"FBC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم نواز شریف، تاریخ کے کٹہرے میں

جنوری 1947ء - سندھ میں مسلم لیگی حکومت تھی۔ نیشنل گارڈ کے رضا کاروں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے جلسہ کرنے کے لیے اجازت نامہ لیا جو سالار نیشنل گارڈ کراچی عثمان افغانی کے نام تھا۔ تقاریر وقت مقررہ سے پندرہ بیس منٹ تجاوز کر گئیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے عثمان افغانی کو پچاس روپے جرمانہ کی ادائیگی کا نوٹس موصول ہوا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر وہ تین یوم کے لیے قید کر لیے گئے۔ نیشنل گارڈ نے سیکرٹریٹ کے سامنے جلوس نکالا۔ پولیس لاٹھی چارج سے پندرہ بیس نوجوان زخمی اور سو کے قریب گرفتار ہوئے۔ نیشنل گارڈ کے ایک انتہائی سرگرم کارکن سعید ہارون نے ایک انٹرویو کے دوران میں مجھے بتایا: ''قائد اعظمؒ ان دنوں کراچی میں تھے۔ انہوں نے ہم سات طلبہ کو، جو ہنگامے میں سرکردہ تھے، طلب فرمایا۔ پوچھا: ''تم نے یہ سب کیوں کیا؟‘‘ ہمارا جواب تھا: ''ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ہمارے آدمی کو جرمانہ ادا نہ کرنے پر جیل بھیج دیا تھا‘‘۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا: ''جب آپ کے ساتھی کو جرمانہ ہوا تو اس نے کیوں نہ ادا کیا؟ جبکہ آپ کی طرف سے جرم تو ثابت ہو چکا تھا..... اگر آپ نے قانون کا احترام ابھی سے نہ سیکھا تو کل جب آپ کو حکومت چلانا پڑے گی تو لوگوں سے قانون کا احترام کیسے کراؤ گے؟ یاد رکھو، قانون کو بہرحال فوقیت حاصل ہے‘‘۔
قائد اعظمؒ کہا کرتے تھے: اگر آپ کا قائد اعظمؒ بھی غلطی پر ہو تو آپ کا فرض ہے اسے ٹوکیں۔ اگرچہ قائد اعظمؒ تاریخِ انسانی میں ایسے سیاسی لیڈر گزرے ہیں، دامن جن کا کسی غلطی یا لغزش سے ہمیشہ پاک رہا۔ جی ایم سید مرحوم اختلاف کے باوجود تسلیم کرتے تھے: ''ہم نے قائد اعظمؒ کے ساتھ کام کیا، نظم و ضبط اور مالی دیانتداری کے وہ سارے رنگ ڈھنگ قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں‘‘۔
ایسے قصۂ پارینہ ہوئے کہ ہم عدلیہ کو بھی معاف نہیں کرتے۔ اور اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے جو جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی ہے، اس کے بارے میں کیسے بھانت بھانت کے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ن لیگ کے طلال چودھری اسے قصائی کی دکان، جانبدار اور نااہل قرار دے چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے سیاسی مشیر آصف کرمانی کہتے ہیں: ''ایسے لگتا ہے کہ یہ جیمز بانڈ 007 کی فلم چل رہی ہے‘‘۔ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کا ارشاد: ''انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ سزائے موت کے مجرم ہیں‘‘۔
ظاہر ہے جے آئی ٹی آپ کو تفتیش کے لیے بلاتی ہے نہ کہ کسی عید ملن پارٹی پر۔ اگر کل کو فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں آتا ہے تو قصائی کی دکان اور 007 والے بیانات اور رانا ثناء اللہ کے اس ارشاد گرامی کے متعلق کیا کہیں گے: ''جے آئی ٹی کے خلاف تحریک چلی تو میں سب سے آگے ہوں گا‘‘۔ دوسری طرف حسین نواز کہتے ہیں: ''اگر ہمارے خلاف کوئی ثبوت ملتا ہے تو کارروائی ہونی چاہیے۔ جہاں تک ثبوت کا تعلق ہے انشاء اللہ کوئی ثبوت نہیں ملے گا‘‘۔ 
لیگی کارکنوں اور حسین نواز کے متضاد بیانات دراصل پیش بندی ہے۔ اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ہم کہہ سکیں کہ ہم نہ کہتے تھے یہ قصائی کی دکان ہے۔ اگر شواہد اور ریکارڈ کی رو سے تفتیش ہمارے حق میں گئی تو پھر کہیں گے، ہم نے تو کہہ دیا تھا: ''انشاء اللہ کوئی ثبوت نہیں ملے گا‘‘۔ علامہ پروفیسر طاہرالقادری کہتے ہیں: جے آئی ٹی نواز شریف کی مسلم لیگ کے لیے 2018ء کا پروگرام اور نعرے وضع کر رہی ہے۔ خیر، ہر کوئی حفظِ ماتقدم سے کام لے رہا ہے۔ اصل آزمائش وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ ہو وہ جذبات سے کام لیتے ہیں یا تحمل، بردباری اور برداشت سے۔ آج، 15 جون کو، وہ جے آئی ٹی کے حضور پیش ہو رہے ہیں۔ ان کا اصل امتحان جے آئی ٹی کی مکمل تفتیش اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شروع ہو گا۔ ماضی میں ہمارے ہاں ایسی تابناک مثالیں ہیں کہ نازک مراحل پر قیادت ملک و قوم کو بھنور میں دھکیلنے کے بجائے امن و شانتی میں لے گئی۔ خان لیاقت علی خاںؒ کا قتل کتنا بڑا سانحہ تھا۔ وہیں سے بنگلہ دیش پھوٹا۔ بیگم رعنا اگر ان کی خون آلود اچکن لہراتی ہوئی پشاور سے سلہٹ تک گھوم جاتیں تو اس نوخیز مملکت میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ لیکن اس عظیم خاتون نے اتنا بڑا غم سینے سے لگا کر عمر بھر صبر اور برداشت کی شمع جلائے رکھی۔ 
مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدر جنرل محمد ایوب خاں کے خلاف صدارتی امیدوار بن کر نکلیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان میں کس قدر جوش و خروش سے انہیں ویلکم کیا جاتا رہا۔ دھاندلی سے انہیں ہرا دیا گیا تو قوم کا جو ٹیمپو بن چکا تھا اس کے پیش نظر متحدہ حزبِ اختلاف نے انہیں تحریک کی قیادت کرنے کا کہا۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ وہ تحریک نہیں شورش اور ہنگامہ ہوتا جو ملک کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شورش، ہنگامہ آرائی اور ایجی ٹیشن کو تحریک کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اب ن لیگ کی طرف سے جے آئی ٹی کے بائیکاٹ آپشن کا جو گاہے ماہے ذکر ہوتا ہے، یہ بھی کوئی فائدہ بخش قدم نہ ہو گا۔ بائیکاٹ کون کرتا ہے؟ بزدل، قانونی اور آئینی لحاظ سے کمزور پوزیشن کا حامل۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خاں قتل کا جو مقدمہ چلا‘ صاف نظر آ رہا تھا کہ ملک کو ایٹمی قوت کی طرف لے جانے کے ''جرم‘‘ کی انہیں سزا دی جا رہی ہے‘ اور یہ امریکی ایجنڈا ہے۔ پھر بھی بھٹو صاحب نے بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا جیسا کہ میاں نواز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ جے آئی ٹی سے تعاون کریں گے اور حکومت کو سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے۔ ایسے میں بائیکاٹ کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ بائیکاٹ یا اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں ن لیگ کی ہنگامہ آرائی اس کی آخری سیاسی ہچکی ہو گی۔ ایسے غلط فیصلوں سے بڑی بڑی تحریکیں زمین بوس ہو گئیں۔ تاریخ میں ان کا صرف نام رہ گیا۔ تاریخ میں سچائی اور اصول سپریم ہوتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کیا خوب بات کہی تھی: ''میں موت سے نہیں ڈرتا۔ میرا تعلق تاریخ سے ہے۔ اور آپ تاریخ کو خاموش نہیں کر سکتے‘‘۔
اگر حسین شہید سہروردیؒ مارشل لا کورٹ کے سامنے مرادانہ وار ڈٹنے کے بجائے بائیکاٹ کر دیتے تو وہ تاریخی حقیقت کیسے سامنے آتی میرے 8 جون کے کالم میں جس کا تفصیلی ذکر آ چکا ہے۔ بھٹو صاحب بائیکاٹ کر دیتے تو یہ حقیقت کیسے محکم ہوتی کہ انہیں پھانسی دینے کا فیصلہ پہلے کر لیا گیا تھا، مقدمہ بعد میں چلایا گیا۔
میاں نواز شریف کو بھی حوصلے اور دانائی سے کام لیتے ہوئے اپنی پارٹی کے لوگوں کو اوٹ پٹانگ بیانات سے باز رکھنا چاہیے، اس سے سچائی چھپتی ہے نہ تحریکیں استوار ہوتی ہیں۔ ملک شورش زدہ ضرور ہو جاتا ہے۔ یہ چیز خود ن لیگ کے لیے زہرِ قاتل ہو گی۔ 
اگر شواہد اور ریکارڈ میاں صاحب اور ان کی جماعت کی خواہشات کے برعکس جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ نااہل بھی قرار پاتے ہیں تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ اصول بہرحال سپریم ہوتے ہیں۔ جی ایم سید کو انضباطی کارروائی کے تحت مسلم لیگ سے سبکدوش ہونا پڑا۔ 46ء کے انتخابات کے موقع پر قائد اعظمؒ نے عید گاہ میدان کراچی میں تقریر کے دوران میں کہا تھا: ''مجھے کسی سیٹ کی پروا نہیں۔ تم لوگ دادو اور سن جاؤ اور جی ایم سید کو شکست دو۔ میں نہیں چاہتا کہ جی ایم سید جیتے‘‘۔ قاضی اکبر جیت گئے۔ جی ایم سید ہار گئے۔ جی ایم سید نے انتخابی عذرداری کر دی۔ پاکستان قائم ہو گیا۔ قائد اعظمؒ گورنر جنرل تھے۔ قاضی اکبر قائد اعظمؒ کے پاس پہنچے۔ وہاں جو گفتگو ہوئی وہ حیدر آباد کے نامور اخبار نویس ظہیر احمد کی کتاب ''اب بھی زندہ ہیں‘‘ 1983ء- صفحہ53 پر قاضی اکبر نے اپنے انٹرویو میں یوں بیان کی ہے: ''میں نے قائد اعظمؒ سے کہا کہ آرڈی ننس جاری کر دیں کہ الیکشن ٹربیونل گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر کوئی پٹیشن قبول نہیں کرے گا۔ قائد اعظمؒ نے کہا: ''یہ آرڈی ننس اگر میں جاری کر بھی دوں تو تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟ تمہارے خلاف پٹیشن تو منظور ہو چکی ہے‘‘۔ میں نے کہا: ''آپ آرڈی ننس تو بے شک آج جاری کریں گے لیکن وہ نافذالعمل سابقہ تاریخوں سے ہو گا‘‘۔ قائد اعظمؒ نے بلا تاخیر کہا: ''میں یہ غیر آئینی اور غیر قانونی کام کبھی نہیں کر سکتا‘‘۔ اس بات نے میرے دل میں قائدؒ کی عظمت اور بڑھا دی۔ اور مجھے اندازہ ہوا کہ قائد اعظمؒ عملاً قانون کی عظمت اور سربلندی کے علم بردار ہیں‘‘۔
حالانکہ قائد اعظمؒ جی ایم سید کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ پھر بھی جی ایم سید کی پٹیشن پر اثر انداز ہونے کے لیے انہوں نے آرڈی ننس جاری نہ کیا۔ اسے کہتے ہیں آئین اور قانون کی بالادستی کو دل سے تسلیم کرنا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں