پچھلے چند روز میں جو کچھ اسلام آباد میں ہوا‘ ہو سکتا ہے وہ ہماری نوجوان نسل کیلئے کوئی نئی بات ہو لیکن میرے جیسے لوگ‘ جو پچھلے 30سال سے صحافت میں رہ کر سیاست کے اس کھیل کو بڑے قریب سے دیکھ رہے ہیں‘ ان کیلئے اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ کبھی بڑا رومانس تھا سیاست اور سیاستدانوں سے۔ وہی بات کہ دور کے ڈھول سہانے۔ مگر جتنی ان سے قربت بڑھتی گئی‘ اتنی ہی دوری زیادہ ہوتی چلی گئی۔ جتنا ایک دوسرے کو جانتے گئے‘ جتنا ایک دوسرے کی اوقات کا پتا چلتا گیا‘ اتنا ہی ایک دوسرے سے دل بھرتا گیا۔ ایک دور تھا جب پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ بڑے بڑے سیاستدانوں اور صحافیوں کی میزوں پر رش ہوتا تھا۔ ہمارے جیسے جونیئرز کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی کونے میں بیٹھ کر ہمیں بھی وہ باتیں سننے کا موقع مل جائے۔ مگر پھر نہ وہ سیاستدان رہے نہ وہ صحافی‘ جو اپنے اپنے اخبارات میں پارلیمنٹ ڈائری لکھتے تھے اور سب کو اُڑا کر رکھ دیتے تھے۔ اب سب کچھ ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اگر اب بھی کوئی آپ کو پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں بیٹھا نظر آتا ہے تو وہ نصرت جاوید ہے۔ اولڈ سکول‘ اولڈ گارڈ۔ اگرچہ وہ بھی اس مایوسی کا شکار ہوئے جس کا ہم سب ہوئے۔ اب اس ہاؤس میں جائیں تو اپنا آپ اجنبی لگتا ہے۔ سب نئے چہرے‘ نئے نوجوان۔ پرانے صحافی نہ رہے یا انہوں نے پارلیمنٹ میں آنا چھوڑ دیا۔ ضیاء الدین‘ شاہین صہبائی‘ عامر متین‘ محمد مالک جیسے بڑے سیاسی کمنٹیٹرز غائب ہو گئے۔ اخبارات میں سیاسی ڈائریاں لکھنے کا رواج ہی ختم ہو گیا۔ حامد میر اور خوشنود علی خان اردو اخبارات میں سیاسی ڈائریاں لکھتے تھے‘ اب ٹی وی جرنلزم نے سب کچھ ختم کر دیا۔ اب کون اگلے دن تک کا انتظار کرے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب سیاست میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ہر رپورٹر پر دباؤ ہے کہ وہ غلط سلط‘ جو بھی خبر ہے‘ بس فائل کر دے۔ ذرائع کا کہہ کر کچھ بھی بول دے۔ یوں ان دنوں رپورٹرز نے عوام کو کنفیوز کرنے کا کام زیادہ کیا ہے۔ لیکن بیچارے ٹی وی رپورٹرز بھی کیا کریں‘ جب خود سیاستدان ہی روز ایسے کرتب دکھا رہے ہوں کہ بندہ حیران ہو کر سر پکڑ لے۔ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ بلاول بھٹو‘ شہباز شریف اور دیگران چودھری شجاعت حسین کے گھر جمع ہوئے کہ عہدے بانٹ کر پاور شیئرنگ کر لیں۔ مجھے یاد ہے‘ جس رات یہ سب چودھری شجاعت کے گھر بیٹھے تھے‘ اور میں نے اس ہجوم میں مولانا فضل الرحمن کو غائب پایا تو مجھے شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے اُسی رات اپنے ٹی وی شو میں کہا تھا کہ مجھے یہ آثار اچھے نہیں لگتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن‘ جو پی ڈی ایم حکومت میں حصہ دار تھے‘ وہ اگلی حکومت کی پاور شیئرنگ کے وقت غائب ہوں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ مولانا فضل الرحمن ہی تھے جو ساڑھے تین سال تک عمران خان کی حکومت کے خلاف تنہا لڑتے رہے‘ تنہا پی ڈی ایم اتحاد کو چلاتے رہے‘ سڑکوں پر عمران خان کو ٹف ٹائم دیتے رہے اور آج جب یہ سب مل کر پاور شیئرنگ کر رہے ہیں تو وہ غائب ہیں۔ جس وقت مولانا عمران خان کا مقابلہ کر رہے تھے‘ اُس وقت نواز شریف لندن اور زرداری صاحب اور شہباز شریف جیل میں تھے۔ لیکن جب ان سب کو حکومت مل رہی تھی تو مولانا کے علاوہ سب سیاستدان اکٹھے تھے۔ اگرچہ مولانا کو بھنک پڑ چکی تھی کہ دبئی میں نواز شریف اور زرداری صاحب کے مابین کچھ خفیہ معاملات طے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی‘ کس کو کون سا عہدہ ملے گا۔ فارمولے کے تحت نواز شریف نے وزیراعظم اور زرداری صاحب نے صدر بننا تھا۔ نگران حکومت بننے سے کچھ عرصہ پہلے جب مولانا تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے اشارے کنایوں میں کچھ سنگین سوالات اٹھائے اور خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کر دیا۔ مولانا کو علم تھا کہ وزیراعظم انہیں کوئی نہیں بنائے گا لیکن صدارت کا چانس نکل سکتا تھا۔ اس بات کا احساس نواز شریف اور زرداری صاحب کو بھی تھا کہ مولانا کو اگر ساتھ بٹھایا تو مولانا صدارت سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اور نواز شریف اور زرداری صاحب ہرگز مولانا کو یہ عہدہ دینے کو تیار نہ تھے۔ لگتا تھا کہ اس دفعہ نواز شریف اور آصف زرداری نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے‘ اس دفعہ مولانا کو پاور شیئرنگ سے دور رکھا جائے گا۔ انہیں علم تھا کہ جو کچھ مولانا مانگ رہے ہیں‘ اتنی قیمت بنتی نہیں۔ ایک طرف یہ لوگ پیکیج بڑھانے کو تیار نہ تھے‘ دوسری طرف مولانا صدارت سے کم پرراضی نہ تھے۔ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد جب زرداری صاحب اور نواز شریف اقتدار بانٹ رہے تھے تو اس وقت شاید تبدیل شدہ حالات میں مولانا اتنا بڑا مطالبہ نہ کرتے جو وہ اب نئی ترامیم پیکیج کیلئے کررہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ پرانے عہدے مانگ لیتے‘ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ اور دو‘ تین وزارتیں۔ لیکن مولانا کو تب اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔ اس وقت سوچا گیا کہ سب کچھ اپنے گھر میں بانٹ لو‘ کسی کو کچھ دینے کی ضرورت نہیں۔ شریفوں کو لگا کہ پتا نہیں دوبارہ اقتدار ملے یا نہ ملے‘ ممکن ہے کہ یہ آخری حکومت ہو لہٰذا جو کچھ ہے اس دفعہ سب سمیٹ لو۔ یوں نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیراعظم‘ مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب اور اپنے سمدھی کو نائب وزیراعظم بنوا دیا۔ باقی کے پارٹی ممبرز وزیر بن گئے۔ زرداری صاحب نے ان سے بڑی ڈیل لی۔ وہ خود صدر بن گئے‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنے گورنر لگوا لیے‘ چیئرمین سینیٹ بھی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بنوا کر پارٹی کو اپوزیشن میں بٹھا دیا کہ ہم نے حکومت میں شامل نہیں ہونا۔ ہمارا جب دل کرے گا ہم حکومت کا ساتھ دیں گے اور جب دل کرے گا ہم ڈٹ کر اپوزیشن کریں گے۔ مطلب ہم وکٹ کے دونوں طرف کھیلیں گے۔ زرداری صاحب اس معاملے میں بڑے کلیئر تھے۔
اب جونہی مولانا فضل الرحمن کی ضرورت پڑی ہے تو حیران کن طور پر صدر زرداری ہوں‘ نواز شریف‘ شہباز شریف یا بلاول بھٹو‘ سب مولانا کے گھر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل شاہ خاور کہہ رہے تھے کہ یہ سب لوگ اتنی دفعہ مولانا کے گھر جا چکے ہیں کہ انہیں تو اب مولانا کے ڈرائنگ روم کے پردوں اور صوفوں کے ڈیزائن تک یاد ہوگئے ہیں۔ اندازہ کریں یہ سیاست کیا چیز ہے۔ وہ جو مولانا کو سیاسی طور پر اپنے لیے ناکارہ سمجھ کر فارغ کر چکے تھے اور انہیں اس قابل بھی نہ سمجھا کہ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد پاور شیئرنگ کرتے وقت چودھری شجاعت حسین کے گھر پر ہی مدعو کر لیتے‘ آج وہ لوگ مولانا کے گھر سے اٹھنے کو تیار نہیں۔ اس طرح وہ عمران خان اور مولانا جو ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے رہے‘ وہ آج گلے مل رہے ہیں۔
سیاست بے رحم اور سنگدل لوگوں کا کام ہے۔ عام انسان یہ کچھ نہیں کر سکتا کہ جس سے وہ گالیاں کھائے یا جسے گالیاں دے‘ اگلے دن اسی کے ساتھ ہنس بیٹھ کر کھانے کھائے کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں اور کہاں سے یہ مخلوق اُترتی ہے؟ اپھر ان لوگوں نے عوام کو بھی اپنی طرح کا بنا دیا ہے کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اب عوام خود ان لوگوں کی ایسی حرکتوں کا جواز پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
نہ زرداری صاحب‘ نواز شریف‘ بلاول بھٹو کے فالورز ان سے پوچھتے ہیں کہ جب آٹھ فروری کے بعد مولانا قابلِ قبول نہ تھے تو آج ضرورت پڑنے پر کیسے وہ ضروری ہو گئے؟ نہ عمران خان اور مولانا کے حامی اپنے اپنے مہان لیڈروں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ وہ کیسے ایک دوسرے کے لیے اچانک نیک ہو گئے؟