قراردادِ لاہور پر ''محققِ اعظم‘‘ ڈاکٹر مبارک علی کی فضول گوئی نے سر سکندر حیات خان اور اللہ بخش سومرو کے ساتھ بنگال کے مولوی اے کے فضل الحق کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ ارشاد فرمایا: ''بنگال کے فضل حق جنہوں نے قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی مسلم لیگ کے بجائے کانگرس سے بات چیت کر رہے تھے‘‘۔
قرارداد پیش کرنے کے باوجود اگر مولوی فضل الحق کانگریس سے بات چیت کر رہے تھے تو یہ ان کی سیاسی زندگی کا خاصہ تھا۔ ان کا ماضی، حال اور مستقبل ایسی اونچ نیچ سے معمور ملے گا۔ مثلاً:-گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کی تیاریوں کا مرحلہ تھا۔ 9 اگست 1936ء - ٹاؤن ہال کلکتہ میں یونائیٹڈ مسلم پارٹی کا جلسہ جھگڑے کا شکار ہوا تو مرزا ابوالحسن اصفہانی نے تجویز دی کہ تنازعہ دور کرنے کے لئے مسٹر محمد علی جناح کو کلکتہ آنے کی دعوت دی جائے۔ قائد اعظمؒ کلکتہ گئے۔ ان لوگوں کے ساتھ میٹنگیں کیں۔ نواب آف ڈھاکہ نے یونائیٹڈ مسلم پارٹی اور مسٹر اے کے فضل الحق نے کرشک پرجا پارٹی انتخابات کے لیے ختم کرنے اور قائد اعظمؒ کو ایک پارلیمنٹری بورڈ بنانے کا اختیار دے دیا۔ قائد اعظمؒ نے پارلیمنٹری بورڈ میں ان دونوں جماعتوں کو برابر نمائندگی دی۔ لیکن بورڈ کی پہلی میٹنگ سے ہی مسٹر اے کے فضل الحق بھاگ گئے، اس لیے کہ انہوں نے مطالبہ داغ دیا، بنگال میںکسی قسم کے معاوضے کی ادائیگی کے بغیر زمینداری ختم کر دی جائے۔ دوسرے، پرائمری تعلیم مفت کی جائے لیکن اس کے لیے کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے۔ پارلیمانی بورڈ کے لئے یہ دونوں مطالبے قابلِ قبول تھے نہ قابلِ عمل۔ اول الذکر اس دلیل پر کہ اسلام میں بغیر معاوضہ ادا کیے کسی کی اراضی ملکیت میں نہیں لی جا سکتی۔ دوسرے مطالبے، مفت تعلیم کی راہ میں بجٹ مانع تھا۔ لیکن مسٹر اے کے فضل الحق سستی شہرت کے لیے حسبِ عادت اپنے مَوقِف پر مُصِر رہے اور اپنی پارٹی الگ سے قائم رکھی۔ اور مسلم بنگال کی بہبود اور بقا کے سارے وعدے وعید طاقِ نِسیاں پر رکھ دیئے۔
مسٹر اے کے فضل الحق کی سیاسی زندگی ایسی کہہ مکرنیوں بلکہ قلابازیوں سے اٹی پڑی ہے۔ بنگال اسمبلی میں مسلم لیگ اکثریتی پارٹی تھی، پھر بھی اس نے صرف مسلم اتحاد کی خاطر قائد ایوان کے لیے مسٹر اے کے فضل الحق کا نام تجویز کیا، جسے انہوں نے بہ خوشی قبولیت بخشی۔ اور موصوف فی الفور مسلم لیگ میں شامل ہو کر لیڈر آف دی ہاؤس بن گئے۔ وزیر اعظم بنگال بننے کے بعد صوبہ بھر میں انہوں نے مسلم لیگ کا پرچار شروع کر دیا۔ اپنی کرشک پرجا پارٹی کو بالکل بھول گئے۔ اور اپنے ان دونوں مطالبات کو بھی، جن کی خاطر انہوں نے لڑھکنی کھائی تھی۔
8 اگست1940ء- وائسرائے کی طرف سے ایگزیکٹو کونسل میں توسیع اور نیشنل ڈیفنس کونسل کا منصوبہ سامنے آتا ہے، جو ''8 اگست کی آفر‘‘ (8th of August offer) سے مشہور ہوا۔ قائد اعظمؒ اور آل انڈیا مسلم لیگ نے فوراً ہی اسے نامنظور کر دیا تھا..... آل انڈیا مسلم لیگ کے فیصلے کے باوجود، جب اس سے ماورا وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے تینوں مسلم لیگی وزرائے اعظم کو نیشنل ڈیفنس کونسل میں نامزد کر دیا تو ہندو کانگریس اور دیگر مسلم دشمن قوتیں اور لوگ از حد فرحاں و شاداں ہوئے، کہ اب مسلم لیگ گئی! اس مسئلے پر، ایک تو وہ مسلم لیگ اور برطانوی حکومت کے درمیان تصادم کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ دوسرے، انہیں یقین تھا کہ قائد اعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کے بیچ محاذ آرائی ہو کے رہے گی۔ لیکن قائد اعظمؒ کے سیاسی تدبر، معاملہ فہمی اور قائدانہ کردار نے ان کی آس پر پانی پھیر دیا۔ وزیر اعظم پنجاب سر سکندر حیات اور وزیر اعظم آسام سر سعداللہ فوراً مستعفی ہو گئے۔ وزیر اعظم بنگال مسٹر اے کے فضل الحق کا چلن اَڑ بڑ رہا۔ قائدؒ کی سیاسی دانش نے مسٹر اے کے فضل الحق کی رسی ایسی دراز کی، کہ وہ ان کے گلے مڑھ گئی۔
مسٹر اے کے فضل الحق نے پس و پیش کیا۔ ورکنگ کمیٹی سے دس روز کی مہلت مانگی جو انہیں دے دی گئی۔ ٹال مٹول، حیلہ، بہانہ، عین وقت پر بیمار پڑ جانا، یہ مسٹر اے کے فضل الحق کی گاڑھی عادت تھی۔ مسٹر اے کے فضل الحق نے نیشنل ڈیفنس کونسل کی رکنیت سے استعفا تو دے دیا لیکن بڑی ڈھلمل یقینی سے اور تاخیری حربے اختیار کرتے ہوئے۔
یہ ایسا مرحلہ تھا کہ بنگال ہی نہیں پورا مسلم انڈیا مسٹر اے کے فضل الحق کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا اور انہیں مسلم لیگ سے نکال باہر کرنے کے مطالبات ہونے لگے۔ سیاسی دھماچوکڑیوں، جماعت کی بجائے ذات پیش نظر رکھنے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے صدر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں ناروا زبان استعمال کرنے پر مطلوب الحسن سید لکھتے ہیں: ''سارا بنگال ''شیرِ بنگال‘‘ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے لیے عوام میں جانا مشکل ہو گیا۔ عوام نے انہیں اس حد تک مسترد کر دیا کہ ایک بنگالی لیڈر نے کہا، ''مستقبل کے مسلمان اپنے بچوں کا نام فضل الحق رکھنے پر دہشت زدہ رہیں گے‘‘۔ (محمد علی جناح۔ اے پولیٹیکل سٹڈی۔ 1970ء۔ صفحہ: 250)۔
لیکن مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری کی یقین دہانی کے باوجود مسٹر اے کے فضل الحق نے مسلم لیگ مخالف سرگرمیاں جاری ہی نہ رکھیں، تیز تر کر دیں۔ مسلم دشمن شیاما پرشاد مُکرجی، سرت چندر بوس، کانگریس اور ہندو مہا سبھا کے ساتھ مل کے پروگریسو گروپ تشکیل دیا۔ اور Nova Joog (نوا یوگ) کے نام سے اخبار شروع کیا، جس کی پیشانی پر لکھا تھا: ''زیرِ ہدایت و انصرام: مسٹر اے کے فضل الحق‘‘۔ اس اخبار کا کام مسلم لیگ اور مسلم لیگیوں کو برا بھلا کہنا تھا۔
قائد اعظمؒ نے مسٹر اے کے فضل الحق سے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر جواب طلبی کی۔ موصوف نے حسبِ عادت تاخیری حربے اپنائے۔ بالآخر جماعتی نظم و ضبط کی شدید اور سنگین خلاف ورزیوں اور مخالفین کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے خلاف ساز باز کرنے کی پاداش میں انہیں مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ انہیں وزارت سے مستعفی ہونا پڑا۔ اسمبلی میں اکثریتی پارٹی مسلم لیگ تھی۔ بجائے اس کے کہ اس کے لیڈر خواجہ ناظم الدین کو وزارت سازی کے لیے کہا جاتا، جمہوری روایت کے برعکس انگریز گورنر نے پروگریسو کولیشن پارٹی کو دعوت دے دی‘ جس کا ساتھ اسمبلی میں موجود یورپی گروپ نے بھی دیا، کہ کانگریس اور انگریز دونوں کا یہ مقصد مشترکہ تھا: بنگال میں مسلم لیگ کا اثرورسوخ ختم کرنا۔ شیاما پرشاد مُکرجی اور اے کے فضل الحق کی مناسبت سے یہ ''شیاماحق وزارت‘‘ کہلائی۔
سراج گنج۔15فروری 1942 - بنگال پراونشل مسلم لیگ کے پُر ہجوم اور پُر جوش جلسۂ عام سے خطاب کے دوران میں قائد اعظمؒ نے مسٹر اے کے فضل الحق کی ساری سیاسی اچھل کود کی تفصیل بیان کی۔ اور ان تین جملوں میں ان کی سیاسی شخصیت سمو ڈالی:-
''مسٹر حق کے پسندیدہ کھیل سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اور اس سے بھی کہ وہ یہ کھیل کب کھیلتے ہیں۔ جب وہ کسی مشکل میں پھنستے ہیں، ہر بار، یا وقت مانگتے ہیں یا بیمار پڑ جاتے ہیں‘‘۔
آل انڈیا مسلم لیگ- 29واں سالانہ اجلاس، الہ آباد- 3 تا 6 اپریل 1942ء- قرارداد نمبر6 - تجویز کنندہ: مولانا جمال میاں فرنگی محلی۔ تائید کنندہ: خان بہادر ایم اے مومن:-
''مسٹر اے کے فضل الحق، جنہوں نے ہندوستان میں بالعموم اور بنگال میں بالخصوص مسلمانوں کے نصب العین کے ساتھ بار بار غداری کرتے ہوئے کلی طور پر ان کا اعتماد کھو دیا، آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس، اس امر پر، انہیں مسلم لیگ سے نکال باہر کرنے کے صدر کے بروقت اقدام پر اظہار تشکر و اطمینان کرتا ہے‘‘۔ (فاؤنڈیشنز آف پاکستان۔سید شریف الدین پیرزادہ۔ جلد دوم- صفحہ 393۔ سن اشاعت:1970ء)۔ اور بالآخر بنگال کے مسلمانوں نے 29 مارچ 1943ء کو ''شیاما حق‘‘ وزارت کی ارتھی نکال دی۔ شیاما حق وزارت مستعفی ہو گئی۔
سید مرید حسین کہتے ہیں:-''مولوی اے کے فضل الحق کے خلاف جس وقت قائد اعظمؒ نے ڈیفنس کونسل کے مسئلے پر ایکشن لیا۔ 43ء میں، مجھے یاد ہے، دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ سیشن ہوا۔ میرے ساتھ اتفاق سے بنگالی بیٹھے تھے۔ خواجہ ناظم الدین وغیرہ نہیں آئے تھے۔ وہ وہاں منسٹری بنانے میں مصروف تھے۔ اے کے فضل الحق کے سلسلے میں‘ میں نے ان سے پوچھا تو کہتے تھے، ایسا کوئی آدمی تو ہے نہیں جو قائد اعظمؒ کو ناراض کرکے اپنی پوزیشن پر بحال رہ سکے۔ اس لیے وہ گیا۔ لوگ قائد اعظمؒ کے حکم پر ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ (ان کہی سیاست۔ ص:108)۔
اگر اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کرنے کا اعزاز پانے کے باوجود سیاسی شعبدہ بازی جاری رکھی تو اس سے قراردادِ لاہور کی ثقاہت، منزلت، ساکھ، تاریخی حیثیت، تہذیبی تقدس اور منزلِ ہستی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ساکھ گری اور بھرم نکلا بھی تو خود مولوی اے کے فضل الحق کا۔ محقق صاحب کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔