علم کی تلاش!

یکم اپریل سے 5اپریل (2014ء) تک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں'مستقبل کی تعمیر‘ اور 'تعلیمی نظام کا ازسرِ نو جائزہ‘ کے زیرِ عنوان چھٹی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا مطمحِ نظر پبلک سیکٹر کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر تھا۔ کانفرنس میں پیش رفتہ ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے اور ہم جیسے افتادگانِ خاک بھی شاملِ حال تھے۔ اس کانفرنس کا اہتمام ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے کیا تھا۔ تعلیم کی گلوبلائزیشن سے لے کر اساتذہ کی تربیت تک ہر پہلو پر شرکاء نے اپنے اپنے مقالے پڑھے۔ ترقی یافتہ ممالک کے نمائندوں کا یہ کہنا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنی ضرورت کے مطابق یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طلباء کی سرپرستی کرے تاکہ جونہی وہ فارغ التحصیل ہوں، انہیں روزگار مل سکے۔ یہاں تعلیم کے لیے 'بکنے والی شے‘ (Saleable Commodity) کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی۔ پہلے تو یہ تعریف بڑی نامانوس سی لگی کہ ہم گئے گزرے سماج کے لوگوں کو تو یہی لکھایا، پڑھایا اور سمجھایا جاتا رہا کہ علم ایک فضیلت اور ریاضت کا نام ہے۔ یہ فطرت کے پوشیدہ رازوں کو تسخیر کرنے کا ذریعہ ہے۔ مگر جب ذرا غور کیا تو علم کی 'بکنے‘ والی تعریف کوئی ایسی بے جا دکھائی نہ دی۔ یعنی تعلیم بھی پہلے تو خریدنا پڑتی ہے، اس پر وقت اور سرمایہ دونو ںلگانے پڑتے ہیں اور پھر رزق کمانے کے لیے اُسے 'شے‘ کے طور پر ہی بازار میں فروخت پڑتا ہے۔ جب ذرا اور گہرائی سے سوچا تو احساس ہوا کہ دنیاوی علم کو تو چھوڑیے ایک جانب، ہمارے ہاں تو قرآن جیسی نعمت کو بھی کوئی مفت پڑھانے کو تیار نہیں۔ جہاں یہ عالم ہو... وہاں قربانی کی کھالوں کو سمیٹنے والے ہوں یا نعت خواں، ذاکر ہوں یا قاری حضرات...ان سب سے بھلا کیا گلہ ...!جو اور کچھ نہیں بیچ سکتا وہ مذہب کے نام پر ہی اپنی روٹی کا اہتمام کر لیتا ہے۔ 
کانفرنس میں جب ہم جیسے خاک و خون میں لتھڑے ہوئے ممالک میں نجی تعلیمی اداروں کا ذکر چلا تو اپنی باری آنے پر میں نے شرکائے کانفرنس سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے حوالے سے بات کی، ''ہمارے ہاں آدھے بچے اس لیے سکول کا منہ نہیں دیکھ پاتے کہ وہ معاشی طور پر زیریں طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں کوئی آدمی نجی تعلیمی ادارہ کھولنے کو اس لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہاں اُسے اس کاروبار میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی نہ بچوں کے غریب والدین فیس ادا کر سکتے ہیں اور نہ کوئی نجی تعلیمی ادارہ انہیں مفت تعلیم دینے کے لیے آمادہ ہو پاتا ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن ایسے ہی علاقوں میں غریب طبقات کے بچوں کو سکولوں میں لانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ وہ مقامی کمیونٹی کو متحرک کر کے وہاں سکول کھولتی ہے۔ یوں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بچوں کی فیس فائونڈیشن سرکاری خزانے سے ادا کرتی ہے۔ سکول کو چلانے، اس کی عمارت، اساتذہ اور طلباء کے لیے دوسری سہولیات کی ذمہ داری سکول کے نجی مالکان کے سر ہوتی ہے۔ آج فائونڈیشن 14لاکھ سے زائد بچوں کی ماں ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جن میں سے بیشتر نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی فائونڈیشن کی طرز پر بچوں کو سکولوں میں لانے کی مہم جاری ہے۔ پاکستان کو سب سے پہلے تعلیمی انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے یہ ہدف حاصل کر لیا، ہمارے باقی مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔‘‘ کانفرنس کے شرکاء نے پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کو پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہترین ماڈل قرار دیا ۔
چلیے یہاں سان فرانسسکو کی تاریخ کا بھی مختصر سا ذکر کرتے چلیں۔ سان فرانسسکو، امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا مشہور شہر بھی ہے اور بندرگاہ بھی۔ اس شہر کے چہرے پر 16ویں صدی سے یورپی نو آبادکاروں کی مہم جویانہ چیرہ دستیوں کی داستان رقم ہے۔ وہ ایک عرصے تک ہسپانیہ کے زیرِ تسلط رہا۔ 1821ء میں میکسیکو نے ریاست کیلیفورنیا کے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ 1846ء میں امریکہ نے میکسیکو کو شکست دے کر کیلیفورنیا کو ایک نئی ریاست کے عنوان سے اپنے ملک میں شامل کر لیا۔ کیلیفورنیا کو 'طلائی ریاست‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں سونے کی تلاش میں بھٹکنے والے صدہا یورپین ریگزاروں کے گردباد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہو کر رہ گئے۔ برسبیلِ تذکرہ 1846ء میں ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب (بشمول خیبر پختونخوا) پر قبضہ کیا تھا۔گویا نوآبادیاتی دور کی کہانی ایک جیسی ہے، خواہ وہ برصغیر کی دھرتی ہو، گرمی کی تپش 
سے جلتا ہوا افریقہ ہو یا پھر براعظم امریکہ، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی سرزمین، سبھی ایک جیسے حشر سے گزرے!
آج سے دس پندرہ برس پہلے تک امریکہ میں ڈالر کی کوئی قدروقیمت بھی تھی اور اس کی قوتِ خرید کا وزن بھی تھا۔ 1998ء تک صرف پونے ڈالر میں ایک گیلن پٹرول میسر تھا، آج مہنگائی کے طوفان نے دوسرے ممالک کی مانند امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چنانچہ پٹرول کا ایک گیلن پونے چار ڈالر میں بِک رہا ہے۔ گویا یورپ کی مانند امریکہ بھی اب تک کساد بازاری کے چنگل سے باہر نہیں آ سکا۔ امریکہ کی کسی دکان میں مجھے کوئی ایسا مال نظر نہیں آیا جس پر میڈ اِن امریکہ لکھا ہو۔ گویا یہاں کی دکانوں میں بھی بیشتر چین کی مصنوعات فروخت ہو رہی ہیں۔ چین سے انتہائی ارزاں قیمت پر امپورٹ کیا ہوا مال دکاندار کئی گنا زائد قیمت پر بیچتے ہیں۔ کہیں کہیں بنگلہ دیش اور ہندوستان کے بنے ہوئے کپڑے بھی نظر آتے ہیں۔ میکسیکو جیسے ملک کی بھی کئی اشیاء دکانوں میں دکھائی دیں۔ رہے ہم...تو کسی دکان میں اپنی بنی ہوئی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اور نظر کیا خاک آئے کہ ہم کچھ بنانے اور سنوارنے کے بجائے سب کچھ بگاڑنے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ اگر ہم ہی درست ہو جائیں تو ایک زمانہ اپنا سرمایہ سر پر اٹھائے یہاں آنے کو تیار ہو جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں