نفرت کی خلیج…(1)

اگر تاریخ کو ایک نشست میں سمیٹنا ممکن ہوتا تو میں تفصیل سے لکھتا کہ پچھلی صدی کے دوران افغان عوام پر کیا گزری اور انہیں آگ کے کیسے کیسے دریائوں کو عبور کرنا پڑا۔ مگر کالم کا تنگ وجود اس پھیلائو کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا پچھلی صدی کے افغان حکمرانوں کے عبرتناک انجام پر ہی اکتفا کیجیے۔ ڈھونڈھنے والوں کو اس میں بھی مستقبل کی بہت سی نشانیاں مل جائیں گی۔
امیر حبیب اللہ خان 1905ء میں تخت نشین ہوا اور چودہ سال بعد 1919ء میں قتل کر دیا گیا ۔ اس کی جگہ اس کا ترقی پسند بیٹا امیر امان اللہ خان مسند اقتدار پر بیٹھا۔ امیر امان اللہ نے بڑی پامردی کے ساتھ تیسری افغان انگریز جنگ لڑی لیکن جونہی اپنے پسماندہ عوام کی تعلیمی اور سماجی حالت سدھارنا چاہی، ملائیت نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ عائد کرتے ہوئے پورے ملک میں شدید منافرت، کشت و خون اور بغاوت کا سماں پیدا کر دیا۔ 1928ء میں امان اللہ تخت سے دستبردار ہوا اور جلاوطن ہو کر اٹلی چلا گیا۔ ملک پر بچہ سقہ نے قبضہ کر لیا، جو ایک اَن پڑھ اور تیسرے درجے کا چوراُچکا تھا۔ ملائیت نے اس بدروح کو 'غازی‘ اور 'خادم الدین‘ 
ایسے خطابات سے نوازا۔ اس کا پہلا شاہی فرمان یہ تھا کہ تمام تعلیمی ادارے بند کر کے اساتذہ کی تنخواہیں مساجد کے آئمہ کے نام کر دی جائیں۔
جنرل نادر خان اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی خاطر فرانس کی سفارت چھوڑ کر پلٹا۔ بچہ سقہ کا تعلق تاجک قومیت سے تھا۔ نادر خان نے اس کے خلاف پشتون تضاد کو ہوا دیتے ہوئے ''مال تمہارا اور سر ہمارا‘‘ کے قبائلی اصول کے تحت پکتیا سے ایک بڑا پشتون لشکر اکٹھا کر لیا۔ اس لشکر کے ساتھ وہ کابل پہنچا تو بچہ سقہ نے قرآن کی امان پر ہتھیار پھینک دیے۔ تاہم نادر خان نے قصرِ شاہی میں قدم رکھتے ہی اپنے وعدے کے برعکس اس کی گردن مار دی۔ یہ قبائلی لشکر کئی دنوں تک کابل اور اس کے گردو نواح کو لوٹتا رہا۔ 1932ء میں نادر خان کو جنرل غلام نبی چرخی کے منہ بولے بیٹے نے سرعام گولی مار کر اپنے منہ بولے باپ کے قتل کا بدلہ لیا۔ نادر خان 
کے بعد اس کے بیٹے ظاہر شاہ نے تاج و تخت سنبھالا۔ وہ مزاج کا دھیما انسان تھا، اس لیے چالیس برس پورے کر گیا۔ 1973ء میں اس کے بہنوئی، سالے اور چچازاد بھائی دائود خان نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ 
اپریل 1978ء میں افغان فوج کے باغی دستوں نے نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا۔ دائود خان اسی جنگ و جدل کے دوران امام دین نامی فوجی افسر کے ہاتھوں اپنے خاندان سمیت مارا گیا۔ سوشلسٹ حکومت نے قبائلی سماج کے داخلی تقاضوں کی پروا کیے بغیر فوری اصلاحات کا آغاز کر دیا۔ سوشلسٹوں نے جاگیرداروں سے زمین چھین کر غریب دہقانوں میں بانٹ دی۔ تمام سودی قرضے معاف کر دیے۔ شادی کے نام پر عورت کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔ عورتوں اور مردوں کے لیے تعلیم بالغاں کے مراکز کھول دیے۔ قبائلی سماج یہ اصلاحات ہضم نہ کر سکا، چنانچہ ملائیت نے ان تبدیلیوں پر کفر کا فتویٰ عائد کرتے ہوئے ایک بار پھر 'جہاد‘ کا اعلان کر دیا۔
ادھر خود سوشلسٹ پارٹی کے اندر اقتدار کی کشمکش انتہائی خوفناک صورت اختیار کر گئی۔ ستمبر 1979ء میں وزیراعظم حفیظ اللہ امین اپنے گرو اور استاد نور محمد ترہ کئی کو قتل کر کے خود صدر بن گیا۔ دسمبر 1979ء میں روسی فوج نے امین کی گردن مار کر ببرک کارمل کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا۔ 1987ء میں پارٹی کے سیکرٹری نجیب اللہ نے اپنے معلم اعظم کارمل کو جلاوطن کر دیا اور اقتدار پر خود قابض ہو گیا۔ 1992ء میں جنرل نبی اعظمی اور رشید دوستم نے نجیب اللہ کا تختہ الٹ دیا اور 'مجاہدین‘ سے مل گئے۔ نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لے لی۔ 'مجاہدین‘ نے مجددی کو ملک کا پہلا اسلامی صدر بنا دیا۔ چندے بعد اقتدار پر ربانی قابض ہو گیا اور مجددی خاموشی سے جلاوطن ہو گیا۔ 1996ء میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے ربانی سے اقتدار چھین لیا۔ ربانی کابینہ سمیت کابل سے فرار ہو گیا۔ طالبان نے نجیب اللہ کو یو این کے دفتر سے نکالا اور پھر اسے کئی دنوں تک سرعام پھانسی پر لٹکائے رکھا۔
...اور یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جن سات افغان جماعتوں نے سی آئی اے کے 'اہل کتاب بھائیوں‘ کے سائے تلے 1980ء کے عشرے میں پشاور سے 'روسی کفار‘ کے خلاف جہاد کی قیادت فرمائی تھی اگر آج ان میں سے کوئی زندہ بچا ہے تو وہ اپنی دھرتی پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اور یہ درس عبرت بھی ملاحظہ کیجیے کہ 1980ء میں سی آئی اے کی زیرپرستی جہاد کے لیے افغانستان میں آنے والا ایک گمنام عرب نوجوان ہی، بعد میں امریکہ کے لیے اسامہ بن لادن بن گیا۔ سچ ہے کہ بسا اوقات اپنے کیے کا بھی کوئی علاج نہیں ہوا کرتا۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں