ایک قومی روزنامہ کے ایک کالم نویس نے یہ جو لکھا ہے، ''مسلم لیگ جو مارشل لاؤں میں داشتہ کا کردار ادا کرتی رہی تھی‘‘ سراسر خلافِ حقیقت ہے۔ پہلا ملک گیر مارشل لا 7، 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب نافذ ہوا۔ آئین منسوخ، سیاسی جماعتیں کالعدم۔ صدر جنرل ایوب خاں نے یہ مارشل لا 8 جون 1962ء کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان تین برس آٹھ ماہ کے دوران میں مسلم لیگ ایک لمحے کے لیے بھی اس مارشل لا کی داشتہ نہ بنی۔ یکم مارچ 1962ء کو نئے آئین کے نفاذ کا اعلان ہوا تھا جس کے تحت 28 اپریل 1962ء کو قومی اور 8 مئی کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ایوب حکومت کو سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی، کہ اس کے بغیر کام چلانا مشکل نظر آ رہا تھا۔ 4 ستمبر 1962ء، کراچی میں مسلم لیگ کا کنونشن ہوا۔ اس میں 1962ء کے آئین اور صدارتی طرزِ حکومت سے اختلاف رکھنے والے مسلم لیگی شریک نہ ہوئے۔ اُن کا مَوقِف تھا کہ مسلم لیگ کو اس کی کونسل ہی بحال کر سکتی ہے نہ کہ کنونشن۔ یہ بات درست تھی اور سراسر جمہوری بھی۔ تحریکِ قیامِ پاکستان کے دوران میں قائد اعظمؒ ہر قدم آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے فیصلے کے مطابق اٹھاتے تھے۔ اور وہ کونسل کو پارلیمنٹ آف دی نیشن کہا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کنونشن کو مسلم لیگی آئین کی خلاف ورزی قرار دینے والے کونسلرز نے مسلم لیگ کی بحالی کا اعلان کیا تو یہ کونسل مسلم لیگ کہلائی۔ کراچی کنونشن میں وجود پانے والی کنونشن مسلم لیگ کے نام سے جانی گئی۔ قائد اعظمؒ کے ایک معتمد ساتھی خواجہ ناظم الدینؒ کونسل مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ 9 جنوری 1963ء کو کونسل مسلم لیگ کی رکن بنیں۔ صدر جنرل محمد ایوب خاں 22 مئی 1963ء کو کنونشن مسلم لیگ کے رکن بنے۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات کے لیے کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے جنرل ایوب خاں اور کونسل مسلم لیگ کی طرف سے مادرِ ملت ؒ امیدوار تھیں، اور انہیں تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہیں امیدوار بننے کے لیے آمادہ صدر کونسل مسلم لیگ خواجہ ناظم الدینؒ نے کیا تھا۔ فاضل کالم نگار بتائیں ایوب مارشل لا کے لیے مسلم لیگ نے کب اور کہاں داشتہ کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے یہ نام استعمال ضرور کیا، لیکن مارشل لا ہٹنے اور 1962ء کے آئین کے نفاذ کے بعد۔
ایوب خاں کے خلاف امریکی سی آئی اے کی چلائی گئی ایجی ٹیشن، جسے ہم بھولپن میں تحریک کہتے ہیں، کے نتیجے میں 25 مارچ 1969ء کو کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خاں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ 31 مارچ کو انہوں نے صدر پاکستان کی ٹوپی بھی پہن لی۔ 4 اگست کو ان کی سات رکنی کابینہ وجود میں آئی۔ بعدازاں اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ جنرل یحییٰ خاں 19 دسمبر 1971ء تک چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدرپاکستان رہے۔ اس دوران میں کسی مسلم لیگی دھڑے نے ان کے مارشل لا کے لیے داشتہ کا کردار ادا نہ کیا۔
21 دسمبر 1971ء۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں نے اقتدار منتقل کیا۔ اور بھٹو صاحب ملک کے پہلے، اور اب تک آخری، سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ ملک میں عبوری آئین کے نفاذ پر بھٹو صاحب نے 21 اپریل 1972ء کو مارشل لا ختم کر دیا۔ ان چار ماہ کے دوران میں مسلم لیگ کے کسی بھی دھڑے نے سول مارشل لا کے لیے بھی داشتہ کا کردار ادا نہ کیا۔ ایٹمی ری پراسیسنگ پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے بھٹو صاحب کو ''ہم تمہیں عبرت ناک مثال بنا دیں گے‘‘ کی دھمکی دی گئی۔ اس کے باوجود بھٹو کے خلاف امریکی سی آئی اے کی چلائی گئی مہم میں مسلم لیگ ہاؤس بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کا گڑھ بنا رہا۔ بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی امریکی دھمکی پورا کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا گیا۔ اس ایجی ٹیشن کو بھی تحریک کا نام دیا گیا۔ اسے مذہبی عبا پہنائی گئی۔ یہاں تک کہ ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور پیر صاحب پگاڑا نے کھلے بندوں سیکولر ہونے کے باوجود مسجد نیلا گنبد لاہور سے گلے میں قرآن کریم لٹکا کر اس پاکستان مخالف امریکی ایجی ٹیشن کا آغا زکیا۔ حتیٰ کہ حیدر آباد میں کھسروں تک سے جلوس نکلوایا گیا‘ جنہوں نے کولہے مٹکا مٹکا کر اور اپنی روایتی تالی بجا کر ''لے مار گولی‘‘ ، ''لے مار گولی‘‘ کا نعرہ گایا‘ تو معروف کالم نویس عطاء الحق قاسمی صاحب نے نوائے وقت میں ان کی مدح میں کالم لکھا۔ ایجی ٹیشن جس مقصد کے لیے چلوائی گئی 4، 5 جولائی 1977ء کی درمیانی شب وہ اپنی فطری انتہا کو پہنچی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاء الحق نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا، جس پر وہ 30 دسمبر 1985ء تک فائز رہے۔ ملک کے اس طویل ترین مارشل لا کے دوران میں کسی بھی مرحلے پر مسلم لیگ اس مارشل لاکی داشتہ نہ بنی۔ بلکہ 25 فروری 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سندھڑی کے مسلم لیگی محمد خاں جونیجو کو صدر ضیاء الحق نے وزیر اعظم نامزد کیا۔ 23 مارچ کو جونیجو صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور اپنے پہلے خطاب میں ہی جمہوریت اور مارشل لا کے ایک ساتھ نہ چلنے کا اعلان کر دیا۔
فاضل کالم نگار دیوار کی درز میں سے جھانک کر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ مارشل لاؤں کی داشتہ کا کردار ادا کرتی رہی، جبکہ ملک کا ساڑھے آٹھ برس پر محیط طویل ترین مارشل لا ایک مسلم لیگی محمد خاں جونیجو کے اعلان کے بعد جنرل ضیا کو 30 دسمبر 1985ء کو اٹھانا پڑا۔ اگرچہ جونیجو مرحوم کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔
12 اکتوبر 1999ء۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف قاضی حسین احمد کے دھرنوں کے نتیجے میں پیدا کی گئی فضا میں منتخب مسلم لیگی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر قابض ہو گئے۔ انہوں نے ملک میں مارشل لا نہیں لگایا، نہ ہی مارشل لائی طرز کے ضوابط جاری کیے، نہ فوجی عدالتی بٹھائیں، نہ لوگوں کو سرعام کوڑے لگائے۔ اس لیے آپ اسے فوجی حکومت بھی نہیں کہہ سکتے۔ آمریت کہہ لیں۔ تاہم جس نون لیگ کو انہوں نے اقتدار سے بے دخل کیا اس نے من حیث الکل استقامت دکھائی۔ اگرچہ میاں نواز شریف اینڈ فیملی نے جلد ہی مفاہمت کرکے جدہ کی راہ لی۔ اس لیے کالم نگار کا اپنے ممدوح اور محبوب میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے لیے یہ فرمانا درست نہیں: ''نواز شریف اور ان کے خاندان کے تمام افراد نے کال کوٹھڑیوں میں بدترین ذہنی تشدد کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا‘‘۔
جب جنرل مشرف کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں میاں صاحب جدہ چلے گئے‘ اور وہاں مجید نظامی صاحب نے ان سے ملاقات کی‘ اور وہ مفاہمت کے تحت ان کے اس فرار پر معترض ہوئے، تو مجھے خود نظامی صاحب نے بتایا، میاں نواز شریف نے انہیں جواب میں کہا: ''نظامی صاحب، آپ سے کوئی پردہ نہیں، مجھ سے جیل برداشت نہیں ہوتی‘‘۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلم لیگی دھڑا قائد اعظمؒ کا نام ضرور لیتا ہے لیکن ان کے کسی بھی اصول پر عمل پیرا نہیں۔ قائد اعظمؒ نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے سے واضح طور پر منع فرمایا تھا اور ہمارے مسلم لیگی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف فخریہ کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا ان کا دیا ہوا نام ہے۔ یہی اب فاٹا سے ہونے جا رہا ہے۔ قومی دھارے میں شمولیت کی آڑ میں یہاں بھی قائد اعظمؒ کی حکم عدولی کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ فوج اس پر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔