام بھی دیا جاتا ہے۔انعام میں حاصل ہونے والی یہ رقم سسٹر زیف کو کئی برسوں بعد حاصل ہو گی اس دوران ان کی کار کردگی پر خاص نظر رکھی جائے گی‘تاہم وہ اس انعامی رقم سے 10 ایکڑ رقبے پر ایک سکول قائم کرنا چاہتی ہیں‘ جہاں ملک کے غریب ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کو کسی امتیاز کے بغیر معیاری تعلیم دی جائے گی۔خدا کرے کہ ان کے اندر بے لوثی کا یہ جذبہ ہمیشہ موجزن رہے اور وہ یونہی غریب غربا کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں