سر سکندر حیات اور اللہ بخش سومرو کے بعد پروگرام بنگال کے مولوی اے کے فضل الحق کے بارے میں ''مبارکی تحقیق‘‘ کا جواب دینا تھا، لیکن آ ٹپکا حسین نواز کا یہ ریمارک ''حسین شہید سہروردی سے لے کر آج تک ہمارے خلاف ہی سب کچھ ہوتا چلا آیا ہے‘‘۔ موصوف نے اس ایک جملے میں ہماری سیاسی تاریخ کے کئی پہلو سمو دیے ہیں۔ یہ اظہار انہوں نے یکم جون 2017ء کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، اسلام آباد، کے سامنے اپنی تیسری پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران میں کیا۔ اس سے ایک تو یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مارشل لاؤں اور فوجی حکمرانوں کا ہدف ہمیشہ سیاستدان رہے۔ لیکن اب تو ملک میں آمریت کے بجائے حسین نواز کے والد میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کا اس مائنڈ سیٹ کی طرف اشارہ ہو جسے ملک میں جمہوریت کی فضا اور ابھار ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جنرل محمد ایوب خاں کے مارشل لا میں پہلی بار سیاستدانوں کو ہدف بنایا گیا اور ان سیاستدانوں کو جنہوں نے اس مارشل لا سے گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ زیادہ تر نے یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن حسین شہید سہروردیؒ اور ہمارے ایک سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد محمد خاں لغاری اور چند ایک اور ڈٹ گئے۔
حسین نواز کے اس جملے سے دوسرا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے خلاف بھی کرپشن کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور حسین شہید سہروردیؒ کے خلاف بھی کرپشن کا کیس چلا تھا۔ سہروردی صاحبؒ پر کرپشن کا ایک ہی کیس چلا تھا، اور وہ انتہائی مضحکہ خیز تھا کہ اس کا موجودہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کرتوتوں کے ساتھ کوئی میل ہی نہیں۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request (التجا) کی تھی‘‘۔ سہروردی صاحبؒ ہمیشہ کی طرح یہاں سے بھی سرخرو نکلے۔
حسین شہید سہروردیؒ کو قائد اعظمؒ کا معتمد خاص ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ قائد اعظمؒ نے بہت کوشش کی کہ بنگال تقسیم نہ کیا جائے، اسے ایک تیسرے ملک کے طور پر آزاد کر دیا جائے۔ قائد اعظمؒ کہتے تھے: ''بنگال بذاتِ خود ایک برِاعظم ہے‘‘۔ لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لال نہرو نے قائد اعظمؒ کی یہ تجویز نہ مانی۔ بنگال کو متحد رکھنے اور ایک آزاد ملک کی حیثیت دینے کے حوالے سے وزیر اعظم بنگال حسین شہید سہروردیؒ کو قائد اعظمؒ کا اعتماد حاصل رہا‘ اور وہ اس نہج پر خاموشی سے کام بھی کرتے رہے۔ یہ سب ڈاکومینٹس اب سامنے آچکے ہیں۔
آج گوادر کا بڑا چرچا ہے۔ اس کے حصول کی کوششیں لیاقت علی خاںؒ کے زمانے میں شروع ہو چکی تھیں۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنی وزارتِ عظمیٰ (12 ستمبر1956ء تا 11 اکتوبر 1957ء) میں اس پر بھی بہت کام کیا، بہرحال، فیروز خان نون کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں یہ ڈیل مکمل ہوئی۔ بھول یہ ہوئی اسے فیڈرل ایریا قرار دینا چاہیے تھا۔ اب تو صدیوں سے موجود فیڈرل ایریاز (فاٹا) کو صوبہ کے پی کے میں مدغم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ جس طرح صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی قائد اعظمؒ کے واضح حکم کی خلاف ورزی تھی، اسی طرح فاٹا کا کے پی کے میں ادغام ایک بہت بڑی سیاسی غلطی ہو گی اور قائد اعظمؒ کے ایک اور حکم کی نافرمانی۔ اس پر میں پھر کسی وقت لکھوں گا۔ بہرحال، گوادر میں لیاقت علی خاںؒ اور سہروردی صاحبؒ سے لے کر فیروز خاں نون تک کوئی شاہراہ، ایونیو، پارک یا مقام ان سے منسوب کیا گیا ہے؟
ٹھیک کہتے ہیں حسین نواز کہ سہروردی صاحبؒ سے لے کر اب تک سیاستدانوں کے خلاف ہی سب کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اگر سہروردی صاحبؒ کی بات مان لی جاتی تو المیۂ مشرقی پاکستان وجود میں نہ آتا۔ مجھے یوسف خٹک مرحوم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ سہروردی صاحبؒ نے انہیں ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا: ''آپ ایوب خاں سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لیے ایک آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement (آئینی تصفیہ) ہو جائے، ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔ میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘ بلکہ اگر وہ دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہونا چاہیں تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ میں پاکستان کے لیے یہ آخری خدمت انجام دے دوں، کیونکہ میں دل کا مریض ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ اب میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہوں گا۔ لیکن میں پاکستان کے لیے یہ آخری خدمت انجام دینا چاہتا ہوں۔ اور مجھے کچھ نہیں چاہیے‘‘۔
ایوب خاںنے سہروردی صاحبؒ کی یہ پیشکش سُنی اَن سُنی کر دی۔ ایوب خاں نے انہیں ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے صدر ایوب خاں کو ایک طویل خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہے۔ سہروردی صاحبؒ کی پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی پولیس ایکشن شروع ہے اور یہ مستقبل کا بھوٹان اور سکم ہو گا۔
مجھے ایک انٹرویو میں ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عبدالحمید دستی نے یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا تھا کہ جب صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم سہروردی سے استعفا طلب کیا تو وہ رو رہے تھے۔ سہروردی جیسا بہادر اور جری سیاستدان کیوں رو رہا تھا؟ میں جستجو میں رہا۔ سید مرید حسین شاہ نے بتایا کہ انہیں روتا دیکھ کر نواب مظفر علی قزلباش نے حیرت کا اظہار کیا تو سہروردی صاحبؒ نے جواب دیا: ''میں اس لیے نہیں روتا کہ پرائم منسٹری جا رہی ہے۔ میں اس لیے روتا ہوں کہ کشمیر ہمیشہ کے لیے گیا‘‘۔ سید مرید حسین کی زبانی یہ سن کر میری جستجو کو ایک اور مہمیز لگی۔ سید امجد علی نے گتھی سلجھا دی۔ کہنے لگے، صدرِ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض مجھے کشمیر لے دیں۔
سہروردی صاحبؒ کے اگر آنسو بہے تو اس پاکستان کی خاطر۔ تب حکمرانوں کے لیے صادق اور امین کی شرط رائج نہ تھی، لیکن جسے دیکھو صادق اور امین ہی پاؤ گے۔
میں نے سید مرید حسین شاہ صاحب کا انٹرویو ''ان کہی سیاست‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا تو اس میں سہروردی صاحبؒ کے رونے اور کشمیر کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کا بھی تفصیلی ذکر ہے۔ اس کی خبر اخبارات میں چھپ گئی۔ شیخوپورہ سے ایک پرانے سیاسی ورکر نے مجھے فون کیا، ''آپ نے یہ کیا لکھ دیا کہ سہروردی رونے لگے۔ آپ کو پتا ہے سہروردی کیا تھے؟ یہ وہ ہستی تھی جس کا نام لینے سے پہلے وضو کر لینا چاہیے‘‘۔
حسین نواز کا یہ بیان ہوا میں نہ اڑا دیا جائے: ''حسین شہید سہروردیؒ سے لے کر آج تک ہمارے خلاف ہی سب کچھ ہوتا چلا آیا ہے‘‘۔