درندے

انگریز نے ہمارے ہاں ایک ایسے محکمے کی بنیاد بھی رکھی جس کا کام اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کو روکنا تھا۔ یہ محکمہ دکانوں پر چھاپے مار کر اشیائے خورونوش کے نمونے حاصل کرتا اور پھر انہیں چیک کروانے کے لیے لیبارٹری میں بھیج دیتا تھا۔ ملاوٹیوں کو کبھی کبھار جرمانہ یا کوئی چھوٹی موٹی سزا ہو جاتی جس سے اس محکمے کا ایک بھرم اور خوف سا موجود رہتا لیکن پچھلے بیس پچیس سالوں میں ہمارے ہاں ملاوٹ، بدعنوانی اور رشوت کا ایسا شدید طوفان اٹھا جس نے ہر ملکی ادارے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ ہونے کو تو کوالٹی کنٹرول کا یہ محکمہ سرکاری کاغذات میں اب تلک موجود ہے لیکن عملاً اس کا وجود کہیں ثابت نہیں۔ اب اس کی کارکردگی دکانداروں سے صرف ماہانہ بھتہ وصول کرنے تک محدود رہ گئی ہے۔
ملاوٹ اور بدعنوانی ایسے شعبہ جات میں ہمارے دماغوں کی 'زرخیزی‘ کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ تارا میرا ایسے خالصتاً دیہاتی استعمال کے تیل میں بھی یار لوگوں نے ملاوٹ کر رکھی ہے۔ کسان اس تیل کو اپنے سروں پر لگاتے ہیں‘ اسے جانوروں کے مثانے اور جگر کی گرمی دور کرنے کا تیر بہدف علاج تصور کیا جاتا ہے؛ چنانچہ ہمارے دہقان گرمی کے موسم میں اسے اپنے جانوروں کو ضرور پلاتے ہیں۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اشیائے خورونوش کی منڈیوں پر قابض لوگ بنولے کے سستے تیل میں صرف اس حد تک تارا میرا 
مکس کرتے ہیں کہ اس کی بو تارا میرا جیسی ہو جائے۔ اس کی مخصوص کڑواہٹ قائم رکھنے کے لیے اس ملاوٹ شدہ تیل کے بڑے ڈرم میں تیزاب کی آمیزش کر دی جاتی ہے۔ لہٰذا عام خریدار جب اس تیل کی ایک بوند پیشانی پر لگا کر اس کی چنناہٹ کو چیک کرنا چاہے تو تیزابی جلن کے باعث وہ اس زہر کو خالص ترین چیز سمجھ بیٹھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ غریب جس نے سرپر استعمال کیا اس کے بال گئے اور جس کسی نے اپنے جانور کو کھلا دیا، وہ بے زبان گھل گھل کر مرا۔ الغرض اشیائے خورونوش کی منڈیوں میں دس پندرہ روپے کی خاطر یہ زہر فروخت ہو رہا ہے‘ لیکن کوئی نہیں جو بھیڑیوں کے اس غول کو عوام کا خون پینے سے روکے؟
دودھ والا ہر گھر میں آتا ہے۔ خواہ 80روپے کلو خریدیں، آپ کے مقدر میں آدھا دودھ اور آدھا پانی ہی رہے گا۔ ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے یہ خوف دامن گیر کہ کہیں کتے یا بلی کا گوشت ہی نہ کھلا رہے ہوں۔ پرزہ جات، مشینری اور الیکٹرانکس میں ہر چیز دونمبر، قدم قدم پر عوام کو لوٹنے کا اہتمام۔ راولپنڈی شہر میں ہر امپورٹڈ دوائی کے خالی کیپسول تھوک کے حساب سے بکتے ہیں۔ (دوسرے شہروں میں بھی بکتے ہوں گے) یار لوگ 
انہی کیپسولوں میں چونا اور آٹا بھر کر انہیں خالص دوائی کے نام سے بیچتے ہیں۔ اس دوائی کے ہاتھوں اگر کسی بچے یا جوان کی جان جاتی ہے تو جائے۔ ان بے حس قاتلوں کو صرف اپنے چند ٹکوں سے غرض! ہماری اجتماعی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ شام کا اخبار بیچنے والے لڑکے نے مجھے بتایا کہ یوں تو دو تین سو روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے؛ البتہ جس دن ایئرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن پر کوئی بم پھٹ جائے اس شام 1000روپے بھی کما لیتا ہوں۔ الغرض ہم گورکنوں کا ایک ایسا سماج ہیں جس کی دکان صرف دوسروں کی موت پر چلتی ہے۔ ہمارا طریقہ واردات ہر حکم خداوندی کی نفی کا شاہد ہے‘ پھر بھی اس متعفن سماج کی پیشانی پر ہم نے 'اسلامی‘ کا لیبل چسپاں کر رکھا ہے۔
میری پھوپھی زاد بہن بے اولاد ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ قبل ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو ہم نے انہیں ایک میڈیکل کمپلیکس میں داخل کرا دیا۔ ڈاکٹر نما کمپائونڈر نے جناح سپر اسٹور کے ایک خاص ڈرگ اسٹور سے ایک عدد سیمن پن (Stieman Pin) خرید لانے کو کہا۔ یاد رہے یہ پن مریض کی ٹانگ میں سوراخ کر کے لگائی جاتی ہے اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کو سیدھا کرنے کے لیے اس پروزن لٹکایا جاتا ہے۔ دوسری صبح جب مریضہ کو دیکھنے گیا تو میں ان کے پائوں میں ایک پرانی زنگ خوردہ پن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہسپتال کے عملے سے پوچھا کہ وہ نئی پن کہاں گئی؟ کہنے لگے اس کو ہم نے اسٹور میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پہلے سے استعمال شدہ پن مریضہ کو لگا دی ہے۔ ادھر ادھر سے تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ ہسپتال کا عملہ دراصل مریضوں کی استعمال شدہ پن اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ جونہی کوئی نیا بدقسمت مریض ان کے ہتھے چڑھتا ہے وہ اسے جناح سپر کے اسی اسٹور سے نئی پن لانے کو کہتے ہیں (اسی اسٹور کا ایک سیلزمین ہر وقت سرجیکل وارڈ میں منڈلاتا پھرتا ہے) یہ نئی پن اسی نمائندے کو واپس تھما دی جاتی ہے‘ جب کہ پہلے سے کئی بار استعمال شدہ پن ایک بار پھر مریض کے جسم میں لگا کر عملۂ ہسپتال اپنا فرض ادا کر دیتا ہے۔ نئی پن کی قیمت کا نصف حاصل کرنے کی خاطر اس بڑے ہسپتال کا عملہ، مریضوں میں مرض بانٹتاپھرتا ہے لیکن اس اندھیر نگری میں کوئی ایسا ادارہ یا فرد موجود نہیں جو بدعنوانی کے اس جگن ناتھ کو روک سکے۔ یہ محض ہلکا سا ٹریلر تھا...اصل فلم تو دیکھنا ممکن ہی نہیں! 
اگر ہمارے وزیر صحت اپنا حلیہ بدل کر صرف ایک رات کے لیے کسی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر داخل ہو جائیں تو انہیں اپنے نو آموز ڈاکٹروں کی بے حسی اور نرسنگ اسٹاف کے گالی نما رویے کا کچھ اندازہ ہو سکے۔ انہیں ہسپتال کے برآمدوں میں کیڑوں مکوڑوں کی مانند رینگنے والے مریضوں اور شدید گرمی میں جھلستے بے سفارش لواحقین کے ساتھ ہونے والے عبرت انگیز حشر کا کچھ علم تو ہو سکے۔ اگر کوئی مریض پانی کے ایک گلاس کے لیے تڑپ تڑپ کر جان دے دے تو بھی خوش گپیوں میں مصروف نرسنگ اسٹاف اٹھ کر اس کی مدد کرنا گناہ جانتا ہے۔ اگر مریض بے ہوش ہے تو اس کے ہاتھ یا چہرے کی صفائی کرنا نرس کی ڈیوٹی کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ نرسنگ اسٹاف صرف ڈاکٹری کرتا ہے یعنی ٹیکہ لگا دیتا ہے یا پھر دوچار بار نبض کنٹرول کر لیتا ہے وہ بھی صرف اسی صورت میں کہ کوئی بڑی سفارش ہو۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں عملہ قطعاً کم نہیں۔ سچ پوچھیے تو یہاں پر ایک عام غریب آدمی کے لیے نہ تو کہیں دارو دوا موجود ہے اور نہ ہمدردانہ اور انسانی سلوک ہی کا کوئی سراغ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں