ویسے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی لیکن دیکھا جائے تو سیاست میں اب سوائے چنگیزی کے کچھ باقی نہیں رہا۔ نجانے کتنے لاکھوں اور کروڑوں لوگ ہیں جو سیا ست کی چنگیزیت کی چکی میں روزانہ نہیں بلکہ ہر وقت اس طرح پس رہے ہیں کہ وہ درد کی شدت سے چیخ و پکار کرتے ہوئے دہائیاں دیے جا رہے ہیں کہ خدا کے لیے بہت ہو چکا اب چنگیزیت سے سیا ست کو الگ کر لیا جائے کیونکہ اس قسم کی سیاست نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ سیاست کو دین کے پردے میں رہنے دیں‘ اس سے ملک کے غریب عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑیں‘ کیونکہ سیاست کی آڑ لے کر کی جانے والی چنگیزی سیاست نے عوام کے لباس کو ہی نہیں ان کے جسموں کی کھال کو بھی ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔سیاست سے مستفید ہونے والوں کی بات چھوڑیئے‘ سیا ست سے مال و دولت کے ڈھیر اور اس سے دنیا بھر میں اپنی ایمپائرز کھڑی کرنے والوں کی بات چھوڑیئے‘ ریا ست کے ہر فرد کی عزتِ نفس اور دیکھ بھال پر توجہ دیجئے۔ وہ شخص جو ریاست کی جانب سے اس پر عائد کئے گئے ٹیکسز کی ادائیگی میں باقاعدگی اور ذمہ داری کا اہتمام کرتا ہے‘ جو اس کے قوانین کا احترام کرتا ہے‘ اسے اگر تعلیم‘ صحت اور امن و امان کی گارنٹی نہیں‘ اسے اگر اشیائے ضروریہ کی صحیح داموں پر خریداری کی سہولت نہیں تو اس شہری کے آئینی حقوق کی پاسداری کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو لوگ پوچھ رہے ہیں۔
دو تین کمروں والے گھروں میں رہنے والے متوسط طبقے کے شہریوں کی بات کریں تو اس شدت کی سردی میں ان کے گھروں میں لگائے گئے چولہوں کو مہیا کی جانے والی گیس کی صورتحال یہ ہے کہ دن میں تین قسطوں میں صرف چھ گھنٹوں کے لیے انہیں گیس مہیا کی جا رہی ہے اور اس کا پریشر بھی اس قدر کم ہوتا ہے کہ اس سے غریب کی دال بھی نہیں گلتی‘ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ گیس نہ ہونے با وجود اس گھر کو ہر ماہ گیس بم کی صورت میں سات سے دس ہزار روپے کے قریب بل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین قسطوں میں مہیا کی جانے و الی یہ گیس چونکہ دو دو گھنٹے کی تین قسطوں میں ملتی ہے اور جب یہ معمولی پریشر والی گیس کی دو گھنٹے بعد سپلائی بند کر دی جاتی ہے تواس کے بعد گھروں میں ایل پی جی والا سلنڈر استعمال کیا جاتا ہے جس کی قیمت ایک ہزار روپے بنتی ہے۔ جس کی مقدار اور پیمانہ پٹرول پمپوں کی طرح نہ جانے کس طرح بنایا جاتا ہے کہ ہر چوتھے دن یہ سلنڈر منہ چڑاتے ہوئے جھٹکے دینا شروع کر دیتا ہے کہ وہ خالی ہو چکا ہے۔اگر چائے یا دودھ گرم کرنا ہے تو دوبارہ سے ایک ہزار کی ایل پی جی کا بند وبست کرو۔تصور کیجئے کہ پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ جس کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے اور مکان کا کرایہ پندرہ ہزار روپے ہو‘ اسے اگر مکان کے کرائے اور گیس کے بل کی ادائیگی کے لیے ماہانہ پچیس ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہوں تو اس گھر کی کیا حالت ہو گی؟
چلیں اب آتے ہیں بجلی کی طرف جس کا آنا جا نا اس طرح لگا رہتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کب تک رہے گی اور کب چلی جائے گی‘ لیکن جو چیز اس کی مستقل مزاجی کا پتا دیتی ہے وہ اس کا ہر ماہ آنے والا بل ہے‘ جسے دیکھتے ہی ہوش و حواس کچھ اس طرح سے اُڑ جاتے ہیں کہ نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سجھائی دیتا ہے۔ بس لرزتے اور کانپتے ہوئے جسم اس کے ایک ایک لفظ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ جس دن بجلی کا بل عام گھروں کے دروازوں کے اندر پھینکے جاتے ہیں تو اس بل کے ملتے ہی کئی کئی دن تک ا س گھر کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ہر بندہ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ سچ پوچھئے تو ان دنوں کچھ کھانا پینا بھی بھول جاتا ہے کیونکہ چھوٹے چھوٹے‘ تنگ و تاریک گھروں میں رہنے والوں کا بجلی کا بل سردیوں میں پانچ چھ ہزار اور گرمیوں میں دس سے پندرہ ہزار کی حد سے نیچے آنے کا نام ہی نہیں لیتا اور اب کیونکہ بجلی کا یونٹ ساڑھے چار روپے پھر سے بڑھا دیا گیا ہے اس لئے اس ماہ سے بجلی کے بل متوسط گھروں میں سردی کے اس موسم میں کسی بھی صورت دس ہزار سے کم نہیں آئیں گے۔ جس گھرانے کی بات کی جا رہی ہے اس کی آمدنی پچاس ہزار روپے فرض کی گئی ہے ورنہ لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جن کی آمدنی تیس ہزار سے زیادہ ہوتی ہی نہیں۔ مکان کا کرایہ‘ گیس اور بجلی کے بل یہ سب ملا کر تیس یا چالیس ہزار بن جاتے ہیں۔ چلیں تصور کر لیتے ہیں کہ ان کے پاس اب کل بیس ہزار روپے باقی بچ رہتے ہیں‘اگر گھر کا سربراہ کہیں کام یامزدوری کے لیے جاتاہو گا توا س کے لیے زیا دہ نہیں تو مہینے کا پانچ ہزار روپیہ اس کی آمد و رفت کا بن جائے گااور باقی رہے پندرہ ہزار روپے تو اس میں اس پانچ افراد پر مشتمل گھرانے نے پورا ایک ماہ گزارنا ہے۔ بس یہی وہ سوال ہے کہ وہ کیسے گزارہ کرتا ہو گا؟
چلئے مان لیتے ہیں کہ پیاز‘ آلو اور ٹماٹر کے نرخ گزشتہ دو تین ماہ سے کچھ اس طرح ہیں کہ پیاز ایک سو پچاس‘ حالانکہ اس وقت ڈھائی سو کے قریب بھی بک رہاہے۔ ٹماٹر80 روپے اور آلوپچاس سے ساٹھ روپے میں مل رہا ہے۔ اس کے بعد آپ گھر کی طرف آئیں تو سمجھ لیجئے کہ ایک ماہ میں تیل اور گھی کے لیے ا س گھرانے کو پانچ ہزار روپے مزید ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اب اگر کچن کے لیے کسی قسم کا مرچ مصالحہ اور ایک لٹر دودھ اور چائے چینی یا گڑ شکر لینا پڑے تو ماہانہ اس پر بھی آٹھ‘ دس ہزار روپے لگ جاتے ہوں گے اورتین وقت کا نہیں تو اگر دو وقت کا کھانا بھی اس گھر میں تیار کیا جائے تو سوچئے ا س کے لیے عام سی سبزی جو ہمارے وقتوں میں یا چار پانچ بر س پہلے پچاس سے سو روپے کلو تک بکتی تھی وہ آج ایک سو روپے سے تین سو روپے کلو تک مل رہی ہے۔ اب بات چھوٹے یا بڑے گوشت کی نہیں کی جا رہی یا ایک ہزار روپے میں ملنے والی برائلر مرغی کے تکلفات کی بات بھی نہیں کی جائے گی‘ بات صرف ان دالوں کی کی جائے جو دالیں ایک غریب گھر کی سب سے منا سب اور مشہور ہانڈی ہوا کرتی تھیں۔ اب دو سو روپے سے چھ سو روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں۔بتایئے پچاس ہزار روپے ماہانہ تک کمانے والا یہ گھرانہ اپنی زندگی کس طرح گزارتا ہو گا؟
اب اگر ان میں سے کوئی خدا نخواستہ بیمار پڑ جائے تو اس کے علاج کے لیے گھر گھر ادھار یا کچھ بیچنے کے لیے دستک دینا پڑے گی۔ اب ایسے شخص کی سمجھ میں کوئی بات بھی نہیں آئے گی سوائے دو وقت کی روکھی سوکھی کے کیونکہ یہ روٹی ہی تو ہے جواس گھرانے کی سانس کی ڈوری کو بحال رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ باقی ان گھروں میں فاسٹ فوڈز‘ پھل اور بیکری آئٹمزتو خوابوں یا کسی خاص مہمان کے آنے پر ہی دیکھنے اور کھانے کو ملتے ہیں۔ لیکن اس کے بدلے رسم و رواج نبھانے کے لیے جو اخراجات بڑھتے ہیں اس کے اثرات سے ان پھلوں کا ذائقہ بالغوں کو ان کی آمد کے ساتھ ہی زہر لگنا شروع ہو جاتا ہے۔
نہ جانے وہ کیا لمحہ تھا جب با با فریدؒ سے کسی نے دین بارے پوچھا تو انہوں نے '' دو وقت کی روٹی‘‘ کہہ کر سب کو حیران کر دیا۔ بھوک اور خواہشات میں بہت فرق ہے‘بھوک صرف اس خالی پیٹ کو بھرنے کے لیے ہوتی ہے جس کے سہارے چل سکیں کچھ کام کر سکیں جبکہ خواہشات ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔