آج کل 1976-77ء کے سیاسی حالات اور انتخابات نہ جانے کیوں بار بار یاد آنے لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور تب کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو، وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ کو کسی نے یہ خواب دکھا دیا کہ جیت کا مزہ تب آئے گا جب آپ بلامقابلہ منتخب ہوں گے، اس سے قومی اتحاد کے لوگ سر پیٹتے رہ جائیں گے جبکہ عوام میں بھی یہ تاثر جائے گا کہ اگلی حکومت کس کی ہو گی لہٰذا جو لوگ ہوائوں کا رخ دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں‘ ان کے ووٹ پکے ہوئے پھل کی طرح آپ کی جھولی میں آ گریں گے۔ یہ خوش کن مشورہ دینے والوں کو یہ دیکھ کر خود بھی حیرانی ہوئی کہ یہ بات ان کے منہ سے ابھی نکلی ہی تھی کہ چیئرمین پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو سمیت متعدد لیڈران تراکیب سوچنے لگے کہ کس طرح وہ اپنی بلامقابلہ کامیابی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
آئینی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی میعاد اگست 1978ء میں ختم ہونا تھی مگر بھٹو کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ آپ اس وقت مقبولیت کی انتہائوں پر ہیں جبکہ اپوزیشن بھی دو مختلف کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے، لہٰذا اگر اس وقت انتخابات ہوتے ہیں فتح لگ بھگ یقینی ہے، جو تھوڑی بہت کسر ہے‘ وہ انتظامیہ کی مدد سے پوری کی جا سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سپیشل سیکرٹری اور 1977ء کے الیکشن سیل کے انچارج اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر راؤ عبدالرشید کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ''جو میں نے دیکھا‘‘ میں 1977ء کے انتخابات اور دھاندلی کے الزامات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اس منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا‘ مگر یہ بات آج ثابت ہو چکی ہے؛ تاہم وہ بھٹو کے بیوروکریسی پر غیر معمولی اعتماد کو سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔رائو عبدالرشید کے مطابق: انتخابات سے قبل پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز نے بھٹو حکومت کو یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ انہیں پنجاب سے 70 سے 75 قومی اسمبلی کی نشستیں مل سکتی ہیں۔انہی خوشامدانہ قسم کی رپورٹس کی بنیاد پر بھٹو نے فوری طور پر انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ 7 مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونا تھے۔ طے یہ پایا کہ زیادہ سے زیادہ سیٹیں بلامقابلہ حاصل کی جائیں گی۔ جیسے ہی حکومت نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا‘ اپوزیشن جو آٹھ سیاسی جماعتوں کے اتحاد ''یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘، ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان کی صورت میں بٹی ہوئی تھی‘ وہ مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں ''پاکستان نیشنل الائنس‘‘ کے نام سے اکٹھی ہو گئی۔ اس سے بھٹو حکومت کو کچھ پریشانی تو ہوئی مگر الیکشن کمیشن، ڈپٹی کمشنرز اور پولیس و انتظامیہ کے ساتھ مل کر سارا بندوبست کر لیا گیا۔ لہٰذا پی این اے کے متوقع امیدواروں اور ان کے تجویز و تائید کنندگان کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے سے پہلے ہی نامعلوم مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ الیکشن چونکہ بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہو رہے تھے اور اس وقت نگران حکومت کے تکلف کو بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا لہٰذا بیورو کریسی براہِ راست بھٹو حکومت کے ماتحت تھی۔ جو افراد الیکشن میں حصہ لے رہے تھے‘ وہی افسر شاہی کو احکامات بھی جاری کر رہے تھے لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو اور کابینہ کے اراکین قومی اسمبلی کے 19 سیٹوں پر بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ ورزائے اعلیٰ نے بھی یہی روش اپنائی اور صوبائی اسمبلیوں کے 60 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے جن میں زیادہ تر وفاقی و صوبائی وزرا شامل تھے۔ ان انتخابات میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ آج بھی اس مضحکہ خیز واقعے پر یقین نہیں آتا۔ ہوا یوں کہ مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق اکوڑوی جب اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے لیے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کے پاس گئے‘ جو ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا‘ تو اس نے ان سے سادہ کاغذ پر دستخط لے لیے، بعد ازاں اسی کاغذ پر کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کی درخواست لکھ کر انہیں الیکشن کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔
سات مارچ 1977ء قومی اسمبلی کے الیکشن کا پولنگ ڈے تھا‘ اس دن جو کچھ ہوا‘ وہ آج تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ قومی اتحاد صرف 36 سیٹیں جیت سکا۔پنجاب‘ جہاں بیورو کریسی کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی 70 سے 75 سیٹوں پر آگے تھی‘ وہاں سے 108 سیٹیں بھٹو کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ اپوزیشن کے سبھی اہم رہنما‘ چودھری ظہور الٰہی، عبدالستار نیازی، خورشید محمود قصوری، حامد ناصر چٹھہ، خواجہ محمد صفدر، غوث علی شاہ اور میر علی احمد تالپور شکست سے دوچار ہوئے۔ ایئر مارشل اصغر خان نے الزام لگایا کہ ایبٹ آباد میں انہیں فتح ملی مگر بعد ازاں انتخابی نتائج میں ترمیم کی گئی۔ اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ 10 مارچ کو جب دوبارہ الیکشن ہوئے تو ہُو کا عالم تھا۔ ٹرن آئوٹ دو فیصد بھی نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں نے خود بھی دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس پر زیادہ بات کیا کرنی کہ اب یہ سب باتیں سامنے آ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اور دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے: ''بظاہر لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے، عثمان ڈار کے گھر جو کچھ ہوا وہ اخبارات میں شائع ہو چکا ہے‘‘۔عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کر دی ہیں، الیکشن کمیشن نے تمام آئی جیز اور آر اوز کو شکایات دور کرنے کا مراسلہ بھیج دیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کا بیٹا اسی حلقے کا ریٹرننگ افسر ہو گا تو کیا الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی؟ کیا آج کے دور میں یہ صریح دھوکا دہی چھپائی جا سکتی ہے؟ شاید نوشتۂ دیوار سب نے دیکھ اور پڑھ لیا ہے کہ عوام کا رخ اور ہمدردی کس طرف ہے۔
چند روز قبل کے پی کا دورہ کیا تھا۔ سوات، جمرود، مردان، کوہاٹ، پشاور، چارسدہ، ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتا ہوا براستہ میانوالی پنجاب واپسی ہوئی، جس کے بعد ڈیرہ غازی خان سے سخی سرور اور پھر لورا لائی سے پشین، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، زیارت اور سرداری نظام سے ہٹ کر پشتون اکثریت والے علاقوں میں جانے کا موقع ملا۔ مقامی میڈیا سے ملنے کے بعد عام قہوہ خانوں، کوئلے کی کانوں اور شام سے کچھ پہلے لگنے والی مجلسوں میں بیٹھنے کے بھی مواقع ملے۔ ہر قسم کے سرکاری اہلکاروں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ سے بھی کھل کر باتیں ہوئیں۔ کوشش یہی رہی کہ خود قدرے کم بولا جائے اور دوسروں کو زیادہ سنا جائے مگر اس کے باوجود سب کا اصرار تھا کہ اپنی رائے کا بھی اظہار کریں۔ ان لوگوں کے خیال میں شاید ہم بہت باخبر ہیں لیکن کیا کریں‘ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنی کم مائیگی کو خاموشی اور دوسروں کو بات کو اہمیت دینے کے تاثر سے چھپا لیتا ہوں۔ ایک بات جس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو وہ یہ کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب شہروں اور دیہات کے سیاسی شعور کا فرق مٹ چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وقت کا پہیہ اور سیاسی شعور ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ پشتون بیلٹ میں روایتی مذہبی سیاسی جماعتوں کے افراد‘ جن کا قیام پاکستان سے اب تک ڈنکا بجتا رہا ہے‘ قدرے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پیش آمدہ انتخابات میں موروثی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ چمن سے آگے بلوچستان کے سرحدی علاقوں حاجی شریف گنڈائی، قلعہ سیف اللہ جیسے شہروں اور قصبوں میں بھی وہی حالات دیکھنے کو ملے جو خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں دیکھے تھے۔ وہاں چونکہ پشتون اور پنجابیوں کی اکثریت ہے‘ اس لیے ان علاقوں کا روایتی سرداری نظام سے کچھ خاص لینا دینا نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ دنیا حیران کن انتخابی نتائج دیکھے گی۔