رواں برس‘ جون میں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ا مریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر امریکہ پہنچے تو اپنے اس دورے کے اختتام پر ‘ 22جون کو دونوں رہنمائو ں نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین انتہا پسند حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے تبھی امریکہ اور بھارت کے اس مشترکہ بیان میں پاکستان کا حوالہ غیر ضروری‘ یک طرفہ اور گمراہ کن قرار دے دیا تھا ۔ دفتر خارجہ نے کہا تھا یہ حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد واضح ہیں۔
جو بائیڈن اور مودی جب یہ مطالبہ کر رہے تھے تو اُس وقت امریکی خفیہ ایجنسی کا چیف امریکہ میں سکھ فار جسٹس پیس کے اہم عہدیدار گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کی فائنل رپورٹ امریکی صدر کو پیش کر چکا تھا۔ سکھ لیڈر پنوں کے پاس امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ شہریت ہے‘ اس لیے دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں اس معاملے پر مل کر کام کر رہی تھیں اور ان کی مشترکہ کوششوں سے قتل کا یہ منصوبہ بنانے والوں تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔ نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے بعد اگست میں سی آئی اے کے چیف ولیم کے برنس اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ایورل ہینس سردار گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کی فائل لے کر نئی دہلی پہنچے اور وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو اس سازش اور اس کے پیچھے چھپے محرکات سمیت سازشیوں کی نشادندہی کر دی جن میں نکھل گپتا اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کا ایک اعلیٰ عہدیدار شامل تھا۔ امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر Jake Sullivan نے قتل کی اس سازش کی تحقیقات کی روشنی میں بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا۔ اس کے با وجود امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر دہشت گردی کے الزام کو ایجنڈا میں شامل کیا تھا۔ اس سے تو کینیڈا ہزار درجہ با وقار نکلا جس کے وزیراعظم نے G20کانفرنس میں شرکت کے لیے نئی دہلی پہنچ کر لگی لپٹی رکھے بغیر مودی کو سنا ڈالیں کہ تم میرے شہریوں کے قاتل ہو۔
اس سے پہلے بھی گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی کو ششیں کی جا چکی ہیں لیکن کسی وجہ سے وہ ناکام رہیں جن کی انہیں خبر بھی ہو گئی تھی اور متعلقہ حکام کو پنوں نے اطلاع بھی کر دی بلکہ سردار گرپتونت سنگھ پنوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بھی بتایا تھا کہ ان کے قتل کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ شک کبھی کبھی یقین میں بدل جاتا ہے کہ بھارت کے اس ڈیتھ سکواڈ کو اسرائیلی ڈیتھ سکواڈ کا تعاون بھی حاصل ہے کیونکہ رواں برس ستمبر میں کینیڈا میں قتل ہونے والے سردار ہردیپ سنگھ نجر نے بھی جولائی 2022ء رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس سے رابطہ کیا تھا اور رواں برس جون میں سردار ہردیپ سنگھ نجر کینیڈین سکیورٹی انٹیلی جنس سروس سے ملاقات کرنے والے تھے‘ جس کا شیڈول بھی طے ہو چکا تھا۔ جب یہ بات بھارتی خفیہ ایجنسی کے نوٹس میں آئی تو وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ مشن اب بہترین اور تجربہ کار مقامی سہولت کاروں کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ دور نہ جائیے‘ پاکستان کے اندر اچانک دہشت گردی نے جوسر اٹھایا ہے‘ اس کے لیے ظاہر ہے کہ اچانک سے فیصلے نہیں کیے گئے ہوں گے بلکہ باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہو گی اور رواں برس کے صرف ابتدائی نو ماہ میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہوئی ہیں‘ ان میں سول اور سکیورٹی فورسز کے 700افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں‘ جبکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیا کوئی بھی بڑی سے بڑی دہشت گرد تنظیم بیرونی مدد اور تعاون کے بغیر دوسرے ملک میں اس دلیری سے ایسی کارروائیاں کر سکتی ہے؟ اس کا جواب نہیں ہے۔پاکستان میں بھارت کے ڈیتھ سکواد نے اسی سال صرف ایک ماہ میں سات ایسے افراد کو قتل کرایا جن کے متعلق اسے شک تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں آج نہیں تو کسی وقت مصروف کار تھے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران پاکستان میں قتل ہونے والے سکھ تاجروں کا قاتل بھی بھارت ہی ہے‘ جنہیں خالصتان تحریک کا حامی ہونے کے شبے میں نشانہ بنایا گیا۔ اور پھر ستمبر میں بھارت نے سردار ہردیپ سنگھ نجر‘ جو خالصتان تحریک کے اہم رکن تھے‘ کو اس کے باوجود کینیڈا میں قتل کرا دیا جبکہ اس متوقع حملے کی خبر کینیڈا کے تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کو ہو چکی تھی۔ ابھی سردار ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر کینیڈین وزیراعظم کے احتجاج پر عالمی شور گونج ہی رہا تھا کہ کینیڈا میں خالصتان کے ایک اور پُر جوش ورکر کا بھی قتل کرا دیا گیا۔ بھارت نے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کا جو سلسلہ چند برس سے شروع کر رکھا ہے‘ یہ وہی طریقہ کار ہے جو موساد اور سی آئی اے نے دنیا بھر میں اپنے مخالفین کے خلاف اپنایا ہوا ہے۔ چند برس پہلے دبئی کے بوستان ہوٹل میں حماس کے ایک اہم لیڈر کو دو اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کر دیا اور وہاں سے ایسے غائب ہوئے کہ آج تک ان کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اب بھارت نے اسرائیلی طرز پر اسی قسم کا ڈیتھ سکواڈ بنایا ہے لیکن اس کا تجربہ اس نے پہلے کشمیر اور میانمار میں کیا اور پھر اپنی ان ریاستوں میں شروع کیا جہاں علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد جب اسرائیل کو قائم کروایا گیا تو اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے نام سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم نے سسلین مافیا کی طرز پر نازی جرمنی کے ہر اُس فرد کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی جو یہودیوں کے خلاف سر گرم تھا یا وہ یہودیوں کے خلاف کسی بھی قسم کا تعاون کر چکا تھا۔ اس کے لیے دنیا کے کونے کونے میں اسرائیلی موساد کے ایجنٹوں نے یا تو ایسے افراد کو جو نام بدل کر گوشۂ گمنامی میں زندگیاں گزار رہے تھے‘ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اغوا کرتے ہوئے اسرائیل پہنچایا یا انہیں بے رحمی سے وہیں پر قتل کر دیا۔ 1999ء کی کارگل جنگ میں پاکستان کے خلاف جب بھارتی فوج بے بس ہو گئی تو اس نے اسرائیل سے مدد مانگی اور اس کے بعد اسرائیل نے بھارت کی جو مدد کی اس کا اعتراف کسی اور نے نہیں بلکہ اسرائیلی سفیر مارک سوفر نے انڈیا ٹو ڈے کو اپنے ایک انٹرویو میں کر دیا تھا۔ کارگل کے بعد بھارت اور اسرائیل کے درمیاں دوستی پروان چڑھی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کو اسرائیل میں باقاعدہ تربیت دی جانے لگی اور وہیں سے بھارت نے یہ سبق سیکھا کہ اس کے وہ مخالفین جو کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر اس کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت گرفتار کرکے بھارت نہیں لایا جا سکتا‘ ان کو ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے ان کے ملکوں میں ہی قتل کر دیا جائے۔ اسرائیل کی اسی مدد کی وجہ سے ہی غزہ اور اسرائیل کی جنگ میں مودی نے فلسطین کی بجائے اسرائیل کی حمایت کی۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کے اندر‘ نریندر مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جس طرح بے خوفی سے کہا ہے کہ میرے ملک میں بے گناہ انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں آپ کا ہاتھ ہے‘ وہ قابلِ تعریف ہے۔ کینیڈا کے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں کہ بھارت اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو کینیڈا میں اُجرتی قاتلوں کے ذریعے قتل کرانے میں مصروف ہے۔ جسٹن ٹرڈو کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ نے نئی دہلی میں جہاں جی20 کانفرنس ہو رہی تھی‘ ایک بھونچال پیدا کر دیا اور دنیا بھر کا میڈیا جو وہاں جمع تھا‘ کینیڈین وزیراعظم کے اس الزام پر چونک کر رہ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر دنیا بھر میں بریکنگ نیوز بن گئی۔ اس قسم کی ہمت اور جرأت ایسا سربراہِ مملکت یا چیف ایگزیکٹو ہی کر سکتا ہے جسے ہیومن رائٹس اور اپنے ملک کی عزت اور اس میں رہنے والے ایک عام شخص کی جان و مال کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔