ثقافتی حملہ

تقسیمِ برصغیر کے پانچ سات برس بعد ہماری فلم انڈسٹری میں یہ تحریک چلی کہ ہندوستان ہمارے کلچر اور رسم و رواج کو تباہ کرنے کی خاطر ہندی فلموں کے ذریعے ہمارے ماضی اور حال کو مسخ کر رہا ہے۔ اتنی طاقتور انڈسٹری کے ساتھ پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اسی پسِ منظر میں 1954ء میں مشرقی پاکستان کے لائسنس پر، مغربی پاکستان میں نمائش کے خلاف ’’جال ایجی ٹیشن‘‘ کے عنوان سے ہمارے فلم سازوں اور فلم ایکٹروں نے ہندی فلموں کو روکنے کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد، مشہور اداکار سنتوش کمار، لالہ سُدھیر اور مادام نورجہاں وغیرہ نے حصہ لیا، ان سب کو ریجنٹ سینما کے سامنے سے گرفتار کر لیا گیا۔ بہرطور اس تحریک کے بعد بھارتی فلموں کی ’ایک کے بدلے ایک‘ کے فارمولے کے تحت درآمد برآمد شروع ہو گئی۔ 1965ء کی جنگ میں یہ سلسلہ بالکل منقطع ہو کر رہ گیا۔ یوں پاکستانی فلم انڈسٹری کسی قسم کے مقابلے کے بغیر ایک دائرے میں گھومنا شروع ہو گئی۔ بھارتی فلموں کی درآمد ممنوع قرار دینے کے بعد ہمارے وارے نیارے ہو گئے۔ کہیں تو یارانِ وطن نے کوئی بھارتی فلم ڈائیلاگ سمیت ہوبہو نقل کر لی اور کہیں اپنا مرچ مصالحہ ڈال کر اُس ہندی فلم کو دوآتشہ کر لیا۔ کچھ عرصے تک یہ کام چلا…مگر جوں جوں استاد لوگ درمیان سے اُٹھتے چلے گئے، پاکستانی فلم بھی آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو بیٹھی۔ بھارتی فلموں پر پابندی اور اپنا کلچر بچانے کی آرزو میں 50-55سال دُھول ہو گئے۔ بالآخر پاکستانی فلم ’الحاج سلطان راہی شہید‘ کی پھڑپھڑاتی مونچھوں اور المناک شہادت کے نقطے پر فل اسٹاپ ہو گئی۔ آج ہم اُنہی فلموں کو کھلے عام دیکھتے ہیں جن کے خلاف کل ہم نے بڑی تحریکیں چلا کر نعرہ بازی کی تھی۔ ثقافت کی تباہی کا جو نقطہ کبھی ہم نے اُٹھایا تھا، اُسے اُتنی ہی خاموشی کے ساتھ آج دفن کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی ثقافت کے دفاع کی خاطر آواز دیتے بھی تو اب کس کو دیتے؟ عرب بادشاہوں اور شیوخ کے حجروں میں پہلے ہی سے بغاوت برپا ہے۔ عرب شہزادیاں کوٹ پتلون اور نکٹائی زیب تن کیے یورپ اور امریکہ کی درسگاہوں میں کھلے بندوں پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی خواتین کے لیے آزادی کی تنظیمیں بھی بنا رکھی ہیں۔ رجعت کے بدترین ادوار میں عرب شہنشاہیت ہمارا بہترین لیڈر بنی رہی لیکن آج عرب شیوخ اور بادشاہ اپنے اپنے داخلی انقلابوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ آج سے چالیس پچاس برس اُدھر تک…عرب امرأ پاکستان سے اغوا شدہ کمسن بچے اپنے ہاں منگواتے، انہیں اونٹوں پر رسیوں سے جکڑتے اور پھر ان بچوں کی دل دہلا دینے والی چیخوں سے اُن اونٹوں کو صحرا میں دوڑاتے۔ ہمارے ہاں وہ لوگ جو بسنت کی پتنگ اُڑنے پر لوگوں کی زبان کاٹنے پر آمادہ ہو جایا کرتے ہیں، وہ اِن خوفناک ترین انسانی مناظر پر یوں سر جھکائے بیٹھے نظر آتے جیسے وہ اُسے خدائی فریضہ گردانتے ہوں یعنی ہم نے عربوں کی اُن جاہلانہ رسم و رواج کو بھی ’منجانب اللہ‘ فرض کر لیا جن کا قلع قمع کرنے کے لیے آنحضرتؐ نے انصاف اور انسانیت کی آواز بلند کی تھی۔ اس خلأسے ترکوں نے فائدہ اُٹھایا، انہوں نے معاشی اورسماجی طور پر لبرل ماحول میں بنے ہوئے اپنے ڈراموں کی ترسیل شروع کر دی۔ ان کے پہلے ڈرامے ’’عشقِ ممنوع‘‘ نے کم و بیش سارے پاکستانی بلکہ بھارتی ڈراموں کو بھی زمین بوس کر ڈالا۔ بس پھر کیا تھا…ترک ڈراموں کی ایک لائن سی لگ گئی۔ کمزور کہانی پر مشتمل اور تیسرے درجے کے اداکاروں کے محتاج پاکستانی ڈرامہ نگاروں نے اپنے ایک ایک کمرے کے اسٹوڈیو سے ایک بار پھر شور اُٹھایا کہ اِن ڈراموں کو بند کر دو کہ ان کم بختوں نے ہمارے سارے کلچر کا ستیاناس کر دیا ہے، ان پر فوری پابندی لگائو…تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بچا سکیں…لیکن اب زمانے کو واپس لوٹانا ممکن نہیں رہا کہ وہ اُن کے کھوکھلے نعروں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا ثقافت کا واحدمخزن صرف اُس علاقے کا مذہب ہوتا ہے یا پھر اس کے سوا کچھ اور عوامل بھی کسی خطے کی ثقافت کا حصہ ہوا کرتے ہیں یعنی کسی علاقے کے ثقافتی عوامل میں کیا اس کی زبان، اس کے گیت، اس کے سُر اور ساز، اس کے رسوم و رواج، اس کی تاریخ اور جغرافیے کا کوئی کردار نہیں ہوتا؟ اقوام کے اتصال سے ثقافت جنم بھی لیتی ہے اور اسی سے اس کا حسن بھی نکھرتا ہے۔ ہندوستان میں ترکوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت اور اُن کی رعایا کے مابین ایک انتہائی گہرے تعلق سے ایک بہت بڑی ثقافت ظہور میں آئی۔ انہی ہزار سالوں میں ہندوستان بہترین شاعری، بہترین ادب، بہترین ڈراموں، بہترین مغنیوں اور بہترین تعمیرات کا گہوارہ بنا۔ لہٰذا آج ہم جسے ہندی ثقافت کہہ کر رَد کر دیتے ہیں وہ دراصل ترک و ہند ثقافت ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر اُسے مفت ہندیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ترکیہ کے سوشل اور معاشی بیک گرائونڈ کو سمجھے بغیر پاکستانی ثقافت کے عَلم برداروں نے ترکی ڈراموں پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ گویا اب یورپ اور بھارت کے ساتھ ساتھ ترکی بھی ہماری ثقافت کے دشمن قرار پا چکا ہے۔ الغرض ہم بے چارگان کی حالت کچھ یوں دِگرگوں ہے کہ ہم گاہے عربوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، گاہے یورپ کا پلو پکڑتے ہیں…اور اب ترکوں کے سحر میں گرفتار ہیں، اس رویے سے نہ کچھ حاصل ہو گا اور نہ کچھ وصول! پاکستان میں فلموں کی مکمل ناکامی کے بعد ڈراموں کی بھرمار نے جو تھوڑا بہت معیار ڈرامے سے وابستہ تھا، اس کا بیڑہ بھی غرق کر دیا۔ اوّل تو ڈرامے کی طبقاتی نہج کو صرف مڈل کلاس کی بنیاد پر ہی اُٹھایا۔ چنانچہ غیر شادی شدہ پڑھی لکھی لڑکیوں کی کہانیاں، شادی کے مرحلہ سے محروم رہ جانے والے پروفیسروں کے قصے، متوسط طبقہ کے شادی شدہ جوڑوں کے مابین تشنج اور محبت کی داستانیں…الغرض ڈرامے کی کہانی، واقعات اور حالات کی بجائے محض کھوکھلے الفاظ اور مجہول قسم کے فلسفیانہ تعصب کے اردگرد گھومنے لگی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی ثقافت کہاں پناہ لے؟ افغانستان میں تو ہر لحظہ مومن کی گونجتی ہوئی کلاشنکوفوں کی نئی آن اور نئی شان ہے۔اُدھر سیاہ پوش ایرانی اخوند ماتمی جلوسوں میں مرثیہ خواں ہیں۔ بھارت سے ہماری نہیں بنتی، عرب شیوخ جدید فلمی کلچر سے ہی نابلد ہیں، یورپ اور امریکہ پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہے… اندریں صورت صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم اپنے لیے نئی ثقافت تخلیق کرنے کی بجائے جو کچھ موجود ہے، اُسی کی سرپرستی کریں اور اُسی کو آگے بڑھائیں…تو ہمیں اپنی ثقافت میں نہ کوئی کمی محسوس ہو گی اور نہ باہر سے کوئی ثقافتی حملہ ہوتا دکھائی دے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں