ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

غالبؔ سے اُس کے محبوب نے مدّعا نہ پوچھا تو انہیں اپنے سنگ دل محبوب (جو کلاسیکی اُردو شاعری کا مرکزی کردار ہوتا ہے) کو یاد دہانی کرانا پڑی کہ اُن کے منہ میں بھی زبان ہے‘ وہ گونگے نہیں‘ بول سکتے ہیں۔ مگر اُس قوتِ گویائی کا کیا فائدہ اور کیا مصرف اور کیا عملی استعمال‘ جو محبوب کو اپنا مدعا بھی بتا نہ سکے۔ آج کے کالم کے عنوان کا پہلا لفظ وضاحت طلب ہے۔ غالبؔ کے شعر میں تو ''میں‘‘ کا لفظ ہے مگر کالم میں یہ فیض صاحب والا ''ہم‘‘ ہے۔ وہ افتادگانِ خاک جنہیں فیضؔ صاحب نے ذرہ بھر ہچکچاہٹ یا تحفظات کے بغیر یہ مژدہ سنایا تھا کہ اگر ہم لوگ اس طبقے (یعنی محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور کم آمدنی والے طبقے) سے تعلق رکھتے ہیں تو اس یقین دہانی پر صدقِ دل سے یقین کر لیں کہ وہ آنے والے دور میں ایسی انقلابی تبدیلیاں دیکھیں گے جس میں تاج اُچھالے جائیں گے‘ تخت گرائے جائیں گے اور مسند پر خاک نشین بٹھائے جائیں گے۔ فیض صاحب نے اپنی اس کمال کی نظم میں یہ سب کچھ دلنشین انداز میں بیان کیا ہے اور ایک طرح سے ایک ایسا رجز لکھ دیا ہے جو آج بھی ہر میدانِ جنگ میں باطل کے خلاف لڑنے والی حق و انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی خاطر لڑنے والی قوتیں پڑھتی ہیں۔ ماضی میں ہر میدانِ جنگ میں رجز بہ آواز بلند پڑھا اور سناجاتا تھا۔
آپ اخبار دیکھیں یا ٹیلی ویژن یاسوشل میڈیا فورمز پر ہونے والا کوئی مذاکرہ‘ آپ صرف حکمران طبقے کے افراد‘ خواہ گزشتہ دور میں برسر اقتدار رہے ہوں یا لمحۂ موجود میں یا متوقع وزیروں‘ وڈیروں‘ مشیروں یا ''خویش خسروان‘‘ کی فہرست میں شامل ہوں‘ کے بیانات(جو اکثر نورا کشتی میں ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں) پڑھتے اور سنتے ہیں۔ ہمیں اُن کی آواز کبھی سنائی نہیں دیتی جو کچی بستیوں میں رہتے ہیں یا دریائے سندھ کے ساحل پر کچے کے علاقے میں زندگی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ سکولوں کے اساتذہ‘ جن کو نہ صرف مردم شماری کی بیگاری اور جبری مشقت کی سزا ملتی رہتی ہے بلکہ ڈینگی مچھروں کا قلع قمع بھی کرنا پڑتا ہے‘ لیڈی ہیلتھ ورکروں‘ اقلیتوں، کم آمدنی والے لاکھوں سرکاری ملازمین‘ کلرکوں‘ چپڑاسیوں (جن کا یورپ میں نام و نشان تک نہیں ملتا)، صفائی والے عملے‘ بچوں اور گھریلو خواتین کی آواز بھی کبھی سننے کو نہیں ملتی۔ یہ سب صرف بے بس نہیں‘ بے آواز بھی ہیں۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ و عظ و خطبات میں بھی ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی ہزاروں نہیں لاکھوں مظلوم خواتین بااثر طبقات کو بالکل نظر نہیں آتیں اور نہ ان کی آہ و بکا ان کی سماعتوں تک پہنچتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں بیوی کے ساتھ اتنا برا سلوک ہوتا ہو تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کم عمر گھریلو ملازمین خصوصاً بچیوں کو کیسے کیسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہوگا۔
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق نگران حکومت کے وزرا نے کچھ ایسے بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں اور سیٹھوں سے ملاقات کی ہے جن پر ذخیرہ اندوزی، ٹیکس چوری، بجلی چوری اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات ہیں۔ اب اُن سے مشاورت کر کے معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر نگران وزرا نے چینی بنانے،ذخیرہ کرنے اور باقاعدگی سے سمگل کرنے والے والوں کو شرفِ ملاقات بخشا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اب چینی کے کارخانوں میں کام کرنے والوں، چینی بنانے والوں، وہاں شب و روز بوریاں اُٹھانے والوں اور گنا اُگانے والوں کے نمائندہ وفود سے بھی ملیں۔ صرف یہی نہیں‘ وہ بھٹہ مزدوروں سے، کاشتکاروں سے، اساتذہ سے، ہزاروں ٹیکسٹائل ورکرز سے، ہر سال سیلاب میں ڈوب جانے والے کسانوں سے، انجمنِ مزارعین سے اور خطِ غربت سے نیچے زندگی کی صلیب اُٹھا کر چلنے والوں سے بھی ملیں۔ کالم نگار کے دل پسند دو کرداروں‘اللہ دتااور اُس کی بیوی سکینہ سے بھی ضرور اور جلد از جلد ملیں۔
آپ اِسے نام نہاد جمہوری دور کی بڑی آزمائشوں میں شمار کر لیں کہ قانون ساز اسمبلی (صوبائی ہو یا قومی) میں مجال ہے کہ 99 فیصد آبادی‘ خصوصاً کسانوں، مزدوروں، عام گھریلو خواتین، اساتذہ، ڈاکٹروں، چھوٹے کاشتکاروں اور مزارعین کا ایک بھی نمائندہ قدم رکھ جائے۔ بقول ٹالسٹائی: اگر قیدیوں کو اپنا جیلر خود چن لینے کا اختیار دیا جائے تو وہ بے چارے اپنی سادگی کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ وہ قید سے آزاد ہو گئے ہیں۔ برطانوی نظام حکومت میں پارلیمنٹ کے دو ایوان ہوتے ہیں: ایوانِ زیریں (House of Commons) اور ایوانِ بالا (House of Lords)؛ یعنی دارالعوام اور دارالامرا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں‘ آئین میں دو ایوان ہونے کے باوجود‘ عملاًصرف ایک ہی ایوان ہے اور وہ ہے دارالامرا یعنی ہائوس آف لارڈز۔ اشرافیہ کے اراکین اپنی سہولت کی خاطر دونوں منتخب ایوانوں میں بیٹھتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کے وزرا یقینا نیک نیتی سے ہمارے معاشی اہرام کی چوٹی پر براجمان لوگوں سے ملتے ہیں اور اُن کی تجاویز اور مشورے توجہ سے سنتے ہیں مگر وہ میرے وطن عزیز کے مسائل کے حل کا حصہ نہیں بلکہ وہ بذاتِ خود سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ ٹیکس چوری ہے، کیا یہ کام غریب عوام کرتے ہیں؟ ارب پتی طبقے نے اربوں روپوں کی ٹیکس چوری کی اور لوٹ مار سے کمائی ہوئی دولت سے مبینہ طور پر دبئی، لندن، نیو یارک، پیرس اور یورپ کے دیگر شہروں میں مہنگی جائیدادیں خرید لیں۔ آپ کو کالم نگار کی بات پر اعتبار نہ آئے تو ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق سینیٹر مصطفی نواز کھو کھر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب سے اس بیانیے کی تصدیق (یا تردید) کروا لیں۔ آپ ایف بی آر کو ایک فون کال کریں‘ آپ کو پتا چل جائے گا کہ پاکستان کے محصولات کا نظام ٹیکس نہ دینے کا کھلم کھلا اعلان کرنے والے کو نان فائلر تسلیم کرتا ہے اور پاکستان میں اکثریت‘ بالواسطہ ٹیکس دینے کے باوجود‘ نان فائلر تسلیم کی جاتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور نگران وزیر توانائی محمد علی نے ابھی تک اپنے پیشرو وزرا اسحاق ڈار، شوکت ترین، حفیظ شیخ اور حفیظ پاشاسے ملاقات نہیں کی ہے۔ میری گزارش ہے کہ نگران وزرا ان سے دور ہی رہیں۔ اگر وہ کوئی مشورہ دیتے بھی ہیں تو اس پر ہر گز کان نہ دھریں۔ خوش قسمتی سے ابھی تک ہم اس نہج تک نہیں پہنچے جسے 'پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ کہتے ہیں۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ نازک مرحلہ‘ بصد مشکل ہی سہی‘گزر جائے گا اور ہم پاکستان کو فلاحی مملکت بنا کر اسے قوتِ اُخوتِ عوام کی برکت سے فرش سے عرش تک لے جا سکتے ہیں ،بالکل اسی طرح جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے چین، ویتنام، ملائیشیا، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات نے ترقی کی۔ یقینا ہمیں سرمایہ دار کی ضرورت ہے اور ہمارے ملک کو سرمایہ کاری کی بھی‘ مگر بقول اقبالؔ ہمیں محنت کو سرمایہ پر فوقیت دینا ہو گی۔ یہ انگریزی محاورہ‘ جو میں کئی بار پہلے لکھ چکا ہوں‘پھر دُہرائوں گا کہ ہم بیک وقت بھاگتے ہوئے خرگوش اور اس کا تعاقب کرنے والے شکاری کتے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ہم یا تو بھیڑ کے رکھوالے بنیں یا بھیڑیے کے معاون۔
چھہتر سالوں میں ہم عوام دُشمن اورمحنت کشوں کے مفادات کو اپنے مفاد پر قربان کرنے والے نظام کی وجہ سے اس برے حال کو پہنچے ہیں۔ اربوں ڈالر کی مزید غیر ملکی سرمایہ کاری اُسی طرح بے نتیجہ ثابت ہوگی جس طرح آج تک لیا گیا سینکڑوں ارب ڈالر کا قرضہ۔ ہمیں اتنی ضرورت سرمایہ کاری کی نہیں جتنی معاشی نظام میں انقلابی اصلاحات کرنے کی ہے۔ ہم شروع یہاں سے کریں کہ کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دیں، سٹیل مل کے کارکنوں کو اس بدنصیب مگر بھلے وقتوں میں اربوں روپے کا منافع کمانے والی مل کا مالک بنا دیں۔ حکومت ہر صنعتکار ،دُکاندار اور تاجرکیلئے قانوناً لازمی کر دے کہ وہ دیانتداری سے کاروبار کرنے اور ملکی قوانین کا احترام کرنے کا حلف اُٹھائے۔آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ صرف ان تین اقدامات ہی سے اندھیرے سے روشنی کی جانب ہمارا سفر شروع ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں