شادی کے نام پر ٹھگی

کچھ عرصہ قبل ہماری جاننے والی ایک خاتون جرمنی سے اسلام آباد تشریف لائیں۔ وہ اپنے جوان بیٹے کے لیے کسی مناسب رشتہ کی تلاش میں تھیں۔ انہوں نے ضرورت رشتہ کے اشتہارات پڑھنے کے بعد راولپنڈی کے ایک میرج بیورو سے رابطہ کیا۔ ایک تیز طرار بڑھیا جیسے ہوا میں اڑ کر ہمارے ہاں آن پہنچی اور اس نے آتے ہی مہمان خاتون سے دس ہزار روپے بطور فیس جھاڑ لیے۔ اس نے بیرونی ممالک میں پیدا ہونے والی کچھ لڑکیوں کے فوٹو دکھائے۔ اب یہ سربستہ راز تو خدا ہی جانے کہ یہ تتلیاں واقعی ولایتی تھیں یا دیسی۔ بعد ازاں اس میرج بیورو نے انہیں تین چار تھکے ہارے رشتے بھجوائے۔ بات آگے نہ بڑھی تو میرج بیورو والوں نے محترمہ کے فون کا جواب دینا ہی بند کر دیا کہ ان کی اصل دلچسپی صرف فیس وصول کرنے کی حد تک تھی۔ ہماری جاننے والی خاتون نے مایوس ہو کر ایک اور دفتر سے رابطہ کیا۔ وہاں بھی انہیں اسی قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ اس قسم کے اشتہاری میرج بیورو کے پاس اگر بھولا بھٹکا، ایک آدھ رشتہ کہیں سے آ جائے تو اسے محض ایک اتفاق جانیے، ورنہ چند مخصوص خاندانوں سے ان کا رابطہ ہوتا ہے۔ یہ خاندان ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں یا بزنس میں ساجھے دار؛ چنانچہ جونہی کوئی نیا مرغا پھنسا وہ مل ملا کر اس کا گوشت نوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
آج کا پاکستان شدید ترین بے روزگاری کے چنگل میں تڑپ رہا ہے۔ صنعت کا پہیہ جام ہے۔ سرکاری نوکریاں ملتی نہیں، گولڈن ہینڈ شیک شروع ہیں۔ مستقبل سے مایوس لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر باہر بھاگ رہے ہیں۔ 
ایک جانب اگر بیرون ملک بھجوانے والے ایجنٹ حضرات ضرورت مندوں کا 'جھٹکا‘ کرنے کے در پے ہیں تو دوسری طرف یہ میرج بیورو والے ان کی جیب ہلکی کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ایجنٹ تو ان سے لاکھوں روپے ایڈوانس مانگتے ہیں جبکہ میرج بیورو والے صرف دس ہزار روپے فیس کے عوض انہیں ایک عدد بیوی، نقد پیسے، باہر کا مستقل ویزا اور کروڑوں کے بزنس کا اکلوتا وارث بنانے کا جھانسہ دیتے ہیں۔ آیئے اک نظر دیکھتے چلیں کہ یہ عیار لوگ ایک عام آدمی کو زیر دام لانے کے لیے کس قسم کا دانہ پھینکتے ہیں۔
''ہمیں اپنی 19سالہ اکلوتی، کنواری، خوبصورت اور پڑھی لکھی امریکن گرین کارڈ ہولڈر بیٹی کیلیے ایک ایسا رشتہ چاہیے جو باہر آ کر ہمارا کروڑوں کا کاروبار سنبھال سکے۔ ہماری کوئی شرط نہیں۔ رنڈوے اور دوسری شادی والے بھی ملیں۔ ہم لڑکے کے والدین کو دس لاکھ نقد اور پچاس ہزار ماہانہ خرچہ دیں گے۔ اس کی پہلی بیوی اور بچوں کو بھی کوٹھی اور خرچہ دیا جائے گا۔ جوابی لفافے کے ساتھ خط لکھیں...پوسٹ بکس فلاں فلاں...‘‘
پاکستان میں پیدا ہونے والی کوئی 19سالہ لڑکی آج کسی شادی شدہ مرد کی دوسری بیوی بننے کے لیے تیار نہیں؛ چہ جائیکہ یہ شادی شدہ مرد غریب بھی ہو۔ ذرا ادھر ملاحظہ ہو کہ امریکہ میں پلنے والی 19سالہ خوبرو لڑکی، رنڈوے یا پہلے سے شادی شدہ بڈھوں کے ساتھ بیاہ رچانے کے لیے بے قرار ہے۔ یہ رنڈوے امریکہ پہنچتے ہی کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک ٹھہریں گے۔ ان کے والدین اور بچوں کو اچھا خاصا ماہانہ خرچ ملے گا۔ یعنی ان کا سر کڑاہی میں ہو گا اور ٹانگیں گھی میں۔ یہ اشتہار پڑھ کر اگر سو آدمی بھی پھنس جائیں تو اس میرج بیورو کی چاندی ہو گئی۔ ذرا اگلا اشتہار ملاحظہ کیجیے: ''میں 26سالہ بیوہ، برٹش نیشنلٹی ہولڈر، حافظ قرآن،برطانیہ میں ذاتی بزنس۔ ایسا شخص بھی قبول جو دوسری شادی کرے۔ اس کے بیوی بچوں کو پاکستان میں کوٹھی، پچاس لاکھ روپے نقد اور ماہانہ خرچ بھی دیا جائے گا۔ ہماری کوئی شرط نہیں صرف لالچی حضرات سے معذرت، پوسٹ بکس فلاں فلاں...‘‘
اتنا لالچ بھڑکانے کے بعد بھی جو 'لالچی‘ نہ بنے اور اس میرج بیورو سے رابطہ نہ کرے، بھلا وہ بھی کوئی بندہ بشر ہوا۔ ایک حسین و جمیل 26سالہ 'حافظ قرآن‘ بیوہ (جو پچھلے دو سال سے 26 سالہ ہی چلی آ رہی ہے) کروڑوں کے بزنس کی تن تنہا مالک ہے۔ اگر اس کا کوئی آگاپیچھا ہوتا تو کیا وہ بے چاری اپنی شادی کا خود اشتہار دیتی؟ جس خوش بخت کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی، سمجھئے اس کی لاٹری نکل آئی۔ وہاں بھی عیش اور یہاں پہلی بیوی بچوں کے بھی عیش۔ سچ پوچھیے تو یہ مراعات سن کر اپنا دل بھی جیسے پھڑک اٹھا ہو؛ تاہم یہ دیکھ کر اچنبھا سا ہوا کہ اس برطانوی نیشنلٹی ہولڈر کو کیا اتنا بھی علم نہیں کہ برطانوی قانون کے مطابق وہ کسی ایسے آدمی سے شادی نہیں کر سکتی جو پہلے سے شادی شدہ ہو؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ اس کا ہونے والا 'سرتاج‘ اس کا سہارا بننے کے بجائے جیل میں چکی پیستا پھرے؟
شادی کی خواہش مند بیوہ لڑکی کی عمر 22سال سے لے کر 28سال کے درمیان رہتی ہے۔ کبھی اُسے 'برٹش بورن‘ کر دیا جاتا ہے اور کبھی امریکن گرین کارڈ ہولڈر۔ وہ کبھی کبھار جاپان کی نیشنلٹی بھی حاصل کر لیتی ہے لیکن وہ ہر شکل، ہر عمر، ہر ذات اور ہر حالات کے دیسی بندے سے شادی کرنے کے شوق میں 'آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے‘‘ کی دھن گنگناتی رہتی ہے۔
اس قسم کے معاملات بیشتر صورتوں میں نہ صرف دھوکا اور فراڈ ہوتے ہیں بلکہ عورت کی توہین اور پوری قوم کی تضحیک کے برابر ہیں۔ یوں تو چوروں اور ڈاکوئوں کا بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہوا کرتا ہے لیکن بدبختی سے ہمارے حصے میں آنے والے سیاسی بدعنوان اور سماجی ٹھگ اس وصف سے بھی عاری ہیں‘ یعنی اس شعبے میں بھی دو نمبر کے لوگ آن ٹپکے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں