"MABC" (space) message & send to 7575

حقیقت یا سراب؟

گزشتہ کالم میں کے پی میں گزارے چند دن کا مختصر احوال بیان کیا تھا‘ اس حوالے سے متعدد افراد نے اپنے اپنے شہروں اور علاقوں کی صورتحال بیان کی ہے جس کی روشنی میں ایک بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت پورا ملک سیاسی بخار میں مبتلا ہے اور اس بخار کی شدت پولنگ ڈے تک مسلسل بڑھتی جائے گی۔ کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل بھی ملک بھر میں ایسی ہی بالخصوص کے پی میں لگ بھگ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا مگر پھر کیا ہوا؟ اس حوالے سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد صرف چار حلقوں کا معاملہ ہی حکومت کے لیے وبالِ جان بنا رہا اور چھ ماہ کا دھرنا اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس الیکشن میں جو کچھ ہوا‘ وہ اس کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کی صورت میں سامنے آ گیا۔ کوئی بھی حکومت مینڈیٹ پر لگے سوالیہ نشان کے ساتھ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اگرچہ 2018ء کے الیکشن کے بعد بھی دھاندلی کا ایک غوغا بلند ہوا مگر حقائق کی تیز سرچ لائٹ میں ان اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو مضحکہ خیز صورتحال سامنے آتی ہے‘ مثلاً پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے قلعہ عبداللہ سے الیکشن لڑا اور انہیں متحدہ مجلس عمل (جمعیت علمائے اسلام ف) کے امیدوار نے شکست دی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال کو گوادر میں ایک آزاد امیدوار نے شکست دی۔الیکشن کمیشن اور متعلقہ فورمز پر دائر دھاندلی سے متعلق دو تہائی کیسوں میں شکست خوردہ امیدوار اور کامیاب امیدوار‘دونوں کا تعلق اپوزیشن اتحاد سے تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ جو دھاندلی کے الزامات لگانے میں پیش پیش تھی‘ گزشتہ الیکشن میں 2013ء کے مقابلے میں اس کے ووٹوں میں صرف دو لاکھ کی معمولی کمی ہوئی اور اس کمی کی وجہ تھی نئی مذہبی جماعتوں کا ابھرنا اور ''الیکٹ ایبلز‘‘ کا (ن) لیگ سے راہیں جدا کرنا۔ پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں تین لاکھ کی کمی ہوئی لیکن معمولی معمولی مارجن سے جیتنے کے سبب اس کی نشستوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کی جب بھی بات ہو تو سب سے زیادہ الزام آر ٹی ایس کو دیا جاتا ہے جو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ آج کے مقابلے میں اُس وقت کے الیکشن کمیشن یا نگران حکومتوں پر ایک فیصد بھی جانبداری کا الزام نہیں لگایا گیا۔ آر ٹی ایس مکمل طور پر ایک تکنیکی معاملہ تھا اور اس حوالے سے اصل معاملہ کیا تھا‘ یہ لاہور کے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عابد حسین قریشی کی کتاب ''عدل بیتی‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے اپنے عملے کو مناسب ٹریننگ دینے اور سسٹم کو پوری استعداد کے ساتھ چیک کرنے میں ناکام رہا۔ جو تجربات کیے گئے‘ وہ بھی محدود سطح پر، نتیجتاً جب پورے ملک سے بیک وقت نتائج وصول ہونا شروع ہوئے تو سسٹم بیٹھ گیا اور اس معاملے کو ایک قومی ایشو بنا دیا گیا حالانکہ یہ اب تک کا واحد الیکشن تھا جس میں پولنگ بوتھ کے اندر بھی کیمرے لگے ہوئے تھے‘ کیا دھاندلی کی کوئی وڈیوز سامنے آئیں‘ سولہ ماہی حکومت اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔
اسی طرح الیکشن کے بعد انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی مگر کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد نہ ہونے کی بنا پر اپوزیشن نے اس کمیٹی کے کام میں ایسے روڑے اٹکائے کہ یہ کمیٹی اپنا کام ہی مکمل نہ کر سکی۔ کیا دھاندلی کے الزامات لگانے والوں سے یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پارلیمان میں کیا کرتے رہے؟اگر دھاندلی کے تدارک کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا بل پاس کیا گیا تو وہ اقدام بھی پی ڈی ایم حکومت نے معطل کر دیا‘ حد تو یہ ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں سے ووٹنگ کا حق تک چھین لیا گیا۔
اب بھی اگر کسی باخبر مشیر کو حقیقت اور سراب کا فرق پتا نہیں چل رہا تو یہ راقم یہی کہہ سکتا ہے کہ آپ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر سیاسی میدان میں اتر کر دیکھ لیں، آٹے اور دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ جو افراد آج تک عملی طور پر انتخابی سیاست کا حصہ نہیں رہے‘ وہ بھی دو جمع دو کے کلیے سے گلی محلے کی سیاست سمجھا رہے ہیں۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کی کہ اب سیاست کی ڈائنامکس بدل چکی ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے اب شہروں اور دیہات کا فرق مٹا دیا ہے۔ کچھ پرانے لوگ اور سیاسی جماعتیں ابھی تک نوے کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس مغالطے کا شکار ہیں کہ دیہات کی سیاست مختلف ہوتی ہے‘ وہاں دھڑے بندی اور برادری کا زور چلتا۔ ایسے تمام افراد سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں دیہات میں جا کر سیاسی سروے کرنے کا کتنا تجربہ ہے؟ راقم کا ایک پائوں ہمیشہ سفر میں رہتا ہے، کیا دیہات‘ کیا چکوک‘ کیا گوٹھ‘ کیا قصبات اور کیا شہر‘ اب سب جگہ پر لوگوں کو سب کچھ پتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمینی حالات کو دیکھ کر بھرپور بندوبست کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومتوں میں بھی ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کا کام جاری ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ کسی سیشن جج، ایڈیشنل سیشن جج یا سینئر سول جج کے بجائے گریڈ چودہ کے اہلکار فائنل نتائج الیکشن کمیشن کو مہیا کریں گے اور سرکاری محکموں میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے الیکشن کا عمل انتخاب سے پہلے ہی شکوک و شبہات کا شکار ہو رہا ہے۔ کچھ ایسے لوگ‘ جنہیں اپنے انتخابی حلقوں میں دس سے پندرہ ہزار تک ووٹوں کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ وہ بھی اپنا بندوبست یقینی بنانے کے بعد خود کو ایم پی اے اور ایم این اے کہلانا شروع ہو گئے ہیں۔ جن سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ‘ ٹرانسفر‘ ترقی تنزلی اور مراعات سمیت ایک ایک چیز حکومت کے ہاتھ میں ہو‘ کیا ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اصول اور قانون پر ڈٹ جانے کی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں گے؟ الیکشن میں سرکاری افسران اور اہلکاروں کے نوٹیفکیشن دیکھنے کے بعد 2008ء کے انتخابات کے منا ظر آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گئے ہیں جب بقول چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی‘ ایک غیر ملکی سفیر نے ان کے گھر بیٹھ کر انہیں کہا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب آپ کی کارکردگی بہتر ہونے پر آپ کی کامیابی کی امید ہے لیکن شاید عالمی سطح پر ان نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس ملاقات میں غیر ملکی وفد نے کیا کہا اور بعد میں وہ سب کیسے پورا ہوا‘ یہ سارا واقعہ چودھری شجاعت حسین کی کتاب ''سچ تو یہ ہے‘‘ کا حصہ ہے۔
الیکشن ملتوی کرنے بالخصوص کے پی میں الیکشن ملتوی کرنے کی افواہیں تاحال زیرِ گردش ہیں اور متعدد ''باخبر‘‘ قسم کے افراد اب بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ ہفتہ اس حوالے سے اہم ہے اور الیکشن کے حوالے سے کوئی بڑی خبر سامنے آ سکتی ہے۔ الیکشن کے التوا سے امیدواران اور ووٹرز کا مورال زمین بوس ہو جائے گا اور وہ جذبہ اور جوش جو اس وقت کے پی کے ہر گھر، بازار اور محلے سمیت پہاڑوں کی چوٹیوں اور دادیوں میں دیکھ کر آرہا ہوں‘ ڈگمگا جائے گا۔ کے پی کے ایک ضلعی پولیس افسر کے بلائے گئے اجلاس میں ایک اے ایس آئی کا شکوہ اور اعلیٰ حکام سے سوالات اس وقت وائرل ہو چکے ہیں۔ دوسری بہت سی باتوں اور خدشات کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور انجینئر امیر مقام کے بیانات اور استدعا بھی بار بار سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ فروری کے پہلے عشرے میں بلوچستان سمیت کے پی کے کچھ علاقوں میں شدید برفباری کا امکان ہے اس لیے انتخابات کو دس‘ پندرہ دن کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کوئی نئی تاریخ دے دی جائے۔ ان بیانات کو گزشتہ روز ہی سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر مزید تقویت بخشی کہ اگر دس‘ پندرہ روز کیلئے انتخابات کی تاریخ آگے کر دی جائے تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ بات اگر موسم کے حوالے سے ہوتی تو شاید تحفظات نہ ہوتے لیکن معاملہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں