ہتھیار ڈالنے کے بعد 26 اپریل 2017ء کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور کالعدم جماعت الاحرار کے منحرف ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان الیکٹرانک میڈیا پر آیا کہ: ''طالبان پاکستان کے خلاف اسرائیل سے بھی مدد لینے کو تیار تھے‘‘۔ اخبارات نے اسے انکشاف قرار دیا ہے، جبکہ یہ قطعی طور پر انکشاف نہیں، اس لیے کہ اسرائیل روزِ اول سے پاکستان کے درپے آزار چلا آ رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی بنیاد میں عرب اور مسلم بھائی چارے کا جذبہ ہے۔ جب فلسطین کے سینے میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا سلسلہ چلا اور برطانوی پیل (Peel) کمشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو اس میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز پر علامہ اقبالؒ تڑپ اٹھے۔ علامہ پنجاب پروونشل مسلم لیگ کے صدر تھے۔ ان کی تجویز پر پنجاب پروونشل مسلم لیگ نے 27 جولائی 1937ء کو باغ بیرون موچی دروازہ میں احتجاجی جلسۂ عام کا انعقاد کیا۔ زیرِصدارت ملک برکت علی۔ اس رپورٹ کے جواب میں علامہ نے اپنا ردعمل انگریزی میں لکھ کے اشاعت کے لیے انگریزی اخبارات کو بھی بھجوا دیا تھا۔ جو ''نیو ٹائمز‘‘ میں شائع ہو چکا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ سیکرٹری جنرل پنجاب پروونشل مسلم لیگ غلام رسول بیرسٹر نے جلسۂ عام میں پڑھ کر سنایا۔ تقسیمِ فلسطین کی اس تجویز پر لاہور کے مسلمان بڑے جوش میں تھے۔
لکھنؤ: 15، 16، 17، 18 اکتوبر 1937ء- آل انڈیا مسلم لیگ کے 25ویں سالانہ اجلاس میں قائد اعظمؒ نے برطانوی پیل کمشن رپورٹ کی سخت مذمت کی۔ اور مسلم لیگ نے قرارداد بھی منظور کی۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں قائد اعظمؒ تقسیمِ فلسطین کی بھرپور مخالفت اور اسرائیل کے قیام سے پیدا ہونے والی مستقل بدامنی سے خبردار کرتے رہے۔ یہ معاملہ صرف تقریروں اور قراردادوں تک محدود نہ رہا، قائد اعظمؒ کا مفتی ٔ اعظم فلسطین سید محمد امین الحسینی سے بھی رابطہ تھا۔ 12 اکتوبر 1945ء کے طویل خط میں انہوں نے قائد اعظمؒ کی اسلامی خدمات کے اعتراف میں لکھا: ''میرا یہ خط آپ کی ان گراں قدر خدمات پر آپ کے لیے اظہارِ تشکر ہے‘ جو احکامِ خداوندی کے بموجب اخوتِ اسلامی اور مسلمانوں کے مابین تعاون کی خاطر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ سارے اسلامی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے آپ مسلسل انجام دے رہے ہیں... میں آپ کا بالخصوص مسلم لیگ کا اس غیرمعمولی التفات پر بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا‘ جو آپ نے مجھے عطا کیا‘ کیونکہ میری جلاوطنی کے دوران میں اور جب حالات بے حد کٹھن تھے‘ آپ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھی جو میرے کانوں تک پہنچی۔ اس کا تاثر شاندار تھا...‘‘۔ (صرف مسٹر جناح۔ ص:208-09)۔
بے حد کٹھن حالات میں قائد اعظمؒ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھی جو مفتی ٔ اعظم کے کانوں تک پہنچی۔ تب امام الہند اور شیخ العرب و العجم کو ہندو کانگریس کی خوشہ چینی سے ہی فرصت نہ تھی۔ بہرحال، قائد اعظمؒ ان کی مالی امداد بھی کرتے رہے۔ ''دی پیلسٹائن ٹرائی اینگل‘‘ مطبوعہ لندن کا مصنف نکولس ہیتھل صفحہ 84 پر مفتی ٔ اعظم سید محمد امین الحسینی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھتا ہے: ''اگرچہ یروشلم سے وہ سینکڑوں میل دور تھا، پھر بھی اس کا سحر قائم تھا۔ اس کی بات سنی جاتی تھی۔ مثلاً، وزارتِ خارجہ کے علم میں ہے کہ اسے ہندوستان کے مسلمان لیڈر محمد (علی) جناح سے باقاعدہ رقوم ملتی تھیں‘‘۔
پھر وہ برطانوی وزیر اعظم لارڈ ایٹلی کے نام قائد اعظمؒ کے تار کا ذکر کرتا ہے: ''... ایٹلی (Attlee) کو محمد علی جناح کی طرف سے تار موصول ہوا، جس میں انہوں نے مداخلت کرنے پر ٹرومین کو ملامت کیا: ''میرا فرض ہے کہ میں آپ کو اس امر سے آگاہ کروں کہ عربوں کی قیمت پر قومِ یہود کی خوش نودی کے آگے ہار ماننے پر مسلم دنیا اور مسلم انڈیا کی طرف سے پُرزور ناراضی اور پوری شدت کے ساتھ مزاحمت کی جائے گی‘‘۔ (صفحہ:220)۔
قائد اعظمؒ نے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی ہر طرح سے مخالفت کی اور امریکی اور برطانوی حکومت کو مجرم قرار دیتے ہوئے 8 نومبر 1945ء کو قیصر باغ بمبئی میں تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا: ''... امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغ کو پاش پاش کر دیں گے...‘‘۔
ایسے میں اسرائیل پاکستان کو کیونکر معاف کر سکتا تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کے فاؤنڈنگ فادر بن گوریان (Ben Gurion) نے پیرس کی ایک یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں کہا: ''عالمی صیہونی تحریک کو اپنے بارے میں پاکستانی خطرے سے بے پروا نہیں رہنا چاہیے... پاکستان اب اس کا اولین ہدف ہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ نظریاتی ملک ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے... سارے کا سارا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ ہمارے لیے خود عرب اس قدر خطرناک نہیں جس قدر کہ پاکستان ہمارے لیے خطرناک ہے۔ لہٰذا پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھانا عالمی صیہونیت کے لیے اشد ضروری ہے... بھارتی جزیرہ نما کے باشندے ہندو ہیں۔ پوری تاریخ میں جن کے دل مسلمانوں کے بارے میں نفرت سے بھرے پڑے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کے خلاف قلعہ بندی کرنے کے لیے بھارت ہمارے لیے انتہائی اہم اڈا (base) ہے۔ تمام بہروپ بھرنا اور خفیہ منصوبوں کے ذریعے اس اڈے سے فائدہ اٹھانا، یہودیوں اور صیہونیت کے دشمنوں، پاکستانیوں، پر غلبہ پانا اور انہیں کچلنا ہمارے لیے ناگزیر ہے‘‘۔
بن گوریان کے اس بیان کا برطانیہ میں صیہونی تحریک کے ایک ہفتہ وار ترجمان ''دی جیوش کرانیکل‘‘ نے اپنے 9 اگست 1967ء کے شمارے میں حوالہ دیا۔
اس پس منظر میں اسرائیل پاکستان کو چوٹ لگانے کا موقع کیسے گنوا سکتا تھا۔ بنگلہ دیش کے قیام میں اس نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ ''مشن ٹو واشنگٹن‘‘ میں قطب الدین عزیز آنکھوں دیکھا احوال بیان کرتے ہیں کہ ''صیہونی لابی، جو امریکہ میں اسرائیل کا سیاسی بازو ہے، سیاسی لحاظ سے بہت زیادہ بااثر اور افسانوی حد تک خوشحال ہے۔ شروع مئی میں نہایت بااثر اسرائیلی روزنامہ ''دی مارب‘‘ (MARRIV) نے اداریوں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کی حمایت کی‘ اور وہ شادماں توقع کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت کی ٹوٹ پھوٹ کی آس لگائے ہوئے تھا۔ تل ابیب نے مغربی دنیا میں اپنے پیروؤں کو پیغام بھیجا کہ وہ بنگالی علیحدگی پسندوں کی اخلاقی اور مالی امداد بڑھائیں‘ اور بنگلہ دیش کے قیام کا مقصد آگے بڑھانے اور پاکستان کو ٹکڑے کرنے میں بھارت کے ساتھ تعاون کریں۔ اس کے بعد امریکہ میں صیہونی اور بھارتی لابی نے پاکستان کے خلاف یکجا ہو کر کام کیا۔ اور واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز کے یہودی اداریہ نویسوں نے اپنے اداریوں میں اسلام آباد پر جو حملے کیے ان میں ان کا ٹیم ورک بآسانی تاڑا جا سکتا تھا... اسرائیلی حکمرانوں کی طرف سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کی مدد بلاشبہ ان کے بزرگ سیاستدان بن گوریان کے اس نظریے کے باعث تھی کہ صیہونیت کی مخالفت اور عربوں سے لگاؤ کے باعث اسرائیل کے لیے پاکستانیوں کو کچلنا لازم ہے... میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ امریکی اخبارات جن کے نظم و نسق یا ایڈیٹوریل بورڈ میں یہودی مفاد مسلط ہے وہ بنگلہ دیشی تحریک کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے‘‘۔ (ص:57و58)
اسرائیل بھارت کا ہمیشہ مددگار رہا۔ 62ء میں چین نے بھارت کی پٹائی کی تو بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اسرائیل کے فاؤنڈنگ فادر اور وزیر اعظم بن گوریان کو اپنی بپتا لکھی۔ جواب میں اسرائیل نے بھارت کو ہتھیار بھیجے۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اسرائیل نے بھارت کو ہیوی مارٹر توپیں اور ایمونیشن بھیجا۔ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان کیخلاف جارحیت کی تو اسرائیل نے بھارت کو بھاری ہتھیار، آرمز اینڈ ایمونیشن ہی نہ بھیجا، اس کے پائلٹ انڈین ایئرفورس کے جہاز اڑا کر جنگ میں حصہ بھی لیتے رہے۔
مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کی آڑ میں بے شک پاکستان کی سرزمین پر ہی پاکستان دشمن اور قائد اعظمؒ کی گستاخ جمعیت علمائے ہند کا صد سالہ جشن منائیں اور بے شک کہتے رہیں کہ آج تک کسی مدرسہ کا طالب علم دہشت گردی میں ملوث نہیں رہا۔ لیکن حقیقت حقیقت ہے اور اس کیلئے احسان اللہ احسان کی سابق ''کارکردگی‘‘ اور اب بیان ہی کافی ہے۔
اور امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کی موجودہ حکومت کیخلاف 1977ء طرز کی ''تحریک‘‘ چلانے کی بار بار کی دھمکی کو بھی خالی خولی نہ سمجھا جائے۔ ہاری ہوئی اور دل شکستہ قوم کو حوصلہ دینے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے ''جرم‘‘ میں امریکہ کے یہودی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کھلے بندوں وارننگ دی تھی: ''ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے‘‘۔ اسکے بعد 77 والی اینٹی بھٹو تحریک چلتی ہے۔ کہیں ہماری اپوزیشن کے موجودہ جوش کے پیچھے بھی 77ء والا خفیہ ہاتھ تو نہیں ہے جو پاکستانیوں پر غلبہ پانا اور انہیں کچلنا ناگزیر قرار دیتا ہے۔