ماضی کا سمندر

نومبر 1968ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف نوجوان نسل کے ذہنوں میں اُبلتا ہوا لاوا بالآخر پھٹ پڑا۔ گلیاں کوچے اور بازار سبھی اس بغاوت کے لاوے کی لپیٹ میں آ گئے۔ چہار جانب جنرل ایوب خان پر گالی نما نعروں کی باقاعدہ چاند ماری ہونے لگی۔ سول اور سرکاری محکموں کی چُولیں جیسے ہل کر رہ گئیں۔ دفاتر میں کام کرنے والے چھوٹے موٹے سرکاری ملازم، میونسپل کارپوریشن کے ممبران، صحافی، فیکٹریوں کے مزدور...الغرض ایک دنیا اِن جلسے جلوسوں میں شامل ہونے لگی۔ 
امام جعفری اور ثناء اللہ ڈار راولپنڈی میونسپل کارپوریشن کے بڑے فعال ممبر تھے۔ امام جعفری راولپنڈی کے سیٹیلائٹ ٹائون میں رہائش پذیر تھے جبکہ ثناء اللہ ڈار غالباً اندرونِ شہر مقیم تھے۔ یہ دونوں ہمارے ساتھ ہر جلسے جلوس میں شامل رہتے۔ ثناء اللہ کو خدا بخشے ،اُنہیں چند ماہ قبل بھارت میں سزائے موت دے دی گئی اور امام جعفری کافی عرصہ قبل اللہ کو پیارے ہو گئے۔ 
امام جعفری بڑے خوش گفتار اور بامحبت کردار تھے۔ ان کے پاس سرخ رنگ کی ایک جیپ ہوا کرتی تھی۔ جعفری مرحوم کی جیپ ہمیشہ ہمارے قبضے میں رہتی۔ جب کبھی جلوس پر لاٹھی چارج ہوتا تو بسااوقات وہ بیچاری جیپ بھی لاٹھی چارج کا نشانہ بنتی۔ اُس عفیفہ کا کوئی کونہ کھدرا ایسا نہ تھا جو زخموں سے چُور نہ ہو۔ امام جعفری کے ایک بھانجے عامر جعفری بھی گورڈن کالج (راولپنڈی) میں زیرِ تعلیم تھے۔ سیاست سے اُنہیں براہ راست کوئی خاص لگائو نہیں تھا۔ عامر ادب اور کلچر کی جانب رجحان رکھتے تھے۔ بعد ازاں وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے امریکہ چلے گئے اور آج کے مشکل ترین حالات میں وہ پاکستان واپس پلٹے اور کسی بڑے پروجیکٹ میں کام کر رہے ہیں۔ میں نے یہ مختصر سا تعارف دراصل ڈاکٹر حامد جعفری کے پس و پیش کے حوالے سے لکھا جو امام جعفری کے دوسرے بھانجے تھے۔ حامد جعفری ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں ڈاکٹر ہیں اور پولیو کے حوالے سے آج کل اُن کا نام پوری دنیا میں فضا کے دوش پر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا چینل ہو جس پر اُن کا ذکرنہ چل رہا ہو۔ 
2010ء میں جونہی بھارت میں پولیو پھوٹ پڑنے کی خبر آئی تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس وائرس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ڈاکٹر حامد جعفری کی سربراہی میں ایک ٹیم بھارت روانہ کی۔ یہ ٹیم دوسال کی جدوجہد کے بعد بھارت سے پولیو کامکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ چنانچہ امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ڈاکٹر حامد جعفری کے حصے میں آیا۔ گویا ڈاکٹر جعفری نے دنیا میں پاکستان کا ایک بہتر امیج پیش کر کے ہم سب کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ کیا یہ کوئی کم بات ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر کھیل کر جوان ہونے والے ڈاکٹر جعفری کو غیر ممالک بھی انسانیت کی خدمت پر انعامات دینے پر مجبور ٹھہرے۔ اُن کی ذہانت کے سامنے اِدھر بھارت سرنگوں ہے تو اُدھر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن دوزانو ہے۔ مگر ہم بھی کیا لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے ان قابلِ فخر بیٹوں کو غیر ملکی قرار دے کر دھتکار رکھا ہے۔ کاش حکومت ڈاکٹر حامد جعفری جیسے بین الاقوامی پولیو کے ماہر کو پاکستان بلانے کا اہتمام کرے تاکہ ہم اپنے بچوں کو اپاہج اور مفلوج ہونے سے بچا سکیں۔ 
پاکستان میں 34 فیصد بچوں کو اب تک پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ قبائلی علاقوں میں شدید جنگ و جدل اور تھرپارکر میں ننگ و افلاس سے تڑپتے ہوئے بچے اس ویکسین سے محروم ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف اعشاریہ پانچ فیصد ایسے لوگ ہیں جو پولیو کے قطروں کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بڑی تعداد نہیں جس کے سامنے حکومت کے ادارے بے بس ہو جائیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولیو نے پاکستان کے اُن علاقوں کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جن میں اس کا قلع قمع کیا جا چکا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان سے یہ وائرس چین، افغانستان اور شام تک پھیل چکا ہے۔ اگر چندے یہی حال رہا تو پاکستان آنے اور جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خدا ہم پر رحم کرے کہ ہم پولیو ویکسین سے گریز کر کے اپنے بچوں کو اپاہج بنانا عین اسلام سمجھتے ہیں۔ خود ہم نے تو کوئی دوا ایجاد کی، نہ وائرس کو سلانے اور بیکٹیریا کو ختم کرنے کا علاج ڈھونڈا، نہ کینسر کی تشخیص، نہ دل کا علاج، نہ جگر کی تبدیلی اور نہ خون کے ڈائلیسز کا نظام بنایا...سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز تک سبھی 'کفار‘ کا کیا دھرا ہے! 
ہم نے ایک دوسرے کے سر اتارنے، کھوپڑیوں کے مینار چُننے، کرپشن کی غلاظت پھانکنے اور غریب کا حق مارنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کے سوا کوئی اور کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ نہ ہماری وحشت سے کوئی مسجد بچ پائی اور نہ کوئی امام بارگاہ...یار لوگوں کو جہاں موقع ملا انہوں نے مزاروں کو بھی بم لگانے سے گریز نہیں کیا۔ یہ نئی طرز کی ملائیت گولی کے زور پر اپنے ہی بنائے ہوئے فقہ کو اسلام قرار دیتی ہے۔ صرف پچھلے دس سالوں کے دوران دہشت گردی کی اس آگ میں ہزاروں بے گناہ افراد جل کر خاکستر ہو چکے ہیں۔ عوام اپنا دامن پھیلائے ساکت کھڑے ہیں کہ دہشت گردی سے انہیں کب نجات مل پائے گی؟
پچھلے تیس چالیس سالوں کے دوران پاکستان کی شہرت چاردانگ عالم میں کچھ اس طرح پھیل چکی ہے کہ اِدھر دنیا میں جہاں کہیں کوئی واقعہ رونما ہوا، دنیا نے اس کا ملبہ پاکستان کے سر پر ڈال دیا...ہماری دہشت ملاحظہ فرمائیے کہ ملائشیا کے گم ہونے والے طیارے کے متعلق ایک یہ تھیوری بھی پیش کی گئی کہ اگر وہ تباہ ہو کر سمندر میں نہیں ڈوبا تو پھر شاید اُسے ہائی جیک کر کے پاکستان لے جایا گیا ہو۔ یعنی آج کی دنیا ہمارا نام لے کر بچوں کو ڈراتی ہے۔ 
میرے ایک قاری نے لکھا ہے کہ 50ء، 60ء اور 70ء پر محیط پاکستان کا سنہری زمانہ شاید پھر کبھی نہ لوٹ پائے گا۔ تب ملائیت حجروں میں مقیم تھی اور اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف کے بجائے دینی علوم کی کتب تھیں...لیکن شاید انسانوں ہی کی مانند سماج بھی جوان ہوتے ہیں، پھر بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں اور بالآخر معدوم ہو کر ماضی کے سمندر میں اُتر جاتے ہیں...اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں، اس کا اندازہ خود لگا لیجئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں