نفرت کی خلیج…(آخری حصہ)

...اور یہ بھی ایک خوفناک حقیقت ہے کہ افغان مجاہدین نے پچھلے تیس برسوں کے دوران جس بے رحمی کے ساتھ ایک دوسرے کو قتل کیا، اس کی مثال جدید تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔ انہوں نے دس لاکھ بے گناہ مسلمان اپنے گروہی اقتدار کی قربان گاہ پر ذبح کر دیے لیکن اس باہمی کشت و خون کو جہاد ہی کا نام دیا جاتا رہا۔ پچھلے تین عشروں سے کئی ملین افغان مہاجرین پاکستان کے کیمپوں میں گل سڑ رہے ہیں اور اب ایک بار پھر لاکھوں نئے مہاجرین کا سیلاب سرحدوں پر متلاطم ہے۔ ایران انہیں لینے پر آمادہ ہے، نہ پاکستان میں مزید بوجھ سہارنے کی سکت ہے۔ ازبکستان اور تاجکستان نے پہلے ہی اپنی سرحدوں پر خاردار تار لگا رکھے ہیں۔ گویا یہ بدنصیب، بے گھر اور تباہ حال قوم ایک بار پھر 'نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ کاش! اسامہ نے انہیں معاف رکھا ہوتا اور کسی دوسری جگہ بیٹھ کر اپنی جنگ لڑتا تاکہ میزائلوں اور راکٹوں کی سنسناہٹ سے ان لوگوں کی توند سے بھی چربی پگھلتی، جنہوں نے ساری دولت پاکستان یا افغانستان کے بجائے یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں جمع کروا رکھی ہے۔ پہلے ہی بھوک سے بے حال افغانوں اور پاکستانیوں کو مروانے سے کیا فائدہ؟
کیا تاریخ نے کبھی ایسی جنگ بھی دیکھی ہو گی کہ رات بھر دشمن کے طیارے بمباری کریں اور دن کو قحط زدہ عوام کے لیے خوراک پھینکیں؟ ادھر لوگ بھوک سے کلبلا رہے ہوں اور ادھر حکومت اپنی انا کی خاطر اس اناج کو جلا بھی رہی ہو، لیکن اسی دشمن کی بنائی ہوئی بندوقیں بھی اٹھا رکھی ہوں اور ادھار مانگی گولیاں بھی! پچھلے بیس برسوں سے افغانستان کے تعلیمی اداروں کی اجاڑ عمارتیں اپنے حال پر ماتم کناں ہیں۔ سکول بچوں کی آواز سننے کو ترس گئے ہیں۔ جن نوجوانوں نے انجینئر اور ڈاکٹر بننا تھا، وہ دھول اور مٹی میں اٹے پہاڑوں پر مورچہ زن ہیں۔ اگر کہیں ہسپتال موجود ہے تو دوا میسر نہیں۔ چنانچہ بمباری قندھار میں ہوتی ہے تو زخمیوں کو مرہم پٹی کے لیے کوئٹہ لایا جاتا ہے۔
اور دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی؟ انسان نے 1969ء میں چاند پر قدم رکھا اور 1976ء میں پہلا سیارہ مریخ پر اتارا۔ ان اقوام کی سائنسی پیش رفت کا یہ عالم ہے کہ سمندر کے پیٹ سے میزائل نکلتا ہے اور فضائوں کو چیرتا ہوا کئی ہزار میل دور سیدھا اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے اور ادھر افغانستان میں سائنس، ٹیکنالوجی اور الیکٹرونکس کفر سے عبارت ہیں۔ ٹی وی پر قدغن ہے۔ ٹیپ سننا گناہ ہے۔ فوٹو کھینچنا گردن زدنی ہے۔ ٹخنوں سے اوپر شلوار کے حوالے سے ڈنڈے پڑتے ہیں۔ کیا اسلام کی قیادت اور دنیا کی سیادت کا یہی راستہ ہے؟ کیا کہکشائوں پر کمند ڈالنے کا یہی طریقہ ہے؟ کیا کائنات کے اسرار و رموز پر غلبہ پانے کا یہی فارمولا ہے؟ کیا دشمنوں کو زیر کرنے کا یہی راستہ ہے؟ اگر عالم اسلام کی رہبری کا فریضہ انہی طالبان نے نبھانا ہے، اگر خاک و خون میں لتھڑے ہوئے اسی افغانستان نے اسلام کو اقوام عالم میں متعارف کرانا ہے تو پھر ہو چکا بیڑہ پار! اور جو لوگ طالبان کے ہست و بود کو اسلام کی فتح اور شکست سمجھ رہے ہیں، ان کی فراست کا بھی خدا حافظ!
ادھر ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں، جو نسیم حجازی کے تخیلاتی ناولوں کو ہی مصدقہ تاریخ اسلام سمجھتے ہیں۔ سرابوں کے سحر میں گرفتار یہ حضرات ہر بحران میں قلم کا تیشہ اٹھائے اخباروں کے صفحات پر نئے محمد بن قاسم اور نئے یوسف بن تاشفین تراشنے میں 
مصروف ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی ایسا ہیرو چاہیے، جس کا تعلق اپنی مٹی اور اپنی دھرتی سے نہ ہو۔ انہیں اپنی قوم اور اپنے سماج میں کوئی ہیرو نظر نہیں آتا۔ انہیں اپنی تاریخ میں کوئی بہادر دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے اذہان ماضی کے قبرستان میں حنوط ہیں، اسی لیے انہوں نے 18کروڑ پاکستانیوں کو مٹی کا تودہ فرض کر رکھا ہے۔ یہ بے حس طائفہ افغانوں کے خالی معدے پر جنگ کا دف بجاتے ہوئے پاکستان کو بھی اس آگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔
اور یہ جنگ امریکہ کے لیے باعث ندامت بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جنہوں نے آج کی واحد سپرپاورکو دنیا کے سب سے زیادہ غریب ملک کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ وہ کون سے مسائل ہیں، جنہوں نے اسے مسلم ممالک میں نفرت کی علامت بنا رکھا ہے؟ اور وہ کون سی وجوہ ہیں، جو اسامہ بن لادن ایسے باغی پیدا کر رہی ہیں؟ 
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق گیارہ ستمبر کی خوفناک واردات میں صرف عرب جوان ملوث تھے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر اس کی وجوہ بھی عرب ممالک ہی میں تلاش کی جانی چاہئیں۔ اور یہ وجوہ بہت واضح ہیں یعنی اسرائیل کو لگام دو، مسئلہ فلسطین حل کرو، عراق پر بمباری بند کرو اور منصفانہ بین الاقوامی اقتصادی نظام اپنائو۔ یہ مطالبات مشرف اور فہد کے بھی تھے، جو شاید مجبوراً بول نہیں سکے اور ان عوام کے بھی، جو سڑکوں پر نعرہ زن رہے۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی 180زاویے کی تبدیلی کی متقاضی ہے۔ افغانستان میں فوراً ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت بنائی جائے، جو ملک میں آباد ساری قومیتوں، سارے فرقوں، سارے ثقافتی اور لسانی گروہوں کی نمائندہ ہو۔ ایسی حکومت کی بھرپور مالی امداد کی جائے تاکہ وہ عوام کو از سر نو آباد کر سکے۔ ایک ایسی حکومت ہی افغانستان کو باہمی کشت و خون اور دہشت گردی سے نجات دلا سکتی ہے۔ 
یورپ اور امریکہ کے لاکھوں عوام کی جانب سے 'جنگ بند کرو‘ کے نعرے اور افغانستان کے حق میں جلوس اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ آج صلیبی جنگوں کا دور بیت چکا۔ کوئی ذی فہم عیسائی اس بات پر تیار نہیں کہ مسلمانوں کو قتل کر دو اور نہ کوئی ذی شعور مسلمان اسامہ کی یہ بات مان سکتا ہے کہ ہر یہودی، ہر عیسائی کی گردن مار دو۔ یہ کرۂ ارض پوری انسانیت کی میراث ہے اور ہم سب نے اسی پر رہنا ہے۔ مذاہب محبت کا درس دیتے ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انہیں نفرت کی خلیج میں بدلے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں