میزبانی کے آداب سے ناآشنا کسی شخص کو دیکھنا ہو تو 19 نومبر کی شام بھارت کے شہر احمد آباد میں کرکٹ ورلڈ کپ کے میزبان ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ احمد آباد کے اپنے نام سے موسوم یعنی نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ورلڈ کپ کے فائنل مقابلے میں میزبان بھارت کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتنے والی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمننر کو ٹرافی دینے کے بعد نریندر مودی رسماً ہاتھ ملانے اور کچھ گپ شپ کرنے کے بجائے منہ پھیر کر دوسری جانب چل دیے تھے۔ بھارتی وزیراعظم اور انتظامیہ کی یہ اخلاقی گراوٹ اور نخوت دنیا کے دیگر ملکوں کیلئے بھار تیوں کے ذہنوں اور دلوں میں بھری تضحیک اور منفی جذبات کو بھی عیاں کر گئی۔ کہنے کو یہ ایک سپورٹس ایونٹ تھا مگر یہ محض ایک چھوٹا سے واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم ذہنیت کا عکاس ہے۔ اسی حقیقت سے پاکستان گزشتہ پچھتر برسوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کی لگاتار کوششیں کرتا آ رہا ہے۔ 19 نومبر کی شام بھارت کے چہرے پر چڑھے اس نقاب کو اس کے اپنے وزیراعظم ہی نے نوچ کر الگ کر دیا اور بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا بھرکے سامنے اس طرح بے نقاب کر دیا کہ ہر تہذیب یافتہ ملک‘ معاشرے اور سوسائٹی پر عیاں ہو گیا کہ پاکستان بھارتی ذہنیت اور غیر ہندوئوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کی بابت اب تک جو بھی باتیں کرتا رہا ہے‘ وہ درست تھیں۔
بھارت کی اخلاقی گراوٹ کا اظہار محض اس ایک واقعے سے نہیں ہوتا بلکہ آسٹریلیا بمقابلہ بھارت‘ فائنل میچ میں آسٹریلیا کی جانب سے فاتحانہ اننگز کھیلنے والے کھلاڑی ٹریوس ہیڈ کو اس حد تک منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا کہ بھارت کی شکست کے بعد لاتعداد بھارتیوں نے ان پر اپنی بھڑاس نکالی اور کچھ نام نہاد فینز نے ٹرولنگ کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ کی اہلیہ اور بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں بھی دیں۔ ٹریوس ہیڈ نے فائنل میچ میں جتنے چوکے اور چھکے لگائے‘ بھارت کی پوری ٹیم بھی اپنی اننگز میں اتنے چوکے اور چھکے نہیں لگا سکی تھی۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے اپنی اننگز میں 13 چوکے اور تین چھکے لگائے جبکہ ٹریوس ہیڈ نے 15 چوکے اور چار چھکے مارے۔ بھارت کے کچھ سنجیدہ فکر افراد نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کی ٹرولنگ کرنے والے 99 فیصد افراد کا تعلق ایک ہی پارٹی (بی جے پی) سے ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ بھارتی شائقین کی جانب سے یہ جنونی رویہ اپنایا گیا ہو۔ دو سال قبل جب ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا تو محمد شامی (محمد سمیع) کو ایک کیچ چھوڑنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مذہب کی بنیاد پر ان کا تعلق پاکستان سے جوڑا کر انہیں ''غدار‘‘ تک کہا گیا۔ اس پر بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں محمد شامی کی حمایت کی جس پر بعض افراد نے کوہلی کو ان کی بیوی‘ جو نامور بالی وُڈ اداکارہ انوشکا شرما ہیں‘ اور ان کی دس ماہ کی بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں دی تھیں۔ اس کے بعد ویرات کوہلی نے سکیورٹی اور ایف آئی آر کے لیے پولیس سے رابطہ کیا جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دھمکی دینے والے چند افراد کو گرفتار بھی کیا۔
بھارت کی ایک عرصہ سے ہر شعبے میں یہی روش ہے۔ متعدد عالمی رہنما، میڈیا ادارے، ہیومن رائٹس تنظیمیں اور سماجی کارکنان بھارت میں مذہبی رواداری کے کم ہوتے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس رجحان میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد خاصا اضافہ ہوا ہے اور کچھ طبقات مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ ''گجرات کا قصائی‘‘ کہلانے والے مودی‘ جس کی جماعت کو گزشتہ آٹھ برسوں سے بھارتی عوام منتخب کرتے چلے آ رہے ہیں‘ کی جماعت اگر آئندہ الیکشن میں بھی کامیاب ہوئی تو یہ نہ صرف بھارتی سالمیت بلکہ پورے خطے کے امن و امان کے لیے ایک مسئلہ ہو گا۔ کہاجاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس بھارت میں بی جے پی کی رکنیت ہے تو پھر آپ کو ہر کام کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ اس جماعت کے ووٹرز، اراکین اور عہدیدار بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے کس قسم کا سلوک اور رویہ رکھتے ہیں‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم نے بھارت کا اصل چہرہ جس طرح بے نقاب کر کے دنیا بھر کی آنکھیں کھولی ہیں‘ اس سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ''کر کٹ ایک جنٹلمین کھیل ہے‘‘۔ اس جنٹلمین کھیل نے کسی قسم کے لڑائی جھگڑے‘ خون خرابے اور فساد کے بغیر ہی بھارت کی مصنوعی اور دکھاوے کی تہذیب کو برہنہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ہندوئوں کا دونوں ہاتھ باندھ کر کسی بھی دوسرے شخص کو ملتے ہوئے خوش آمدید کہنا‘ بقول بھارتیوں کے‘ خود کو ایک طرح سے مٹانے کے مترادف ہوتا ہے اور کسی بھی شخص کے سامنے ہاتھ باندھ کر جس عاجزی سے ہندو اپنے رسم و رواج اور تہذیب کے مطابق دوسروں سے ملتے ہیں اس سے دوسرے انسانوں کیلئے ادب اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے مگر آج برصغیر کے اس قدیمی مذہب کا سرورق وہ افراد ہیں جن کے منہ پر تو رام رام ہے مگر بغل میں دبی خون آلود چھری بھی صاف نظر آ رہی ہے جو کبھی ''لَو جہاد‘‘ تو کبھی گائے کے گوشت کے نام پر غیر مذہب لوگوں پر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ محض مسلمان‘ عیسائی یا سکھ ہی نہیں‘ نچلی ذاتوں کے ہندو بھی برہمن کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں۔
احمدآباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد تماشائی موجود تھے جو اس آس میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے کہ ان کی ٹیم ایک دہائی قبل والا منظر دہرائے گی اور جیسے 2011ء میں بھارت میں ہوئے ورلڈ کپ میں بھارت نے فتح حاصل کی تھی‘ اس بار بھی ویسا ہی ہو گا۔ مگر جیسے جیسے بھارت کی شکست اور آسٹریلیا کی فتح کے آثار نمایاں ہو رہے تھے‘ بھارتی شائقین کے چہروں پر اوس پڑتی جا رہی تھی اور سٹیڈیم میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب آسٹریلیا کی لگائی گئی بائونڈریز پر بھی سٹیڈیم کو سانپ سونگھا رہا۔ میچ کی اختتامی تقریب میں آسٹریلوی کپتان نے بھارتی شائقین کے ''خاموش رہنے پر‘‘ ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دنیا بھر کے بُکی اس ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کا کسی دوسری ٹیم سے مقابلہ ہی نہیں کر رہے تھے۔ اس حوالے سے نامور کرکٹر اور سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے طنزاً جو فقرہ کہا اس کی گونج مدتوں بھارتی سماعتوں میں باقی رہے گی۔ رکی پونٹنگ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ یہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے بڑی شرم کی بات ہے کہ آپ کا پیسہ اور آپ کی طاقت بھی آپ کو ورلڈ کپ میں فتح نہیں دلوا سکی۔ رکی پونٹنگ نے کہا کہ ''بھارت اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔ یہ کرکٹ مافیا کے خلاف انصاف کی جیت ہے‘‘۔ بھارت میں کوئی تصور بھی نہیں کر رہا تھا کہ ان کی ٹیم فائنل میں شکست کھا سکتی ہے۔ بی جے پی اپنے تئیں بھارت کی فتح پر اپنی جماعت کی انتخابی کمپین بھی ڈیزائن کر چکی تھی کہ بھارتی ٹیم کے کپتان کو بھارتی وزیراعظم ہی ورلڈ کپ تھمائیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فائنل میچ میں آسٹریلوی ٹیم کی دھواں دھار بلے بازی بالخصوص آخری دس اوورز کے دوران نریندر مودی اور ان کے ساتھ بیٹھے امیت شاہ کے چہروں سے صاف عیاں تھا کہ وہ ایک شدید کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ بار بار پہلو بدلنا اور ماتھے پر آئے پسینے کو پونچھنے سے کئی بار گمان گزرا کہ شاید وہ اختتامی تقریب سے قبل ہی کوئی بہانہ بنا کر اٹھ کھڑے ہوں لیکن مجبوری نے انہیں باندھ کر رکھا تھا اور اپنے پہلو میں پڑا ورلڈ کپ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں آسٹریلیوی کپتان کو تھمانا پڑا۔ جب نریندر مودی ٹرافی دینے کے بعد آسٹریلوی کپتان کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے منہ موڑ کردوسری جانب چل پڑے تو آسٹریلوی کپتان پہلے بہت حیران ہوئے لیکن پھر ان کے چہرے پر پھیلنے والی چند سیکنڈ کی طنزیہ مسکراہٹ نے کھیلوں کے شائقین کی نظروں میں بھارت کو زیرو کر دیا۔ بھارت کی ہزیمت کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ بھارتی تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے لیے اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر بھارت ورلڈ کپ جیتتا توکپ ایشیا میں رہ جاتا جس سے اہلِ ایشیا کو خوشی ہونی چاہیے تھی مگر آسٹریلیا کے جیتنے پر سری لنکا سے بنگلہ دیش اور نیپال سے پاکستان تک‘ پورے جنوبی ایشیا میں خوشی کیوں منائی جا رہی ہے۔