پوٹھوہار کا ٹالسٹائی

کہوٹہ سے چار پانچ کلو میٹر جنوب کی سمت 'سروٹ‘ نامی ایک چھوٹا سا گائوں نالہ لنگ کے کنارے آباد ہے۔ پوٹھوہار کی اس روایتی بستی میں آپس کے چھوٹے موٹے مسئلے ہی زندگی کاحرف آخر سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں کے سادہ طبع دہقانوں کا پیشۂ آبا صدیوں سے سپہ گری چلا آ رہا ہے۔ میں بچپن میں بارہا 'سروٹ‘ سے پیدل گزرا (اس علاقے میں ہماری رشتہ داریاں تھیں) مجھے یہ بات کسی معجزے سے کم نظر نہیں آتی کہ پتھریلی زمین پر واقع یہ پسماندہ سی بستی ایک ایسے بے مثال صاحب دانش کو جنم دے سکتی ہے جس کے قلم میں موجوں کی روانی ہو، جس کا ہر افسانہ جیتی جاگتی کہانی ہو۔ اس کا مشاہدہ عمیق بھی ہو اور وسیع بھی۔ ان کنکریلے ٹیلوں اور ٹیکریوں سے سفر حیات کا آغاز کرنے والا یہ عظیم قلمکار ابن آدم تھا۔ جسے بلاشبہ خطۂ پوٹھوہار کا ٹالسٹائی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ابن آدم کا اصل نام محمد بنارس تھا۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم کہوٹہ ہائی سکول میں حاصل کی اور یہی اس کی کل تعلیم بھی تھی۔ اسے کسی کالج میں جانا نصیب نہیں ہوا۔ سکول سے فارغ ہوتے ہی یہ نوجوان اپنی علاقائی اور خاندانی روایات کے مطابق فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اس نے 1962ء میں فوج ہی سے اپنی پہلی کہانی راولپنڈی کے روزنامہ تعمیر میں اشاعت کے لیے بھیجی۔ یہ اس نوجوان کے اندر خوابیدہ قلمکار کی پہلی انگڑائی تھی۔ ان دنوں تعمیر کی ادارت الطاف پرواز کے ہاتھ میں تھی۔ پرواز کو خدا غریق رحمت کرے خود جوہر قابل بھی تھے اور جوہر شناس بھی۔ انہوں نے فوراً اس جوان کو اپنے پاس بلوایا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اس ابتدائی دور میں وہ ایم بی شاہین کے نام سے لکھتا رہا۔ ایم بی محمد بنارس کا مخفف تھا اور شاہین اس کا تخلص۔ بعد ازاں صوفی زمان کی تجویز پر اس نے ابن آدم کا قلمی نام اختیار کیا۔ سچ پوچھیے تو ابن آدم کی اصطلاح جیسے صرف اسی مردِ درویش کے لیے وضع کی گئی ہو۔ پھلدار ٹہنی کی مانند سر خمیدہ قلندر جس کی زبان اور قلم سے صرف پیار اور انسانیت کے سوتے پھوٹتے رہے۔
ابن آدم نے ریڈیو کے لیے اتنا زیادہ لکھا کہ راولپنڈی اسٹیشن کی تاریخ اس کا ذکر کیے بغیرمکمل نہیں ہو سکتی۔ ریڈیو سے اس کے ان گنت ڈرامے، فیچر اور خاکے نشر ہوئے۔ اس کا پوٹھوہاری پروگرام 'گراں نی وسنی‘ کئی سال تک انتہائی کامیابی سے چلتا رہا۔ وہ بذات خود ریڈیو کا ایک بہت اچھا صداکار بھی تھا۔ 
ساٹھ کی دہائی پاکستان میں ڈائجسٹوں کا آغاز تھی۔ ستر کی دہائی میں یہ نیا ادب مارکیٹ پر چھا گیا۔ یہ مسلسل اور خیالی کہانیوں کا دور تھا۔ ابن آدم کی شگفتہ اور دلچسپ سلسلہ وار کہانیاں ڈائجسٹوں کے اس دور کا طرۂ امتیاز ٹھہریں۔ اس کی کہانی 'آوارہ گرو‘ مسلسل دس سال تک ایک ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ صرف ایک کہانی پر مشتمل ناول آج چار ضخیم جلدوں میں دستیاب ہے۔ اس کی کتابوں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہو گی، جن میں سے تیس کے لگ بھگ صرف بچوں کے لیے لکھی گئیں۔
ابن آدم عمر بھر ذاتی تشہیر سے گریز پا رہا۔ خطہ پوٹھوہار کے وہ لوگ جو ڈائجسٹوں کے حوالے سے اسے جانتے ہیں، وہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مقفی اور مسجی اردو لکھنے والا یہ شخص دراصل ان کے اپنے علاقے کا سپوت ہے۔ اس کے پڑھنے والے اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اردو اس کی مادری زبان ہو گی۔ میں خود ایک عرصہ دراز تک اسے اہل زبان سمجھتا رہا۔ نومبر 1996ء میں وہ صابر منہاس کے ساتھ پہلی بار ہمارے ہاں آیا، تب مجھے جان کر ناقابل بیان حد تک خوشگوار حیرت ہوئی کہ ابن آدم کا تعلق سروٹ سے ہے۔ میں ہمیشہ سے اس کی زود اور زیاد نویسی کا معترف تھا۔ 
یہ عظیم انسان، عظیم ڈرامہ نگار اور قلمکار انتہائی بے بسی اور کسمپرسی کے عالم میں جگر کے سرطان کے ہاتھوں گھل گھل کر 8مئی 1998ء کی صبح اس خالق حقیقی سے جا ملا۔ وہ ہمیشہ کی مانند دھیمے انداز میں چلتے ہوئے زندگی کی آخری سرحد عبور کر گیا۔ عدم کی ان پنہائیوں میں کھو گیا جہاں سے کوئی لوٹ یا پلٹ کر 
واپس نہیں آیا کرتا۔ لیکن جس ریڈیو کے لیے اس نے اپنی آدھی عمر تیاگ دی، وہاں سے اس کی موت کی خبر تک نشر نہیں ہوئی۔ یہی حال ٹی وی کا نکلا۔ ایک آدھ اخبار کے سوا کسی نے اس کی وفات پر دو سطر کی خبر تک شائع کرنا مناسب نہ جانا۔ وہ غریبوں کے لیے لکھنے والا ایک غریب انسان تھا، سو خاموشی سے مر گیا۔ اگر وہ عرشی طبقے کا لکھاری ہوتا، اگر اس نے کسی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی تقاریر لکھی ہوتیں یا وہ نام نہاد ادیبوں کے کسی گروہ میں شامل ہوتا، اگر وہ مراعات کی خاطر قلم گھسیٹنے والی کسی انجمن ستائش ہی کا ممبر ہوتا تو اس کی بیماری پر ہی ایک طوفان برپا ہو جاتا۔ اس کی موت پر ایوان ہائے اقتدار میں موت کے ناقوس بج اٹھتے مگر اس کی شناسائی کا دائرہ علی امام رضوی، نثار ناسک، طارق لودھی اور اخبار فروش یونین والے ٹکا خان تک محدود تھا۔ سو یہی اس کے جنازے پر پہنچ پائے۔
ہمارے ہاں 'جپھہ اور جنازہ‘ سیاسی کلچر مروج ہے۔ یعنی ہمارے اراکین پارلیمنٹ ہر کسی کو جپھہ مار کر ملتے ہیں اور جہاں کہیں موت مرگ ہو جائے وہ چیلوں کی مانند اڑ کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ یہ 'جپھہ اور جنازہ‘ کلچر بھی اس کے جنازے میں شرکت کو نہیں پہنچ پایا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں