چلیں مان لیا کہ کسی نہتے انسان کو گاؤں یا گلی محلے کے لوگ مل کر‘چاروں طرف سے گھیر کر‘ اس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتے ہیں اور اس کے پاس جو بچا کھچا رہ گیا تھا‘ وہ بھی چھین کر دور کسی اونچی جگہ بیٹھ کر قہقہے لگاتے ہوئے اس کی جانب دیکھ دیکھ کر تمسخر اڑاتے ہیں کہ وہ اُن کے سامنے بے بس ہو گیا‘ اس کی فریاد سننے یا مدد کرنے والا پورے گاؤں یا گلی محلے میں کوئی نہیں بچا‘ جو چند لوگ باقی تھے وہ بھی خوف کے مارے کسی کونے میں سہم کر‘ دبک کر بیٹھے رہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے گاؤں والوں کو یہ سوچ کیوں نہ آئی کہ ساتھ والے یا اس سے اگلے گاؤں والوں تک جب یہ خبر پہنچے گی اور پھر یہ کہانی ایک سے دوسرے گاؤں پھر تیسرے گاؤں اور پھر دور دور تک سنائی دینے لگے گی تو اپنے گاؤں سے نکل کر جہاں بھی آپ جائیں گے‘ سب نہیں تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد‘ جو آپ کے رعب میں نہیں‘ جن پر آپ کا دبدبہ نہیں چلتا‘ جو اپنی مرضی بلکہ قانون اور قاعدے کے مطابق زندگی گزار رہی ہے وہ تو یہ سوال کرے گی کہ اُس نہتے انسان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ٹھیک ہے کہ آپ کے گاؤں اور گلی محلے میں یہ سب چلتا ہے لیکن جہاں انسان رہتے ہوں‘ جہاں تہذیب یافتہ لوگ بستے ہوں‘ جہاں آئین اور قانون کو اپنے ایمان اور زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہو‘ وہاں اس قسم کا طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جاتا۔ کبھی گاؤں والوں نے سوچا ہے کہ وہ اپنے اس طرزِ عمل کا کیا جواب دیں گے؟کیا بہو بیٹیوں کی بے جا گرفتاری اور ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں اُن سے کاغذاتِ نامزدگی چھینے جانے کے بعد کسی نے یہ سوچا ہے کہ اس سے دنیا کے سامنے ملک کا کیسا امیج جائے گا؟ ان واقعات کی تصاویر اور وڈیوز بھارت جیسا ملک ہم پر یہ الزامات لگانے کے لیے استعمال کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ اُس وقت ہمارا کیس دنیا کے سامنے کمزور ہو جائے گا‘ ہم کیسے ان الزامات کا سامنا کر سکیں گے۔ اقوامِ عالم کے سامنے ان الزامات کا کیا جواب دے سکیں گے۔
تربت میں ایک بلوچ نوجوان کے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد اس قتل کے خلاف شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کے مظاہرین 20دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد اُس کیمپ میں شامل ہو گئے جو کئی روز قبل گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا تھا۔ یہ یکجہتی مارچ جب اسلام آباد پہنچا تو پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکا کو تحویل میں لے لیا۔ نگران حکومت کے نوٹس لینے کے بعد اگلے روز 290 گرفتار خواتین و حضرات کو چھوڑ دیا گیا جن کی شناخت ہو چکی تھی‘ لیکن جن کی شناخت نہ ہو سکی وہ پولیس تحویل میں رہے‘ تاہم جمعرات کو اُن 34شرکا کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران کمیٹی کے شرکا کو کوئٹہ واپس بھجوانے کی اطلاعات بھی آئیں۔ نہ جانے اسلام آباد میں بلوچستان سے آئے ہوئے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاری کس کے حکم کے بعد عمل میں آئی؟ اس عمل کی وجہ سے بلوچ عوام کو جو پیغام گیا ہے‘ کاش اس کی سنگینی کا بھی ادراک کیا جاتا۔ بلوچستان میں برسوں سے ملک دشمن عناصر قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکانے میں مصروف ہیں‘ ہمیں کسی بھی اقدام سے دشمن کو ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جوکہ معدنی ذخائر سے مالا مال ہے ‘ اس کے باوجود یہ ملک کا سب سے کم ترقی یافتہ خطہ ہے۔ بلوچستان کے عوام کئی دہائیوں سے متعدد مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ ان مسائل کی جڑیں خطے کی تاریخ‘ جغرافیے اور سیاسی منظر نامے میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں جس نے بلوچ عوام میں پسماندگی اور نظر اندازی کے احساس کو جنم دیا ہے۔
بلوچستان کے لوگوں کو درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ بنیادی سہولیات مثلاً تعلیم‘ صحت کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی تک رسائی کا فقدان ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے کم شرح خواندگی بلوچستان میں ہے جہاں کی آبادی کا صرف 43 فیصد حصہ لکھ پڑھ سکتا ہے۔بلوچستان کے عوام کو درپیش ایک اور بڑا مسئلہ معاشی مواقع کی کمی ہے۔ یہ صوبہ تیل‘ گیس اور معدنیات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے پھر بھی یہ ملک کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ خطے میں بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے ملازمت کے مواقع محدود ہیں جس سے بہت سے نوجوان کام کی تلاش میں ملک کے دوسرے حصوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس برین ڈرین نے بھی صوبے کی پسماندگی میں حصہ ڈالا ہے۔بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل پیچیدہ ہیں اور ان کے حل کے لیے کثیر الجہتی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیم اور صحت کی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے پر توجہ دینے کے ساتھ خطے کی ترقی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ قدرتی وسائل کے شعبے میں سرمایہ کاری سے معاشی مواقع بھی مل سکتے ہیں اور مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے اُن تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے جو صوبے میں امن وامان کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔
کبھی کبھی آصف علی زرداری کے مرحوم ارشد شریف کو دیے گئے اُس انٹرویو کی یاد کیوں آنے لگتی ہے جس میں وہ یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکتے کہ ایک سیاسی جماعت گریٹر پنجاب کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے‘ اگر یہ محض الزام تھا تو ایسے الزامات سے احتراز کیا جانا چاہیے لیکن چونکہ وہ انٹرویو میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس اس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کون ہے جو اس منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ان الزامات کی تحقیق کرا لینی چاہیے کیونکہ یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ ملک کے ایک سابق صدر کے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ اس ملک کو اس کے دستور کے مطا بق چلایا جائے‘ اس میں رہنے والوں کو ایک ہی قانون اور ضابطے کی لاٹھی سے ہانکا جائے‘ یہاں رہنے والے ہر شخص‘ ہر بہن اور بیٹی کو آزادی سے جینے کا حق دیا جائے۔ یہ ملک کسی ایک گروہ کے لیے نہیں‘ کسی ایک برادری یا قوم کے لیے نہیں‘ کسی ایک فرد کے لیے نہیں‘ کسی ایک شخص کے لیے نہیں بلکہ یہ ملک سب اکائیوں کو ایک ہی دستور سے چلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ لاکھوں ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی قربانی دے کر‘ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر اس نئے ملک‘ اس نئے دیس میں اس لیے قدم رکھا تھا تاکہ یہاں وہ اپنی زندگیاں اسلام کی دی ہوئی آزادی کے مطابق گزار سکیں۔ یہاں انہیں وہ عزت و احترام دیا جائے جو اسلام نے ان کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ اس لیے یہیں پر رُک جائیے‘ اپنی غلطیوں سے رجوع کیجئے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ غلطیاں عمر بھر کے پچھتاوے کی صورت اختیار کر لیں‘ جس سے چھٹکارہ پانا نا ممکن ہو جائے۔